Dure-Mansoor - Al-Maaida : 27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ١ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ١ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ١ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
وَاتْلُ : اور سنا عَلَيْهِمْ : انہیں نَبَاَ : خبر ابْنَيْ اٰدَمَ : آدم کے دو بیٹے بِالْحَقِّ : احوال واقعی اِذْ قَرَّبَا : جب دونوں نے پیش کی قُرْبَانًا : کچھ نیاز فَتُقُبِّلَ : تو قبول کرلی گئی مِنْ : سے اَحَدِهِمَا : ان میں سے ایک وَلَمْ يُتَقَبَّلْ : اور نہ قبول کی گئی مِنَ الْاٰخَرِ : دوسرے سے قَالَ : اس نے کہا لَاَقْتُلَنَّكَ : میں ضرور تجھے مار ڈالونگا قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا : بیشک صرف يَتَقَبَّلُ : قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اور آپ ان کو آدم کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح طور پر پڑھ کر سنایئے جبکہ ان دونوں نے ایک ایک نیاز پیش کی، سو ان میں سے ایک کی نیاز قبول کرلی گئی اور دوسرے کی نیاز قبول نہ کی گئی اس نے کہا میں تجھے ضرور بالضرور قتل کروں گا دوسرے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ صرف تقوی والوں سے قبول فرماتا ہے۔
آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کی قربانی (1) امام ابن جریر نے ابن مسعود اور صحابہ میں سے کچھ لوگوں سے روایت کیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی جو بھی اولاد پیدا ہوتی تھی۔ لڑکے کے ساتھ ایک لڑکی بھی پیدا ہوتی تھی۔ اس پیٹ کے لڑکے کی شادی دوسرے پیٹ کی لڑکی سے کرتے تھے۔ اور اس پیٹ کی لڑکی کی شادی دوسرے پیٹ کے لڑکے سے کرتے تھے۔ یہاں تک کہ دو لڑکے پیدا ہوئے جن کو قابیل اور ھابیل کہا جاتا تھا۔ قابیل کھیتی باڑی والا آدمی تھا اور ہابیل مویشیوں والا آدمی تھا۔ قابیل ان دونوں میں سے بڑا تھا اور اس کی بہن (جو اس کے ساتھ پیدا ہوئی تھی) وہ ہابیل کی بہن سے زیادہ خوبصورت تھی۔ ہابیل نے قابیل کی بہن سے نکاح کرنا چاہا تو اس نے انکار کردیا۔ اور وہ کہنے لگا یہ میری بہن ہے میرے ساتھ پیدا ہوئی اور یہ تیری بہن زیادہ اچھی اور میں حق دار ہوں کہ اس کے ساتھ نکاح کروں مگر اس کے والد (آدم علیہ السلام) نے ہابیل سے نکاح کرنے کا حکم دیا اس نے انکار کردیا۔ اور دونوں نے اللہ کی طرف قربانی پیش کی کون اس لڑکی کا زیادہ حق دار ہے۔ اور آدم (علیہ السلام) دونوں سے غائب ہوگئے مکہ کی طرف اور وہ اس لڑکی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ آدم (علیہ السلام) نے آسمان سے فرمایا، میرے لڑکے کی حفاظت کروامانت کے ساتھ تو اس نے انکار کردیا، پھر زمین سے فرمایا تو اس نے بھی انکار کردیا۔ پھر پہاڑوں سے فرمایا تو انہوں نے بھی انکار کردیا تو قابیل سے فرمایا تو اس نے کہا ہاں میں تیار ہوں (اور اپنے والد سے کہا) کہ تو جائے گا اور واپس آئے گا اور تو اپنے اہل و عیال کو اس حال میں پائے گا جو تجھ کو خوش کر دے گا۔ جب آدم (علیہ السلام) چلے گئے تو ان دونوں نے قربانی پیش کی قابیل اس پر فخر کرتا تھا اور کہتا تھا میں تجھ سے اس کا زیادہ حقدار ہوں۔ میری بہن ہے اور میں تجھ سے بڑا ہوں۔ اور میں اپنے والد کا وحی ہوں۔ جب ہابیل نے ایک موٹے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے ایک سٹوں کا گھٹا پیش کیا اس میں ایک بڑا سٹہ دیکھا اس کو ہاتھ سے صاف کیا اور کھا گیا۔ آگ آئی ہابیل کی قربانی کھا گئی اور قابیل کی قربانی کو چھوڑ دیا۔ تو وہ غصہ ہوا اور کہنے لگا میں ضرور تجھ کو قتل کروں گا یہاں تک کہ تو میری بہن سے نکاح نہیں کرسکے گا۔ ہابیل نے کہا لفظ آیت انما یتقبل اللہ من المتقین انی ارید ان تبوا باثمی واثمک یعنی میرے قتل کا گناہ تیرے گناہ کے ساتھ مل جائے جو تیری گردن میں ہوگا۔ (2) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن عساکر سند جید کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو منع کیا گیا تھا کہ اپنی لڑکی کا نکاح اس کے جڑواں بھائی سے کریں بلکہ یہ حکم کیا گیا کہ وہ اس کے دوسری باری میں پیدا ہونے والے بھائیوں سے نکاح کریں اور (اماں حوا) کے ہر پیٹ سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتی تھی۔ اس دوران ایک لڑکی خوبصورت پیدا ہوئی اور دوسرے بدصورت پیدا ہوئی۔ بدصورت لڑکے کا بھائی نے کہا میں تیری بہن سے نکاح کروں گا۔ اور تو میری بہن سے نکاح کرے گا۔ اس نے کہا نہیں میں اپنی بہن کا زیادہ حقدار ہوں پھر دونوں نے قربانی پیش کی۔ بکریوں والا سفید دنبے لے آیا اور کھیتی والا غلہ کا ایک ڈھیر لے آیا دنبہ والے کی قربانی قبول کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں چالیس سال تک خزانہ کئے رکھا اور یہ وہ مینڈھا ہے جس کو ابراہیم (علیہ السلام) نے ذبح فرمایا تھا اور کھیتی والے کی قربانی قبول نہیں کی گئی اور آدم کی ساری اولاد اس کاشتکار کی اولاد ہیں۔ (3) امام اسحاق بن بشر نے المبتداء میں ابن عساکر نے تاریخ میں جویبر کے طریق سے اور مقاتل نے ضحاک سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کی آدم (علیہ السلام) کی چالیس اولاد پیدا ہوئی۔ بیس لڑکے اور بیس لڑکیاں ان میں سے ہابیل اور قابیل، صالح اور عبد الرحمن زندہ رہے جس کا نام عبد الحارث اور وود تھا جس کو شیث کہا جاتا تھا۔ اور اس کو ہبۃ اللہ کہا جاتا تھا۔ اور اس کے بھائیوں نے اس کو سردار بنایا تھا اور آپ کی اولاد میں سواع یغوث اور نسر پیدا ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا کہ اس بچے کی بہن کی دوسرے بچے کی بہن سے شادی کر دے۔ قربانی قبول ہونے کی علامت (4) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا آدم (علیہ السلام) کے بیٹوں کی یہ حالت تھی کہ وہاں کوئی مسکین نہ تھا کہ ان پر صدقہ کیا جاتا اور ان کی قربانی یہ تھی کہ جسے ایک آدمی پیش کرتا تھا۔ اس دوران کے آدم کے دو بیٹے پیدا ہوئے تھے اچانک ان دونوں نے کہا ہم دونوں قربانی پیش کریں گے۔ ان میں سے ایک بکریاں چرانے والا تھا اور دوسرا کھیتی کرنے والا تھا۔ بکریوں والے نے اپنی بہترین موٹی تازی بکری پیش کی اور دوسرے نے اپنی بعض کھیتی پیش کی۔ آگ نازل ہوئی اور بکری کھا گئی اور کھیتی کو چھوڑ دیا۔ جس کی قربانی قبول نہ ہوئی اس نے اپنے بھائی سے کہا تو لوگوں میں گھومے پھرے گا اور وہ جان لیں گے کہ تو نے قربانی پیش کی تھی وہ تجھ سے قبول کرلی گئی اور مجھ پر لوٹا دی گئی اللہ کی قسم لوگ میری طرف نہیں دیکھیں گے اور تیری طرف دیکھیں گے اس حال میں کہ تو مجھ سے بہتر ہوگا پھر اس نے کہا میں تجھ کو ضرور قتل کروں گا اس کے بھائی نے اس سے کہا میرا کیا گناہ ہے لفظ آیت عربی میں کس سے مدد طلب کروں گا اور میں ضرور اپنے ہاتھ کو تجھ سے روکوں گا۔ (5) امام ابن جریر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا آدم کے وہ بیٹے جنہوں نے قربانی پیش کی ان میں سے ایک کھیتی والا تھا دوسرا بکریوں والا تھا۔ ان دونوں کو حکم دیا گیا کہ قربانی پیش کرو۔ بکریوں والے نے اپنی ایک قیمتی اور موٹی تازی بکری پیش کی جو اس کے نزدیک بہت عمدہ تھی۔ اور کھیتی والے نے اپنی خراب کھیتی پیش کی تنگ دلی کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ نے بکری والے کی قربانی کو قبول فرمایا اور کھیتی والے کی قربانی کو قبول نہ فرمایا اور ان کا یہ قصہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا اور اللہ کی قسم کہ مقتول زیادہ طاقتور تھا لیکن اس کو گناہ سے بچنے نے روک دیا کہ وہ اپنے ہاتھ کو اپنے بھائی کی طرف بڑھائے۔ (6) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت واتل علیھم نبا ابنی ادم سے مراد ہے کہ ہابیل اور قابیل دونوں آدم کی صلب میں سے تھے۔ ہابیل نے اپنے ریوڑ میں سے عمدہ مینڈھا قربانی کے لئے پیش کیا اور قابیل نے اپنی کھیتی میں سے قربانی کے لئے پیش کیا اللہ تعالیٰ نے مینڈھے کی قربانی کو قبول کرلیا۔ اس کے بھائی نے کہا میں تجھ کو ضرور قتل کروں گا پھر اس کو قتل کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک ٹانگ کو اس کی پنڈلی سے اس کی ران تک چسپاں کردیا یہ قتل کے دن سے لے کر قیامت کے دن تک سلسلہ یونہی رہنے لگا۔ اس کا چہرہ یمن کی طرف کردیا وہ جہاں بھی جائے گا اور اس پر سردیوں میں ایک برف کا باڑہ اسے احاطہ میں لئے ہوگا۔ اور گرمیوں میں آگ کا ایک باڑہ احاطہ میں لئے ہوگا۔ اور اس کے ساتھ فرشتے ہوں گے جب بھی ایک فرشتہ جائے گا تو دوسرا آجائے گا۔ (7) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ آیت واتل علیھم نبا ابنی ادم بالحق کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں نبی اسرائیل میں سے تھے اور آدم کی اولاد نہ تھی اور یہ قربانی کا سلسلہ بنی اسرائیل میں جاری ہوا تھا اور یہ پہلا آدمی تھا جو اس طریقے پر مرا۔ (8) امام ابن ابی حاتم نے ابو داؤد ؓ سے روایت کیا اگر مجھے یہ یقین ہوجائے کہ میری ایک نماز اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ہے وہ مجھے دنیا مافیھا سے زیادہ محبوب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت انما یتقبل اللہ من المتقین (9) امام ابن ابی الدنیا نے کتاب التقوی میں علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا تقوی کے ساتھ عمل تھوڑا نہیں ہوتا اور وہ کیسے تھوڑا ہوگا جو قبول کرلیا جائے۔ (10) ابن ابی الدنیا سے عمر بن عبد العزیز (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک آدمی کی طرف لکھا میں تجھ کو اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں وہ ذات تقویٰ کے بغیر (کوئی عمل) قبول نہیں کرتی۔ تقویٰ کے بغیر رحم نہیں فرماتی تقویٰ کے بغیر بدلہ عطا نہیں فرماتی اس کے وعظ کرنے والے تو بہت ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے تھوڑے ہیں۔ (11) ابن ابی دنیا نے یزید بن عیص (رح) سے روایت کیا میں نے موسیٰ ابن اعین سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت انما یتقبل اللہ من المتقین کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا تو حلال چیزوں سے بچیں کہیں ایسا نہ ہو کہ حرام میں پڑجائیں ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے متقین فرمایا ہے۔ (12) امام ابن ابی دنیا نے فضالہ بن عبید (رح) سے روایت کیا ہے اگر میں یہ جان لوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ایک رائی کے دانہ کے برابر (میرا عمل) قبول فرمایا ہے تو یہ مجھے دنیا ومافیھا سے زیادہ محبوب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت انما یتقبل اللہ من المتقین (13) امام ابن سعد اور ابن ابی الدنیا نے قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ عامر بن عبد قیس (رح) نے فرمایا کہ ایک آیت قرآن مجید مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہے میں اس کو عطاء کروں جس کے بدلہ اللہ تعالیٰ مجھے متقین میں سے بنا دے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت انما یتقبل اللہ من المتقین (14) امام ابن ابی الدنیا نے ھمام بن یحییٰ (رح) سے روایت کیا کہ عامر بن عبد اللہ (رح) موت کے وقت روئے ان سے کہا گیا آپ کس لئے روتے ہیں ؟ فرمایا کتاب اللہ میں سے ایک آیت ہے۔ کہا گیا کونسی آیت ؟ فرمایا لفظ آیت انما یتقبل اللہ من المتقین (تلاوت فرمائی) (15) امام ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی بندے سے کوئی عمل قبول نہیں فرماتے یہاں تک کہ اس سے راضی نہ ہوجائیں۔ (16) امام ابن ابی شیبہ نے ثابت (رح) سے روایت کیا کہ مطرف (رح) فرمایا کرتے تھے اے اللہ ! مجھ سے آج کے دن کا روزہ قبول کرلے۔ اے اللہ ! میرے لئے نیکی لکھ دے پھر اس آیت کی تلاوت کرتے لفظ آیت انما یتقبل اللہ من المتقین (17) امام ابن ابی شیبہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت انما یتقبل اللہ من المتقین کے بارے میں فرمایا وہ لوگ جو شرک سے بچتے ہیں۔ (18) امام ابن عساکر نے ہشام بن یحییٰ (رح) سے روایت کیا کہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک سائل ابن عمر ؓ کے پاس آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا اس کو ایک دینار دیدو انہوں نے اس کو دے دیا۔ جب وہ سائل چلا گیا تو بیٹے نے کہا اے میرے باپ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف سے قبول فرمالیا ہے تو انہوں نے فرمایا اگر میں اس بات کو جان لوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ایک سجدہ کو یا ایک درھم صدقہ کو قبول فرما لیا ہے تو غائب چیز مجھے موت سے زیادہ محبوب نہ ہو کیا تو جانتا ہے کن لوگوں سے اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں تو یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت انما یتقبل اللہ من المتقین
Top