Dure-Mansoor - Al-An'aam : 148
فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
فَطَوَّعَتْ : پھر راضی کیا لَهٗ : اس کو نَفْسُهٗ : اس کا نفس قَتْلَ : قتل اَخِيْهِ : اپنے بھائی فَقَتَلَهٗ : سو اس نے اس کو قتل کردیا فَاَصْبَحَ : تو ہوگیا وہ مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
سو اس کے نفس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا سو اس نے اسے قتل کردیا جس کی وجہ سے وہ نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوگیا۔
(1) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ ؓ سے روایت ہے لفظ آیت فطوعت لہ نفسہ قتل اخیہ کے بارے میں فرمایا کہ طوعت کا معنی ہے زینت یعنی اس کے دل نے یہ کام اس کے لئے مزین کردیا۔ (2) امام ابن جریر نے ابن مسعود اور صحابہ ؓ میں سے کچھ لوگوں سے روایت کیا ہے لفظ آیت فطوعت لہ نفسہ قتل اخیہ (اس کے نفس نے اس بات پر آمادہ کیا) کے اس کو قتل کر دے اس وجہ سے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں میں نکل گیا۔ ایک دن وہ اپنے بھائی کے پاس آیا جبکہ وہ اپنی بکریاں چرا رہا تھا اس حال میں کہ وہ سویا ہوا تھا۔ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور اس سے اس کا سر کچل ڈالا جس سے وہ مرگیا۔ اس نے اس کو کھلے میدان میں چھوڑ دیا اور وہ جانتا نہیں تھا کہ کس طرح اس کو دفن کرے۔ اللہ تعالیٰ نے دو کوؤں کو بھیجا جو آپس میں لڑنے لگے اور ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی کو قتل کردیا۔ پھر اس نے اس کے لئے ایک گڑھا کھودا (اس کو ڈال کر) اس پر مٹی ڈال دی جب اس نے کوے کو دیکھا تو کہنے لگا ہائے افسوس میں اس کوے جیسا ہونے سے بھی عاجز ہوں۔ (3) امام ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کی آدم کے جس بیٹے نے اپنے بھائی کو قتل کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ کس طرح اس کو قتل کرے۔ ابلیس ایک پرندے کی شکل میں بن کر آیا اس نے ایک اور پرندے کو پکڑا اور اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ دیا پھر اس کے سر کو کچل دیا۔ (اس کو دیکھ کر) اس نے بھی قتل کرنا سیکھ لیا۔ مجاہد نے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (4) امام ابن جریر نے خیثمہ سے روایت کی کہ جب آدم کے بیٹے نے اپنے بھائی کو قتل کیا تو زمین اس کے خون کو پی گئی اور پھر اس قاتل پر لعنت کی۔ اس کے بعد زمین نے کسی کا خون نہیں چوسا۔ (5) امام ابن عساکر نے علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا دمشق میں ایک پہاڑ ہے جس کو قاسیون کہا جاتا ہے اس میں آدم کے بیٹے نے اپنے بھائی کو قتل کیا۔ (6) امام ابن عساکر نے عمر بن خبیر الشعبانی (رح) سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا کہ میں کعب الاحبار کے ساتھ ایک پہاڑ دیرالمران کے مقام پر تھا۔ ہم نے ایک پہاڑ میں گہرا پانی بہتا ہوا دیکھا۔ انہوں نے فرمایا آدم کے بیٹے نے یہاں اپنے بھائی کو قتل کیا تھا اور یہ اس کے خون کا اثر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں والوں کے لئے اس کو نشانی بنا دیا۔ (7) امام ابن عساکر نے ایک اور سند سے کعب ؓ سے روایت کی وہ خون جو قاسیون پہاڑ پر ہے وہ آدم کے بیٹے کا خون ہے۔ (8) امام ابن عساکر نے وھب (رح) سے روایت کیا ہے زمین نے آدم کے بیٹے کا خون پی لیا جو مقتول ہوا تھا اور آدم کے بیٹے نے زمین پر لعنت کی۔ اس وجہ سے ہابیل کے خون کے بعد زمین کوئی خون نہیں چوستی اور یہ سلسلہ قیامت کے دن تک یونہی جاری رہے گا۔ (9) نعیم بن حماد نے فتن میں عبد الرحمن بن فضالہ (رح) سے روایت کیا جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی عقل کو مسخ کردیا اور اس کا دل رنجیدہ کردیا وہ یونہی سرگردان پھرتا رہتا یہاں تک کہ مرگیا۔ (10) امام احمد البخاری و مسلم و ترمذی، النسائی، ابن ماجہ، ابن جریر اور ابن منذر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی جان ظلما قتل ہوتی ہے تو اس کا وبال آدم (علیہ السلام) کے بیٹے پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اس نے قتل کرنے کا طریقہ رائج کیا تھا۔ ہر قتل کا گناہ قابیل کے سر پر (11) امام ابن منذر نے براء بن عازب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی جان ظلما قتل ہوتی ہے تو اس کا وبال آدم (علیہ السلام) کے بیٹے پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اس نے قتل کا طریقہ رائج کیا۔ (12) امام ابن جریر نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا لوگوں سے بہت سے زیادہ بدبخت آدمی آدم کا وہ بیٹا ہے جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا (اس کے بھائی کے قتل ہونے کے بعد) قیامت کے دن تک جو بھی زمین میں (ناحق) خون بہایا جائے گا تو اس کا وبال بھی اس سے پہلے قاتل کو پہنچے گا۔ اسی وجہ سے کہ یہ پہلا آدمی ہے جس نے قتل کا طریقہ رائج کیا۔ (13) امام طبرانی نے ابن عمرو ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں میں سب سے زیادہ بدبخت تین ہیں۔ قوم ثمود کی اونٹنی کے پاؤں کاٹنے والا، آدم کا وہ بیٹا جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا جو بھی زمین پر (ناحق) خون بہتا ہے تو اس کا گناہ اس کو بھی ملتا ہے۔ کیونکہ یہ پہلا آدمی تھا جس نے قتل کا طریقہ رائج کیا۔ (14) امام ابن جریر اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمرو ؓ سے روایت کیا ہم آدم (علیہ السلام) کے بیٹے کو قاتل پاتے ہیں جس نے پہلا قتل کیا تھا دوزخیوں میں صحیح طور پر تقسیم ہوتی ہے اس قاتل کو ان دوزخیوں کے عذاب کا آدھا دیا جاتا ہے۔ (15) ابن ابی الدنیا نے کتاب من عاش بعد الموت میں عبد اللہ بن دینار کے طریق سے ابو ایوب یمانی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنی قوم کے ایک آدمی سے روایت کیا جس کو عبداللہ کہا جاتا ہے کہ وہ اور اس کی قوم میں سے ایک جماعت سمندر کے سفر پر گئے ان دنوں سمندر میں بہت زیادہ اندھیرا تھا۔ پھر اس سے وہ اندھیرا صاف ہوگیا۔ اور یہ لوگ ایک بستی کے قریب تھے۔ عبداللہ نے کہا میں پانی کو تلاش کرتے ہوئے باہر نکلا۔ اچانک (میں نے دیکھا) کہ کچھ دروازے بند ہیں جن میں ہوا ٹکرا رہی ہے۔ میں تردد سے چلایا مگر کسی نے جواب نہ دیا۔ میں اسی طرح کھڑا تھا۔ اچانک دو گھڑ سوار ظاہر ہوئے۔ ان دونوں نے مجھ سے میرے کام کے بارے میں پوچھا۔ میں نے ان کو بتایا جو سمندر میں ہم کو تکلیف پہنچی تھی۔ اور (یہ بھی بتایا) کہ میں پانی کی تلاش میں نکلا ہوں۔ دونوں نے کہا اس گلی میں چلے جاؤ آخر میں تو ایک تالاب پر پہنچ جائے گا جس میں پانی ہوا تو اس میں سے پانی لے لینا اور ہرگز خوف زدہ نہ ہونا اس چیز سے جو اس کے اندر ہے۔ میں نے ان بند گھروں کے بارے میں ان سے پوچھا جن سے ہوا ٹکرا رہی تھی۔ تو انہوں نے بتایا کہ یہ مردہ روحوں کے گھر ہیں۔ میں چلا اور تالاب تک پہنچ گیا۔ اچانک (دیکھا) ایک آدمی الٹا سر کے بل اس میں لٹکا ہوا ہے۔ وہ پانی کو لینے کا ارادہ کرتا ہے اپنے ہاتھ سے مگر اس تک نہیں پہنچ سکتا۔ جب اس نے مجھ کو دیکھا تو مجھ کو زور سے آواز دی اور کہا اے عبد اللہ ! مجھ کو پانی پلا۔ میں نے پیالے کو بھرا تاکہ اس کو پانی پلاؤں تو میرا ہاتھ رک گیا۔ میں نے کہا مجھ کو بتا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں آدم کا بیٹا ہوں جس نے سب سے پہلے زمین میں خون بہایا۔
Top