Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 55
اِذْ یُوْحِیْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓئِكَةِ اَنِّیْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍؕ
اِذْ : جب يُوْحِيْ : وحی بھیجی رَبُّكَ : تیرا رب اِلَى : طرف (کو) الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے اَنِّىْ : کہ میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ فَثَبِّتُوا : تم ثابت رکھو الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے سَاُلْقِيْ : عنقریب میں ڈالدوں گا فِيْ : میں قُلُوْبِ : دل (جمع) الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوا : کفر کیا (کافر) الرُّعْبَ : رعب فَاضْرِبُوْا : سو تم ضرب لگاؤ فَوْقَ : اوپر الْاَعْنَاقِ : گردنیں وَاضْرِبُوْا : اور ضرب لگاؤ مِنْهُمْ : ان سے (ان کی) كُلَّ : ہر بَنَانٍ : پور
جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دے رہا تھا کہ بلاشبہ میں تمہارے ساتھ ہوں سو تم ایمان والوں کو جماؤ میں عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا۔ سو تم گردنوں پر مارو اور ان کے ہر پورے پر مارو
1۔ ابن ابی حاتم نے روایت کیا کہ ابو بدر عباد بن ابولید المغبری (رح) نے ہم کو اپنے خطبہ میں خبر دی کہ اس نے کہا میں نے ابو سعید احمد بن داود الحداد کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو یہ نہیں فرمایا کہ اس کے ساتھ ہے مگر بدر کے دن فرشتوں کے لئے فرمایا بلاشبہ میں تمہارے ساتھ ہوں مدد کے لئے۔ 2۔ ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) نے فرمایا کہ فرشتے نہیں لڑے مگر بدر کے دن۔ 3۔ ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ نے ابوامامہ بن سہل بن حنیف (رح) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میرے والد نے بتایا اے میرے بیٹے ہم نے بدر کے دن دیکھا اور ہم میں سے ایک کوئی اپنی تلوار سے اشارہ کرتا تھا مشرک کے سر کی طرف تو اس کا سر اس کے جسم سے کٹ کر نیچے گر جاتا تلوار لگنے سے پہلے۔ 4۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ نے فرمایا مشرکین قریش جب نکلے تاکہ وہ قافلے کی مدد کریں اور اس کی وجہ سے جنگ پر آمادہ ہوئے تو وہ بدر کے دن پر ایک پانی پر اترے اور وہ ایمان والوں کے مقابلہ میں پانی پر قابض ہوگئے۔ مومنین کو پیاس لگی (پانی نہ ملنے کی وجہ سے) انہوں نے جنبی اور حدث کی حالت میں نماز پڑھنی شروع کی شیطان نے مومنین کے دلوں میں غم کو ڈال دیا۔ اور ان سے کہا کیا تم گمان کرتے ہو کہ تمہارے اندر نبی ﷺ ہیں اور تم اللہ کے دوست ہو حالانکہ تمہارے پانی پر غلبہ پالیا گیا ہے اور تم جنبی اور حدث کی حالت میں نماز پڑھ رہے ہو یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کے اصحاب کے سینوں سے یہ بری اہمیت اختیار کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا یہاں تک کہ وادی پانی سے بہہ پڑی۔ مومنین نے خوب پانی پیا اور اپنے مشکیزے بھرلئے اور اپنی سواریوں کو پلایا اور جنابت سے غسل کیا اللہ تعالیٰ نے اس بارش میں سے ان کو پاک کردیا۔ اور ان کے قدموں کو جما دیا۔ اس وجہ سے کہ ان کے اور ان کے درمیان ریت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش بھیجی اور اسے جمادیا یہاں تک کہ وہ سخت اور مضبوط ہوگئی نبی کریم ﷺ سب مسلمانوں کے ساتھ چلے اور وہ اس وقت تین سوتیرہ آدمی تھے۔ ان میں سے دو سو ستر انصاری تھے۔ اور باقی سب مہاجرین میں سے تھے۔ اور مشرکین کا سردار اس دن عتبہ بن ربیعہ تھا اپنی بڑی عمر کی وجہ سے عتبہ نے کہا اے قریش کی جماعت میں تم کو نصیحت کرتا ہوں اور میں تم پر شفقت کرتا ہوں آج کے بعد تم کو نصیحت نہیں کروں گا اور تم اس کام کو پہنچ چلے جس کا تم ارادہ رکھتے تھے ابوسفیان نجات پا گیا۔ (اس لئے) اب تم لوٹ جاؤ تم سلامت رہو گے اگر محمد ﷺ سچے ہوں کے تو تم لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند ہوں گے اس کی صداقت کی وجہ سے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو تم اس کے خون کو روکنے کے زیادہ حق دار ہو۔ ابوجہل اس کی طرف متوجہ ہوا اور برا بھلا کہا اور اس کے چہرہ کو نوچتے ہوئے اس سے کہا کہ تیرے پیٹ کا اندر عب سے بھر گیا ہے۔ عتبہ نے اس سے کہا عنقریب آج کے دن معلوم ہوجائے گا کون بزدل ہے اور اپنی قوم کو تباہ کرنے والا ہے۔ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ ، (میدان جنگ میں) اترے یہاں تک کہ جب وہ مسلمانوں کے لشکر کے قریب آئے انہوں نے کہا ہمارے مقابلے کے لئے بھیجو اپنے میں سے تاکہ ہم ان سے لڑیں بنو خزرج کے نوجوان اٹھے نبی کریم ﷺ نے ان کو بٹھا دیا پھر فرمایا اے بنو ہاشم کیا تم اپنے کی طرف بنی خزرج کے نوجوان بھیج رہے ہو۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ تم میں سے ہیں۔ تو حمزہ بن عبدالمطلب، علی بن ابو طالب، اور عیبدہ بن الحارث کھڑے ہوئے اور بڑے جذبات اور جرات کے ساتھ ان کی طرف چلے عتبہ نے کہا تم بات کرو تاکہ ہم تم کو پہچانیں، اگر ہمارے ہمسر ہوگئے تو ہم تم سے لڑیں گے حضرت حمزہ ؓ نے فرمایا میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا شیر ہوں عتبہ نے کہا اچھا اور کریم ہمسفر اور مقابل ہے۔ اس کی طرف شیبہ کود پڑا۔ آپس میں مارنے کا تبادلہ ہوا حضرت حمزہ ؓ نے اسے ضرب لگائی اور اس کو قتل کردیا پھر علی بن ابی طالب ؓ کھڑے ہوئے ولید بن عتبہ کی طرف آپس میں دو ضربوں کا تبادلہ ہوا حضرت علی ؓ نے اس پر کاری ضرب لگائی۔ اور اس کو قتل کردیا۔ پھر عبیدہ کھڑے ہوئے تو اس کی طرف عتبہ نکلا آپس میں دو ضربوں کا تبادلہ ہوا ان میں سے ہر ایک نے (ایک دوسرے کو) زخمی کردیا۔ اپنے ساتھی کو پھر حضرت حمزہ ؓ عتبہ پر چلے اور اس کو قتل کردیا نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہو کر دعا فرمائی اے اللہ اے ہمارے رب آپ نے مجھ پر کتاب نازل فرمائی اور مجھ کو لڑنے کا حکم فرمایا اور مجھ سے مدد کا وعدہ فرمایا اور آپ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں فرماتے جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور آپ پر (یہ آیت) اتری (آیت) الن یکفیکم ان یمد کم ربکم بثلثۃ الف من الملئکۃ منزلین “ (آل عمران آیت 124) اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی فرمائی کہ (آیت) ” انی معکم فثبتوا الذین امنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فاضربوا فوق الاعناق واضربومنہم کل بنان (12) “ ابو جہل انہتر آدمیوں میں مارا گیا۔ عقبہ بن ابی معیط قید کرلیا گیا پھر اسے بھی قتل کردیا گیا ستر آدمی مارے گئے۔ فرشتوں کی جنگ میں شرکت : : 5۔ ابن مردویہ بیہقی نے دلائل میں بنو ساعد کے ایک آدمی سے روایت کیا کہ میں نے ابو اسید مالک بن ربیع کو میں نے سنا بعد اس کے کہ ان کی بصارت جاتی رہی اگر اب میں تمہارے ساتھ بدر میں ہوتا اور میری بصارت بھی صحیح ہوتی، تو میں تم کو وہ گھاٹی بتاتا جس سے فرشتے ظاہر ہوئے تھے میں اس بارے میں ذرا بھی شک وشبہ نہیں کرتا۔ جب فرشتے نازل ہوئے اس کے پیچھے ابلیس تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور تم ایمان والے لوگوں کو ثابت قدم رکھو اور ان کے ثابت قدمی یہ تھی کہ فرشتے کسی آدمی کے پاس ایسے آدمی کی شکل میں آتے جسے وہ پہنچانتا ہوتا اور وہ فرشتہ کہتا تھا خوش ہوجاؤ۔ کیونکہ وہ (کافر) کوئی چیز نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے چناچہ وہ ان پر جھپٹ پڑے۔ جب ابلیس نے فرشتوں کو دیکھا تو الٹے پاوں بھاگا اور کہنے لگا میں تم سے بری ہوں اور وہ سراقہ کی شکل میں تھا۔ ابو جہل متوجہ ہوا جو اپنے اصحاب کو بھڑکانے کے لئے کہہ رہا تھا ہرگز تم کو خوف زدہ نہ کرے سراقہ کا ہم کو بےمدد کے چھوڑ دینا کیونکہ وہ محمد ﷺ اور اس کے اصحاب سے وعدہ کرچکا ہے پھر اس نے کہا لات اور عزی کی قسم ! ہم نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ ہم محمد ﷺ اور اس کے ساتھیوں کو رسیوں سے باندھ دیں گے پس تم ان کو قتل نہ کرنا اور ان کو مضبوطی سے پکڑ لینا۔ : 6۔ بیہقی نے دلائل میں عکرمہ کے راستے سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب لڑائی کا وقت آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھایا اور اللہ تعالیٰ سے مدد نصرت کی التجا کرنے لگے۔ اگر وہ لوگ اس جماعت پر غالب آگئے تو شرک غالب ہوجائے گا۔ اور تیرا دین قائم نہ ہوگا۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کی مدد ضرور فرمائیں گے اور آپ کے چہرہ ضرور روشن کرے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتے لگاتار نازل فرمائے دشمن کی جانبوں میں رسول اللہ ﷺ فرمایا اے ابوبکر ؓ خوش ہوجاؤ یہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جو زرد رنگ کی پگڑی باندھے ہوئے ہیں آسمان زمین کے درمیان اپنے گھوڑے کی لگام کو پکڑے ہوئے ہیں جب زمین پر نازل ہوئے تو ایک لحظہ میں مجھ سے غائب ہوگئے پھر ثنایاہ النقیع پر نازل ہوئے اور یہ کہہ رہے تھے آپ کے پاس اللہ کی مدد آگئی جونہی آپ نے اللہ سے دعا مانگی۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس ؓ سے روایت کیا کہ لوگ بدر کے دن فرشتوں کے قتل کئے ہو وں کو پہنچانتے تھے کہ انہوں نے ان کے گردنوں اور جوڑوں پر مار کر قتل کیا تھا اور ان پر آگ کے جلائے جانے کی مثل سب نشان موجود تھے۔ : 8۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاضربوافوق الاعناق “ میں عناق سے مراد سر ہیں۔ : 9۔ ابن جریر، ابن منذر نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاضربوافوق الاعناق “ یعنی گردنوں کو مار دینا۔ : 10۔ ابن جریر، ابوالشیخ اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاضربوافوق الاعناق “ یعنی گردنوں کو مار و : 11۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاضربوا منہم کل بنان “ میں کل بنان سے مراد ہے ہر جوڑ۔ : 12۔ ابن ابی حاتم نے اوزاعی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاضربوا منہم کل بنان “ یعنی اس کے چہرہ اور آنکھ کو مارنا اور اس کو آگ کے شعلہ میں پھینکنا۔ کفار کو قتل کرنے کا طریقہ : 13:۔ طستی نے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ابن عباس ؓ سے عرض کیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) واضربوا منہم کل بنان “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے انگلیوں کے کنارے اور لغت بذیل کے مطابق تمام بدن کے جوڑ ہیں عرض کیا ان دونوں کے بارے میں مجھ کو یہ شعر سنائیے۔ فرمایا ہاں انگلیوں کے کناروں کے بارے میں تو عندۃ العبسی کا قول ہے۔ فنعم فوارس الھیجاء قومی اذا علق الاعنۃ البنان ترجمہ : میری قوم کے ہیجا کے گھوڑے کتنے اچھے ہیں جب وہ لگاموں کے پودوں کے ساتھ باندھتے ہیں۔ اور ہذلی نے جسم کے بارے میں کہا : لھا اسد شاکی البنان مقذف لہ کبر اظفارہ لم تقلم ترجمہ : اس کے لئے ایسا غارت گر شیر ہے جس کے پورے مسلح ہیں اس کے لئے تہہ بتہہ بال ہیں اور اس کے ناخن کٹے ہوئے نہیں ہیں۔ 14:۔ عبد بن حمید اور ابن مردویہ نے ابو داود المازی ؓ سے روایت کیا کہ اس درمیان کہ میں بدر کے دن مشرکین میں سے ایک آدمی کے پیچھے لگا میں نے اس کی طرف اپنی تلوار کو بڑھایا اس کا سر نیچے گرپڑا اس کی طرف میری تلوار کے پہنچنے سے پہلے تو میں نے پہچان لیا کہ اس کو میرے علاوہ کسی اور نے قتل کیا (یعنی فرشتے نے) 15:۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) نے (آیت) فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منہم کل بنان “ کے بارے میں فرمایا کہ اس دن کوئی ضرب بھی سر، چہرے، اور جوڑ کے سوا نہیں لگی۔
Top