Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 26
وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَ اَیَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَاذْكُرُوْٓا : اور یاد کرو اِذْ : جب اَنْتُمْ : تم قَلِيْلٌ : تھوڑے مُّسْتَضْعَفُوْنَ : ضعیف (کمزور) سمجھے جاتے تھے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین تَخَافُوْنَ : تم ڈرتے تھے اَنْ : کہ يَّتَخَطَّفَكُمُ : اچک لے جائیں تمہیں النَّاسُ : لوگ فَاٰوٰىكُمْ : پس ٹھکانہ دیا اس نے تمہیں وَاَيَّدَكُمْ : اور تمہیں قوت دی بِنَصْرِهٖ : اپنی مدد سے وَرَزَقَكُمْ : اور تمہیں رزق دیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر گزار ہوجاؤ
اور اس وقت کو یاد کرو جب تم تھوڑے تھے۔ زمین میں کمزور شمار کئے جاتے تھے تم اس بات سے ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک لیں، سو اللہ تعالیٰ نے تمہیں ٹھکانہ دیا اور اپنی مدد سے تم کو قوت دی اور تمہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں تاکہ تم شکر گزار ہو
1۔ ابن منذر وابن جریر وابوالشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” واذکروا اذ انتم قلیل “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ (عرب کا) قبیلہ لوگوں میں سب سے زیادہ ذلیل تھا ذلت کے لحاظ سے اور سب سے زیادہ شقی اور بدبخت تھا زندگی گزرنے کے لحاظ سے اور سب سے انتہائی بھوکا تھا پیٹ کے لحاظ سے اور سب سے زیادہ ننگا تھا بدن کے لحاظ سے۔ اور سب سے زیادہ ظاہر تھا گمراہی کے لحاظ سے۔ پتھروں پر اعتکاف کرنے والے تھے فارس اور روم کے درمیان۔ اللہ کی قسم ان کے شہروں میں ایسے لوگ نہیں تھے جو ان پر حسد کرتے ہوں ان میں سے جس شخص نے زندگی گزاری تو بدبختی والی زندگی گزاری اور جو ان میں سے مرگیا تو اس کو آگ میں پھینک دیا گیا وہ کھاتے نہیں تھے بلکہ کھلاتے تھے۔ اللہ کی قسم اس وقت زمین میں موجود کسی قبیلے سے ہم واقف نہیں تھے۔ جو ان میں ان سے بڑھ کر شریر ہو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو لے آئے تو اس کے ذریعے اس نے شہر کو آباد کیا اس کے ذریعہ رزق میں وسعت پیدا فرمائی اور اس کے ذریعہ اس نے شہر کو آباد کیا اس کے ذریعہ رزق میں وسعت پیدا فرمائی اور اس کے ذریعہ تم کو لوگوں پر حاکم بنایا اور اسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ عطا فرمایا جو تم نے دیکھ لیا پس تم اللہ تعالیٰ کا شکر کرو اس کی نعمت کا کیونکہ تمہارا رب نعمتیں عطا فرمانے والا ہے۔ اور وہ شکر کو پسند فرماتا ہے۔ اور شکر کرنے والوں کو اور زیادہ عطا کیا جاتا ہے اللہ عزوجل کی طرف سے۔ 2:۔ ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ان یتخطفکم الناس “۔ کے بارے میں فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں مکہ میں (لوگ اچک لئے جاتے تھے) پھر (اللہ تعالیٰ نے تم کو اسلام کی طرف پناہ دی ) 3:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم وابوالشیخ نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ان یتخطفکم الناس “۔ کے بارے میں فرمایا اس وقت لوگوں سے مراد فارس اور روم کے لوگ ہیں۔ 4:۔ ابوالشیخ و ابونعیم والد یلمی نے مسند الفردوس میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واذکروا اذانتم قلیل مستضعفون فی الارض تخافون ان یتخطفکم الناس “۔ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا یارسول اللہ ان میں سے کون لوگ مراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا فارس والے۔ 5:۔ ابن جری وابن ابی حاتم وابوالشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاوکم “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو پناہ دی انصار مدینہ کی طرف (اور فرمایا) (آیت) ” وایدکم بنصرہ “ یعنی بدر کے دن (تمہاری مدد کی )
Top