Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
جیسا کہ آپ کے رب نے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو نکالا اور بلاشبہ مومنین کی ایک جماعت کو گراں گزر رہا تھا
غزوہ بدر کیسے پیش آیا : 1:۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر اور ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور ہم مدینہ منورہ میں تھے اور آپ کو یہ خبر پہنچی کہ ابو سفیان کا قافلہ قریب آگیا ہے آپ نے فرمایا اس میں تمہارا کیا خیال ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کو ہمارے لئے مال غنیمت بنا دے گا اور ہم کو سلامتی عطا فرما دے گا (چنانچہ) ہم نکلے اور جب ہم ایک یا دو دن سفر کرچکے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم فرمایا کہ ہم اپنے آپ کو شمار کرلیں تو ہم نے ایسا ہی کیا۔ اچانک ہم تین سو تیرہ افر تھے ہم نے نبی ﷺ کو اپنی تعداد بتائی تو آپ اس سے خوش ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور فرمایا یہ تو طالوت کے اصحاب والی تعداد ہے پھر فرمایا قوم کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کیونکہ ان کو تمہارے نکلنے کی خبر دی جاچکی ہے۔ ہم نے کہا یا رسول اللہ نہیں اللہ کی قسم ہم میں ( قریش کی قوم سے لڑنے کی طاقت نہیں ہم تو قافلہ کے لئے نکلے ہیں پھر فرمایا تمہارا کیا خیال ہے قوم سے لڑنے کے بارے میں ہم نے پہلے کی طرح جواب دیا مقداد ؓ نے کہا تم (ایسی بات) نہ کہو جو موسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہی تھی (آیت) ” فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قعدون “ (المائدہ آیت 24) پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ” کما اخر جک ربک من بیتک بالحق، وان فریقا من المومنین لکرھون (5) “ سے لے کر (آیت) ” واذ یعدکم اللہ احدی الطائفتین انھا لکم “ جب اللہ تعالیٰ سے دو جماعتوں میں سے ایک جماعت کا وعدہ فرما لیا۔ وہ ایک جماعت یا تو قوم ( یعنی کفار کا لشکر ہے یا قافلہ ہے) ہمارے دل خوش ہوگئے پھر ہم ان کے لشکر کے مقابلے میں جمع ہوگئے اور ہم اپنی صف بندی کی۔ رسول اللہ ﷺ کے اپنے رب کی بارگاہ میں یہ التجا کی میں آپ کو قسم دیتا ہوں آپ کے وعدہ کی ابن رواحہ نے کہا یا رسول اللہ میں ارادہ کرتا ہوں کہ میں آپ کو مشورہ دوں اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ اس سے کہیں افضل اور اعلیٰ ہیں۔ کہ ہم ان کو مشورہ دیں اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے مرتبہ والے ہیں کہ آپ ان کو ان کا وعدہ یاد دلائیں۔ آپ نے فرمایا اے ابن رواحہ میں اللہ تعالیٰ کو ضرور ان کا وعدہ یاد دلاوں گا بلاشبہ اللہ تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں فرماتے۔ پھر آپ نے مٹی سے ایک مٹھی بھری اور اس کو (کافر) قوم کے چہروں کی طرف پھینک دی جس سے وہ شکست کھاگئے ( اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت) ” وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی “ (الانفال آیت 17) اور ہم نے خوب قتل کئے اور ان کو قیدی بھی بنایا عمر ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ میں یہ رائے نہیں رکھتا کہ آپ کے لئے قیدی ہوں کیا ہم دعوت دینے والے اور الفت کرنے والے نہیں ہیں۔ انصار کی جماعت نے ہم کو کہا عمر نے جو آج ہم کو کہا ہے اس پر ہمارے حسد نے ان کو آمادہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ سوگئے جب آپ جاگ گئے تو فرمایا عمر کو بلاؤ ان کو بلایا گیا آپ نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ آیت نازل فرمائی کہ (آیت) ” ما کان لنبی ان یکون لہ اسری “۔ 2:۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور ابن مردویہ نے محمد بن عمروبن علقمہ بن وقاص (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بدر کی طرف نکلے یہاں تک کہ جب آپ مقام روحہ پر پہنچے تو لوگوں کو خطبہ دیا۔ اور فرمایا تمہارا کیا خیال ہے۔ یعنی تمہاری رائے کیا ہے ابوبکر ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ ہم یہ بات پہنچی ہے کہ وہ اتنے ہیں۔ پھر آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا تمہاری کیا رائے ہے ؟ عمر ؓ نے ابوبکر ؓ کی طرف فرمایا پھر آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا تمہاری کیا رائے ہے ؟ سعد بن معاذ ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ ہماری رائے معلوم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت دی اور آپ پر کتاب کو اتارا میں اس راہ پر کبھی نہیں چلا اور نہ مجھے اس بارے میں کچھ علم ہے۔ اگر آپ چلتے رہیں۔ یہاں تک کہ آپ یمن کا علاقہ برک الغماد تک آجائیں ہم ضرور آپ کے ساتھ چلیں گے۔ ہم ان لوگوں کی طرح نہ ہوں گے جنہوں نے موسیٰ کو کہا تھا (آیت) ” فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قعدون “ لیکن آپ اور آپ کا رب (کافروں سے) لڑیں گے تو ہم آپ کی تابعداری کرتے ہوئے آپ کا ساتھ ہوں گے اور شاید کہ آپ کسی کام کے ارادے سے نکلیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ نئے کام سے آپ کا واسطہ ڈال دیا ہے تو آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے۔ جس نے آپ کا واسطہ اس سے دالا ہے آپ اس کو پورا کیجئے۔ اور جن سے آپ چاہیں تعلقات جوڑ لیں۔ اور جن سے چاہیں تعلقات توڑ دیں اور جن سے چاہیں آپ عداوت رکھیں اور جن سے چاہیں مصالحت کرلیں۔ اور ہمارے مالوں میں سے لے کرلیجئے جو آپ چاہیں تو سعد کے قول پر قرآن نازل ہوا۔ (آیت) ” کما اخر جک ربک من بیتک بالحق، سے لے کر (آیت) ” ویقطع دابر الکفرین “ تک۔ اور رسول اللہ ﷺ ارادہ فرماتے تھے ابوسفیان سے مال غنیمت کے حاصل کرنے کا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے لڑائی کی صورت پیدا فرما دی۔ 3:۔ ابن ابی شیبہ اور عبدبن حمید اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” کما اخر جک ربک من بیتک بالحق “ کے بارے میں فرمایا اس طرح آپ کو آپ کا رب نکال لایا ہے۔ 4:۔ ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سعدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کما اخر جک ربک من بیتک بالحق “ یعنی نبی کریم ﷺ کا بدر کی طرف نکلنا (آیت) وان فریقا من المومنین لکرھون “ یعنی اہل ایمان کا ایک مشرکین کی تلاش کو ناپسند کرنے والا تھا (آیت) ” یجادلونک فی الحق بعد ما تبین “ بلاشبہ آپ کوئی کام نہیں کرتے مگر جو اللہ تعالیٰ آپ کو حکم فرماتے ہیں۔ (آیت) ” کانما یساقون الی الموت “ جب ان کو کہا گیا کہ وہ مشرکین ہیں ( ان سے لڑو) (تو وہ لڑنے سے ایسے گھبرا رہے تھے گویا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جارہے ہیں) 5:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب نبی کریم ﷺ نے دشمن سے لڑنے کے بارے میں مشورہ فرمایا تو سعد بن عبادہ ؓ کی اور آپ نے ان کو لڑائی کے بارے میں حکم فرمایا تو ایمان والوں نے اس بات کو ناپسند کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” کما اخر جک ربک من بیتک بالحق، سے لے کر (آیت) وھم ینظرون “ تک کہ وہ مشرکین سے لڑنے کو ناپسند دیکھ رہے تھے۔ 6:۔ بزار اور ابن منذر اور ابو الشیخ اور ابن مردویہ اور ابن عساکر نے عبدالرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا کہ اسلام نازل ہوا جبر اور سختی کے ساتھ اور ہم نے جبر میں حرہ کے دونوں اطراف کے درمیان اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمارے لئے بلندی اور کامیابی رکھ دی اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بدر کی طرف نکلے اس حال پر جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ (آیت) ” وان فریقا من المومنین لکرھون (5) “ سے لے کر (آیت) وہم ینظرون “ تک تو اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمارے لئے بلندی اور کامیابی کو رکھ دیا اور ہم نے اس جنگ میں خیر ہی خیر کو پایا۔ 7:۔ زیبری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی (آیت) کانما یساقون الی الموت وھم ینظرون (6) “ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے رسول اللہ ﷺ کا قافلہ کی طرف نکلنا۔
Top