Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 61
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر جَنَحُوْا : وہ جھکیں لِلسَّلْمِ : صلح کی طرف فَاجْنَحْ : تو صلح کرلو لَهَا : اس کی طرف وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اگر وہ لوگ صلح کے لئے مائل ہوجائیں تو آپ بھی اس کے لئے مائل ہوجائیں اور اللہ پر بھروسہ کیجئے۔ بیشک وہ سننے والا جاننے والا ہے۔
1۔ ابن منذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان جنحوا للسلم “۔ میں بنی قریظہ کا ذکر ہے۔ 2:۔ ابوالشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان جنحوا للسلم فاجنح لھا “ (یہ آیت) بنوقریظہ کے بارے میں نازل ہوئی جس کو اس آیتیں (آیت) ” فلا تھنوا وتدعوا الی السلم “ (سورۃ محمد آیت 35) نے مسنوخ کردیا۔ 3:۔ ابن مردویہ نے عبدالرحمن بن ریزی ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ یوں پڑھتے تھے (آیت) ” وان جنحوا للسلم “ 4:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان جنحوا للسلم “ سے مراد ہے اطاعت۔ 5:۔ ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان جنحوا للسلم فاجنح لھا “ سے مراد ہے کہ اگر صلح پر راضی ہو تو آپ بھی راضی ہوجائیں۔ 6:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وان جنحوا للسلم فاجنح لھا “ کے بارے میں فرمایا کہ جب وہ لوگ صلح کا ارادہ کریں تو آپ بھی ارادہ فرمالیں۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو یوں پڑھا (آیت) ” وان جنحوا للسلم “۔ یعنی زیر کے ساتھ اور اس کا معنی صلح ہے۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے مبشرین عبید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو یوں پڑھا (آیت) ” وان جنحوا للسلم “ یعنی سین کے فتح کے ساتھ اس کا معنی ہے صلح۔ 9:۔ ابوعبید وابن منذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وان جنحوا للسلم فاجنح لھا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس کو اس آیت ” قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر “ (التوبہ آیت 29) نے منسوخ کردیا (آیت) ” صغرون “ تک 10:۔ عبد الرزاق وابن منذر والنحاس نے اپنی ناسخ میں ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان جنحوا للسلم “ سے مراد ہے صلح ” فاجنح لہا “ فرمایا کہ یہ حکم سورة براۃ سے پہلے کا تھا۔ نبی کریم ﷺ لوگوں کو ایک مدت تک چھوڑ دیتے تھے یا تو وہ صلح کرلیں یا ان سے قتال کیا جائے گا۔ پھر (یہ حکم) سورة براۃ میں منسوخ کردیا گیا اور فرمایا (آیت) فاقتلو المشرکین حیث وجدتموہم “۔ (التوبۃ آیت 5) اور فرمایا (آیت) ” وقاتلوا المشرکین کافۃ “ (التوبۃ آیت 36) تو آپ نے یہ معاہدہ کرنے والے کے ساتھ اپنا معاہدہ اعلانیہ توڑ دیا اور آپ کو حکم دیا گیا کہ ان سے قتال کریں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں اور مسلمان ہوجائیں۔ اور ان سے اس بات کے علاوہ کسی اور بات کو قبول نہیں کیا جائے گا اور ہر عہد جو اس سورة میں تھا اور اس کے علاوہ ہر صلح جو مسلمان مشرکین سے صلح کرتے تھے اور اس کے ذریعے آپس میں ایکدوسرے سے وعدہ کرتے تھے تو جب سورة برات نازل ہوئی تو وہ سب منسوخ ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ہر حال میں ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ دیں۔
Top