Dure-Mansoor - At-Tawba : 129
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ١ۖۗ٘ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
فَاِنْ تَوَلَّوْا : پھر اگر وہ منہ موڑیں فَقُلْ : تو کہ دیں حَسْبِيَ : مجھے کافی ہے اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا عَلَيْهِ : اس پر تَوَكَّلْتُ : میں نے بھروسہ کیا وَھُوَ : اور وہ رَبُّ : مالک الْعَرْشِ : عرش الْعَظِيْمِ : عظیم
سو اگر لوگ روگردانی کریں تو آپ فرما دیجئے کہ میرے لئے اللہ کافی ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے
1:۔ ابن جریر وابن منذروابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فان تولوا فقل حسبی اللہ “ یعنی کفار اگر نبی کریم ﷺ سے منہ پھیر لیں (تو آپ فرما دیں مجھے اللہ کافی ہے) اور یہ مومنین میں سے۔ 2:۔ ابو الشیخ (رح) نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ ایک لشکر روم کی زمین کی طرف نکلا ان میں سے ایک آدمی گرپڑ اس کی ران کی ٹوٹ گئی لوگ اس کو سوار نہ کرا سکے تو انہوں نے اس کے گھوڑے کو اس کے پاس باندھ دیا اور اس کے پاس (کچھ لوگ پینے کی چیزیں) پانی اور توشہ رکھ دیا۔ جب یہ لوگ چلے گئے تو ایک آنے والاآدمی ان کے پاس آیا اس نے کہا یہاں تجھے کیا ہوا ؟ اس نے کہا میری ران ٹوٹ گئی تو اسی لئے میرے ساتھیوں نے مجھے یہاں چھوڑ دیا اس آدمی نے کہا اپنے ہاتھ کو رکھ دو جہاں تو تکلیف کو پاتا ہے اور کہہ (آیت) ” فان تولوا فقل حسبی اللہ “ لا الہ الا ھو، علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم “ اس نے کہا میں اپنے ہاتھ رکھ کر یہ آیت پڑھی تو (ران) اپنی جگہ پر ٹھیک ہوگئی اور یہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے ساتھیوں سے جا ملا۔ 3:۔ ابوداود (رح) نے موقدعا وابن السنی نے مرفوعا ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص صبح کو اور شام کو سات مرتبہ (یہ آیت) ” حسبی اللہ “ لا الہ الا ھو، علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم “ پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ کافی ہوجائیں گے اس کے دنیا اور آخرت کے کاموں میں سے جس نے بھی اسے پریشان کیا۔ 4:۔ ابن النجار نے اپنی تاریخ میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ جو شخص صبح کے وقت سات مرتبہ یہ کلمات پڑھ لے (آیت) ” حسبی اللہ “ لا الہ الا ھو، علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم “ تو اس دن یا اس رات اس کو کوئی اذیت یا غم لاغق نہ ہوگا نہ اس سے کوئی چیز چھینی جائے گی اور نہ وہ غرق ہوگا۔ اما قولہ تعالیٰ : وھو رب العرش العظیم : 5:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عرش کی بلندی کی وجہ سے اس کو عرش کہا گیا۔ 6:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے العظمۃ میں سعد طائی (رح) نے فرمایا کہ عرش سرخ یاقوت کا ہے۔ عرش کے گرد چار نہریں ہیں : 7:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ نے عظمۃ میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے عرش اور کرسی کو اپنے نور سے پیدا فرمایا اور عرش چمٹا ہے کرسی کے ساتھ اور فرشتے کرسی کے اندر ہیں اور عرش کے ارد گرد چار نہریں ہیں ایک نہر چمکتے ہوئے نور میں سے ہے اور ایک نہر شعلہ مارنے والی آگ سے ہے اور ایک نہر سفید برف سے ہے جس سے آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں اور ایک نہر پانی سے ہے اور فرشتے ان نہروں میں کھڑے ہو کے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور عرش کے لئے زبانیں ہیں ساری مخلوق کی زبان کی تعداد کے برابر وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا ہے اور اس کا ذکر کرتا ہے ان زبانوں کے ساتھ۔ 8:۔ ابوالشیخ (رح) نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عرش سرخ یاقوت میں سے ہے فرشتوں میں سے ایک فرشتے نے اس کی طرف اور اس کی عظمت کی طرف دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے تیرے اندر ستر ہزار فرشتوں کی طاقت کردی ہے اور ہر فرشتے کے لئے ستر ہزار پر ہیں۔ سو تو اڑ جا فرشتہ اس طاقت اور پروں کے ساتھ اتنا اڑا جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ اڑے پھر وہ اڑے پھر وہ ٹھہر گیا اور اس نے دیکھا تو ایسے محسوس ہوا گویا اس نے قصد کیا ہی نہیں۔ 9:۔ ابو الشیخ (رح) نے حماد (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کو سبز زمرد سے پیدا فرمایا اور اس کے لئے سرخ یاقوت سے چار پائے بنائے اور اس کے لئے ہزار زبانیں پیدا فرمائیں اور میں ہزار امتیں پیدا فرمائیں ہر امت اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے عرش کی زبانوں میں سے ایک زبان کے ساتھ۔ 10:۔ الطبرانی وابوالشیخ (رح) نے عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ عرش کو طوق پہنایا گیا ہے سانپ کے کنڈل کا اور وحی نازل ہوئی ہے زنجیروں میں سے۔ 11:۔ منذر (رح) نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ دیکھتے تھے کہ عرش حرم شریف کے اوپر ہے۔ 12:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عرش پر اس کے سوا کوئی قادر نہیں ہوسکتا مگر وہ ذات جس نے اس کو پیدا فرمایا اور بلاشبہ آسمان عرش کی پیدائش میں صحرا میں ایک قبہ کی طرح ہے۔ 13:۔ سعید بن منصور وابن ابی حاتم وابو الشخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آسمان اور زمین عرش سے اتنی مقدار ہی جگہ کا احاطہ کرتے ہیں جس طرح وسیع بیابان سے ایک انگوٹھی جگہ گھیرتی ہے (یعنی آسمان اور زمین عرش کے سامنے ایک چھلے کے برابر ہیں) 14:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ آسمان عرش میں اس قندیل کی طرح دکھائی دیتے ہیں جو آسمان اور زمین کے درمیان لٹکا ہوا ہو۔ 15:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے عمر بن یزید بصری (رح) سے روایت کیا کہ اس کتاب میں سے جس پر ہارون (علیہ السلام) نے نبوت کا دعوی کیا کہ ہمارا یہ سمندر ایک خلیج ہے نبطس سے اور نبطس اس کے علاوہ ہے جو زمین کو محیط ہے اور زمین اور جو کچھ اس کے اوپر ہے سمندروں میں سے نبطس کے سامنے اس طرح ہیں جیسے چشمہ سیف البحر پر اور قیس کے پیچھے اصم ہے جو زمین کو محیط ہے اور قیس اور اس سے کم اس کے سامنے اس طرح ہے جیسے سیف البحر پر ایک چشمہ اور اصم کے پیچھے ایک مظالم ہے جو زمین کو محیط ہے اور اصم اور اس سے کم اس کے سامنے اس طرح ہے جیسے سیف البحر پر ایک چشمہ اور مظالم کے پیچھے الماس میں سے ایک پہاڑ ہے جو زمین کو محیط ہے اور مظالم اور اس سے کم اس کے سامنے اس طرح ہیں جیسے سیف البحر ہو ایک چشمہ اور الماس کے پیچھے الباکی ہے اور یہ میٹھا پانی ہے جو زمین کو محیط ہے اس کے نصف کو حکم دیا ہے کہ عرش کے نیچے ہو جب اس نے جمع ہونا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو جھڑک دیا تو چشمہ اور اس کے پیچھے عرش ہے جو زمین کو محیط ہے اور الباکی اور اس سے کم اس کے سامنے ہے جیسے سیف البحر پر ایک چشمہ۔ 16:۔ ابوالشیخ (رح) نے عبدالرحمن بن زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں ہیں سات آسمان کرسی میں، مگر اس طرح ہیں جیسے سات دراہم ڈھال میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ ابن زید (رح) نے کہا کہ ابوذر ؓ نے نبی کریم ﷺ کی طرف سے فرمایا نہیں ہے کہ کرسی عرش میں مگر لوہے کے ایک حلقہ کی طرح جو ڈال دیا گیا ہو زمین کے وسیع بیابان میں اور کرسی قدموں کے رکھنے کی جگہ ہے۔ 17:۔ ابو الشیخ (رح) نے وھب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کو پیدا فرمایا اور عرش کے لئے ستر پنڈلیاں ہیں اور ہر پنڈلی آسمان اور زمین کے دائرے کی طرح ہے۔ فرشتے اور عرش کے درمیان پردہ نور : 18۔ عبدبن حمید والبیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ فرشتوں اور عرش کے درمیان ستر پردے ہیں ایک پردہ نور کا ہے ایک پردہ ظلمت (تاریکی) کا ہے، پھر ایک پردہ نور کا ہے اور ایک پردہ تاریکی ہے۔ 19:۔ ابن ابی شیبہ والبخاری ومسلم الترمذی والنسائی وابن ماجہ والبیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ بےچینی کے وقت یہ پڑھا کرتے تھے ” لا الہ الا اللہ ھو العظیم الحلیم لا الہ الا اللہ رب العرش العظیم لا الہ الا اللہ رب السموت والارض ورب العرش الکریم “ 20:۔ النسائی والحاکم والبیہقی رحمہم اللہ نے عبداللہ بن جعفر ؓ سے روایت کیا کہ مجھے علی ؓ نے مجھ کو یہ کلمات سکھائے جن کو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے خاص طور پر سیکھا تھا اور آپ نے ان کلمات کو بےچینی اور مصیبت کے وقت یہ کلمات پڑھا کرتے تھے اور جب بھی آپ کو تکلیف پہنچتی تو آپ یہ پڑھتے ” فان تولوا فقل حسبی اللہ ” لا الہ الا اللہ الحلیم الکریم سبحان اللہ و تبارک اللہ رب العرش العظیم والحمد للہ رب العالمین “ 21:۔ حکیم ترمذی (رح) نے اسحاق عبداللہ بن جعفر ؓ کے راستے سے عبداللہ بن جعفر ؓ سے روایت کیا کہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اپنے مردوں کو ” لا الہ الا اللہ الحلیم الکریم سبحان اللہ رب السموات رب العرش العظیم والحمد للہ رب العالمین “ تلقین کیا کرو صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ زندہ کے لئے کیسی ہے آپ نے فرمایا بہت عمدہ ہے بہت عمدہ ہے۔ 22:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے عبداللہ بن جعفر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کی اور اسے علیحدگی میں فرمایا جب تم کو موت آجائے یا دنیا کے کاموں سے کوئی خوفناک امر پیش آجائے تو یہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کر ” لا الہ الا اللہ الحلیم الکریم سبحان اللہ و تبارک اللہ رب العرش العظیم والحمد للہ رب العالمین “ 23:۔ احمد (رح) نے الزہد میں ابو الشیخ (رح) نے العظمۃ میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ حزقیل بخت نصر کے سبا میں تھا دانیال کے ساتھ بیت المقدس میں حزقیل نے خیال کیا کہ وہ فرات کے کنارے پر سویا ہوا ہے اس کے پاس ایک فرشتہ آیا اور وہ سو رہے تھے اس کے سر کو پکڑ کر اس کو لے گیا یہاں تک کہ اس کو بیت المقدس کے خزانہ میں رکھ دیا انہوں نے کہا میں نے اپنے سر کو آسمان کی طرف اٹھایا تو اچانک عرش کے نیچے آسمان کھل گیا حزقیل نے فرمایا اور عرش اور جو کچھ اس کے اردگرد تھا وہ سب میرے لئے ظاہر ہوگیا پس میں نے اس سوراخ سے ان کی طرف دیکھا اور جب میں نے عرش کی طرف دیکھا تو وہ سایہ کرنے والا تھا۔ آسمانوں پر اور زمین پر اور جب میں نے آسمان اور زمین کی طرف دیکھا تو میں نے ان کو (اس حال میں) دیکھا کہ وہ لٹکے ہوئے بطن عرش سے اور اس کے اٹھانے والے چار فرشتے ہیں ان میں سے ہر ایک فرشتے کے چار چہرے تھے انسان کا چہرہ گدھ کا چہرہ، شیر کا چہرہ اور بیل کا چہرہ جب اس منظر نے مجھے انتہائی تعجب میں ڈالا تو میں نے ان کے قدموں کی طرف دیکھا اچانک وہ زمین میں تھے ایک بچھڑے پر جن کے ساتھ وہ گھوم رہا تھا اور اچانک ایک فرشتہ عرش کے سامنے کھڑا ہوا تھا اس کے چھ پر تھے اس کا رنگ اونٹ کے بچے کے رنگ کی طرح تھا (یہ فرشتہ) برابر اپنی جگہ پر کھڑا ہوا ہے۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو پیدا فرمایا قیامت کے قائم ہونے تک اور وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے اور اچانک ایک اور فرشتہ جو اس کے نیچے تھا وہ ہر چیز سے بڑا تھا جو میں نے اس کو مخلوق میں سے دیکھا تھا اور وہ میکائل تھے اور وہ آسمان کے فرشتوں پر خلیفہ ہیں اور فرشتے عرش کا طواف کررہے ہیں جب سے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا قیامت کے قیام ہونے تک اور وہ کہتے ہیں ” قدوس قدوس ربنا الہ القوی ملات عظمۃ السموت والارض “ (بہت پاک ہیں بہت پاک ہیں ہمارے رب جو معبود ہیں بڑی قوت والے ان کی عظمت نے آسمانوں اور زمین کو بھر دیا ہے) اور کچھ فرشتے جو ان کے نیچے تھے انمیں سے ہر ایک فرشتہ کے لئے چھ پر ہیں دو پروں کے ساتھ وہ اپنے چہرے کو نور کو چھپاتے ہیں اور دو پروں کے ساتھ وہ اپنے جسم کو ڈھانکتے ہیں اور دو پروں کے ساتھ وہ اڑتے ہیں۔ اور وہ مقرب فرشتے ہیں اور جو فرشتے اس سے نیچے ہیں سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں جب سے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا صور کے پھونکنے تک جب صور میں پھونکا جائے گا تو وہ اپنے سروں کو اوپر اٹھائیں گے اور جب وہ عرش کی طرف دیکھیں گے تو کہیں گے ” سبحانک ما کنا نقدرک حق قدرتک “ تیری ذات پاک ہے ہم اس طرح قادر نہیں ہوسکتے جیسے حق ہے تیری قدرت کا پھر میں نے عرش کی طرف دیکھا کہ وہ لٹک رہا ہے اس شگاف سے اور وہ اس پر قادر نہیں تھا پھر وہ چلا گیا اس چیز کی طرف جو آسمانوں اور زمین کے درمیان تھی اور وہ اس چیز سے ملی ہوئی تھی جو ان کے درمیان تھی پھر وہ باب الرحمۃ سے داخل ہوئے اور وہ اس کی قدرت رکھتا تھا پھر وہ مسجد کی طرف چلا گیا وہ اس پر قادر تھا پھر وہ چٹان پر واقع ہوا اور وہ اس پر قادر تھا۔ پھر اس نے اے ابن آدم ! بجلی گری اور میں نے ایک آواز کو سنا اس کی مثل میں نے کبھی نہیں سنی تھی پھر وہ ختم ہوگیا اور میں نے اس آواز کی قدرت رکھتا ہوں اور جب اس نے وہ آواز نکالی تو وہ اچانک ایک لشکر کی طرح تھا جو جمع ہوا اور ایک ہی آواز کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھا اور وہ ایک گروہ کی طرح تھا جو اکٹھا ہوا اور انہوں نے ایک دوسرے کو دھکیلا اور اس کے بعض بعض سے آگے آگے آگئے یا وہ اس سے زیادہ بڑا تھا۔ حزقیل (رح) نے فرمایا میں بےہوش ہو کر گرپڑا اس نے کہا اس کو اٹھاؤ کیونکہ یہ کمزور ہے اسے مٹی سے پیدا کیا گیا پھر اس نے کہا تو اپنی قوم کی طرف چلا جا کیونکہ تو اس پر پہلا دستہ میری جانب سے جیسے لشکر کا ہر اول دستہ ان میں سے جسے تو نے دعوت دی اور اس نے تیری دعوت کو قبول کرلیا اور تیری ہدایت کے ذریعہ ہدایت پا گیا اور تیرے لئے اس کے مثل اجر ہوگا اور جو جس سے تو غافل رہا اور اس کو دعوت نہ دی یہاں تک کہ وہ گمراہ ہو کر مرگیا تو مجھ پر اس کے مثل گناہ ہوگا اور ان کے گناہوں میں کمی نہیں کی جائے گی پھر وہ فرشتہ عرش پر چڑھ گیا اور میں اٹھا یہاں تک کہ میں فرات کے کناروں کی طرف لوٹ گیا اس درمیان کہ میں سو رہا تھا فرات کے کناروں پر اچانک ایک فرشتہ میرے پاس آیا میرے سر کو پکڑا مجھے اٹھایا یہاں تک کہ مجھے بیت المقدس کی جانب میں داخل کردیا اچانک میں پانی کے حوض پر تھا میرے قدم آگے نہیں بڑھے تھے پھر میں اس جنت کی طرف بڑھا اچانک درخت تھے اس نہروں کے کناروں پر اور وہ درخت ایسا تھا کہ نہ اس کے پتے چھڑتے ہیں اور نہ اس کی عمر ختم ہوتی ہے پس اس میں طلع (کھجور کا ابن عباس ؓ درخت) اور نصب (میدانی درخت) بیع (پہاڑی درخت کو قطیف (ان انگوروں کی بیل) ہیں میں نے کہا جنت کا لباس کیا ہے اس نے کہا وہ کپڑا ہے جیسے حور کا لباس ہوتا ہے یہ اس رنگ میں پھٹ جاتا ہے جیسے اس کا مالک چاہے گا میں نے عرض کیا جنت کی بیویاں کیسی ہیں ان کو مجھ پر پیش کیا گیا تو میں نے ان کے چہروں کے حسن کی وجہ سے بےہوش ہوتا پاس اگر ان کو سورج اور چاند کے مقابلہ میں لایا جائے ان میں سے ہر ایک کا چہرہ اس سے زیادہ روشن تھا، ان میں سے کسی کا گوشت ان کی ہڈیوں کو نہیں چھپاتا تھا اور اس کی ہڈیاں اس کے گودے کو نہ چھپاتی تھی اور ان کی کیفیت یہ ہے کہ جب اس کا صاحب اس کے پاس سوئے تو وہ بیدار ہوجائے گا اور وہ کنواری تھی میں نے اس پر بڑا تعجب کیا مجھ سے کہا گیا کیا تو اس پر تعجب کررہا ہے میں نے کہا میرے لئے کیا ہے کہ میں تعجب نہ کروں فرمایا بلاشبہ (یہ حسن) ان پھلوں میں سے کچھ کھالیا جو تو نے جنت میں دیکھا وہ ہمیشہ رہے گا اور جو شخص ان بیویوں سے شادی کرے گا تو اس سے حزن اور غم دور ہوجائے گا پھر اس نے میرے سر کو پکڑا اور مجھے وہاں لوٹا دیا جہاں میں تھا۔ حزقیل نے کہا اس درمیان کہ میں سو رہا تھا فرات کے کنارے پر اچانک میرے پاس ایک فرشتہ آیا اس نے میرے سر کو پکڑا مجھ کو اٹھایا یہاں تک کہ مجھے زمین کے ایک حصہ میں جاکر رکھ دیا جس میں لڑائی ہوئی تھی۔ اچانک اس سے دس ہزار مقتول تھے پرندے اور جنگلی جن کا گوشت نوچ رہے تھے اور ان کے جوڑ جدا جدا ہوچکے تھے پھر اس نے مجھ سے کہا کہ ایک قوم والے یہ گمان کرتے ہیں کہ جو کوئی ان میں سے مرگیا یا قتل کردیا گیا وہ مجھ سے آزاد ہوگیا میری قدرت اس سے چلی گئی پس تو ان کو پکار حزقیل نے کہا میں نے اس کو پکارا اچانک ہر ہڈی اپنے جوڑ کی طرف آئی جس سے وہ کٹی تھی کوئی آدمی اپنے ساتھی کو اس سے بڑھ کر نہیں پہچانتا تھا جتنا ہڈی نے اس جوڑ کو پہچانا جس سے وہ جدا ہوئی تھی یہاں تک کہ اس کا بعض بعض سے جڑ گیا پھر اس پر گوشت اگ آیا پھر آنتیں اگ آئیں پھر اس پر چمڑا پھیل گیا اور میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا پھر اس نے کہا میرے لئے بلاؤ ان کی روحوں کو حزقیل کا بیان ہے میں نے ان کو بلایا اچانک ہر روح اپنے جسم کی طرف متوجہ ہوئی جس سے وہ جدا ہوئی تھی جب وہ سب بیٹھ گئے تو میں نے ان سے سوال کیا تم کہاں تھے انہوں نے کہا جب ہم مرگئے اور ہم زندگی سے جدا ہوگئے تو ہم ایک فرشتہ سے ملے جس کو میکائل کہا جاتا ہے فرمایا اپنے اعمال لے آؤ اور اپنا اجر لے لو اسی طرح ہمارا طریقہ ہے تمہارے بارے میں اور اس کے بارے میں جو تم سے پہلے تھے اور ان کے بارے میں جو تمہارے بعد ہوں گے اس نے ہمارے اعمال میں دیکھا تو ہم میں بتوں کی پوجا کو پایا پھر ہم ہمارے جسموں پر کیڑوں کو مسلط کردیا اور روحیں اس کے درد پانے لگیں اور غم کو ہماری روحوں پہ مسلط کردیا اور ہمارے جسم اس کا درد محسوس کرنے لگے۔ اسی طرح ہم برابر عذاب پا رہے ہیں یہاں تک تو نے ہم کو بلالیا فرمایا پھر اس فرشتے نے مجھ کو اٹھایا اور مجھ کو وہاں لوٹا دیا جہاں میں تھا۔ الحمد للہ سورة التوبہ ختم ہوئی :
Top