Dure-Mansoor - At-Tawba : 92
وَّ لَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ١۪ تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَؕ
وَّلَا : اور نہ عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اِذَا : جب مَآ اَتَوْكَ : جب آپکے پاس آئے لِتَحْمِلَهُمْ : تاکہ آپ انہیں سواری دیں قُلْتَ : آپ نے کہا لَآ اَجِدُ : میں نہیں پاتا مَآ اَحْمِلُكُمْ : تمہیں سوار کروں میں عَلَيْهِ : اس پر تَوَلَّوْا : وہ لوٹے وَّاَعْيُنُهُمْ : اور ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ رہی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو (جمع) حَزَنًا : غم سے اَلَّا يَجِدُوْا : کہ وہ نہیں پاتے مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں
اور ان لوگوں پر بھی کوئی گناہ نہیں جو آپ کے پاس اس لئے حاضر ہوئے کہ آپ انکو سواری دے دیں۔ آپ نے کہہ دیا کہ میں ایسی چیز نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کردوں وہ اس حال میں واپس ہوگئے کہ ان رنج میں ان کی آنکھوں سے آنسوبہ رہے تھے کہ وہ خرچ کرنے کے لئے نہیں پاتے
1:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے مدینہ منورہ میں ایسی قوم کو چھوڑا ہے جنہوں نے تمہارے ساتھ کوئی بھی سفر نہیں کیا اور تمہارے ساتھ وادیوں کو عبور نہیں کیا اور نہ تمہارے ساتھ دشمن کا سامنا کیا مگر وہ تمہارے ساتھ شریک ہیں اجر میں پھر آپ نے ( یہ آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک “ تلاوت کی۔ 2:۔ ابن جریر وابن مردویہ رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو حکم فرمایا کہ وہ غازین (یعنی دشمن سے لڑنے والے) کو بھیجیں (یعنی جہاد کے لئے تیار ہوں) آپ کے صحابہ میں سے ایک جماعت آئی ان میں عبداللہ بن معقل لمزنی تھے انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ہم کو سوار کیجئے (یعنی سواری کے جانور دیجئے) آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں کوئی سواری نہیں پاتا کہ اس پر میں تم کو سوار کروں یہ لوگ روتے ہوئے لوٹ گئے اور ان پر یہ احساس غالب تھا کہ وہ جہاد سے ہلاک کردیئے گئے وہ خود نہ تو خرچ کرپاتے تھے اور نہ سواری کرپاتے تو اللہ تعالیٰ ان کے عذر قبول کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک “ (الآیہ) 3:۔ ابن سعد و یعقوب بن سفیان (رح) نے اپنی تاریخ میں وابن ابی حاتم وابن مردویہ رحمہم اللہ نے عبداللہ بن مقعل ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ میں اس جماعت میں سے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک “ (الآیہ) 4:۔ ابن جریر (رح) نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے سواری مانگی آپ نے فرمایا میں ایسی کوئی چیز نہیں پاتا کہ جس پر میں تم کو سوار کروں (اس بارے میں) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملہم “ (الآیہ) اور یہ سات آدمی تھے بنو عمر بن عوف میں سے سالم بن عمیر، بنوواقف میں سے حرس بن عمر و، بنومازن ابن النجار میں سے عبدالرحمن بن کعب جن کی ابولیلی کنیت تھی بنو المعلی میں سے سلمان بن صخرہ بنوحارثہ میں سے عبدالرحمن بن زید ابو عبلہ اور بنو مسلمہ میں سے عمرو بن غنمہ اور عبداللہ بن عمر والمزنی۔ سات صحابہ کرام ؓ کا تذکرہ : 5:۔ ابن مردویہ (رح) نے مجمع بن حارثہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ لوگ جنہوں نے نبی کریم ﷺ سے سواری مانگی اور آپ نے فرمایا کہ میں کوئی چیز نہیں پاتا کہ جس پر تم کو سوار کروں یہ سات آدمی تھے علیہ بن زید الحارثی عمر بن غنم الساعدی، عمر و بن ھرمی الرافعی۔ ابو لیلی المزنی سالم بن عمرو العمری سلمہ بن محزالرزق اور عبداللہ بن عمر والمزنی۔ 6:۔ عبد الغنی بن سعید (رح) نے اپنی تفسیر میں و ابونعیم (رح) نے حلیہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک “ ان میں سے سالم بن عمیر تھے جو قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں سے ایک تھے۔ 7:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے عبدالرحمن بن عمر والسلمی وحجر بن الکلائی دونوں سے روایت کیا کہ ہم عرباص بن ساریہ کے پاس آئے اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملہم “ (الآیۃ) 8:۔ ابن مسعد وابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملہم “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ قبیلہ مزینہ سے بنو متفرق تھے اور یہ سات آدمی تھے۔ 9:۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ رحمہم اللہ نے کثیر بن عبداللہ عمر و بن عوف المزنی (رح) اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں اللہ کی قسم کہ میں ان لوگوں میں سے ایک ہوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملہم “ 10:۔ ابن اسحاق وابن منذر وابوالشیخ رحمہم اللہ نے زہری (رح)، یزید بن یسار، عبداللہ بن ابی بکر اور عاصم بن عمر بن قتادہ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں سے روایت کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور وہ رو رہے تھے اور وہ سات آدمی تھے انصار میں سے اور دوسرے لوگوں میں سے بنوعمروبن عوف میں سے سالم بن عمیر بنو حارثہ میں سے عتبہ بن زید بنومازن بن النجار میں سے ابو لیلی عبدالرحمن بن کعب بنوسلمہ میں سے عمرو بن عمرو بن جھام بن الجموح اور بنو واقف میں سے ھری بن عمرو اور بنومدینہ میں سے عبداللہ بن معقل اور بنو فزراہ میں سے عرباص بن ساریہ تھے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سواری مانگی اور اہل حاجت (یعنی غریب لوگوں) میں سے تھے۔ آپ نے فرمایا میں کوئی چیز نہیں پاتا کہ جس پر میں تم سوار کروں۔ 11:۔ ابو الشیخ وابن مردویہ رحمہما اللہ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ معقل بن یسار ؓ ان رونے والوں میں سے تھے (جن کے بارے میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” اذا ما اتوک لتحملہم “ (الآیہ) 12:۔ ابوالشیخ (رح) نے حسن اور بکر بن عبداللہ المزنی دونوں سے روایت کیا کہ انہوں نے اس (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملہم “ کے بارے میں فرمایا کہ (یہ آیت) عبداللہ بن معقل جو مزینہ میں سے تھے کہ بارے میں نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ کے پاس آئے تاکہ وہ انکو سوار کردیں۔ 13:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن الھیعہ (رح) سے روایت کیا کہ ابو شریح الکعبی ؓ ان لوگوں میں سے تھے کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملہم “ 14:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے انس بن مالک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) لا اجد ما احملکم علیہ “ سے مراد ہے کہ پانی اور زادہ راہ 15:۔ ابن منذر (رح) نے علی بن صالح (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو جھینہ کے مشائخ نے بیان فرمایا کہ انہوں نے کہا ہم نے لوگوں کو پایا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سواریوں کا سوال کیا تھا انہوں نے کہا کہ ہم نے صرف گھوڑوں پر سوار کرنے کی درخواست کی تھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملہم “ 16:۔ ابن ابی حاتم ابوالشیخ رحمہم اللہ نے ابراہیم بن ادھم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملہم “ کے بارے میں فرمایا انہوں نے آپ ﷺ سے سواریوں کا سوال نہیں کیا تھا بلکہ صرف نعل لگے ہو وں کا سوال کیا تھا۔ 17:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ انہوں نے آپ ﷺ سے نعال والی سواریوں کا سوال کیا تھا۔
Top