Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 59
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّشَاقِقِ : مخالفت کرے الرَّسُوْلَ : رسول مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جب تَبَيَّنَ : ظاہر ہوچکی لَهُ : اس کے لیے الْهُدٰى : ہدایت وَ : اور يَتَّبِعْ : چلے غَيْرَ : خلاف سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کا راستہ نُوَلِّهٖ : ہم حوالہ کردیں گے مَا تَوَلّٰى : جو اس نے اختیار کیا وَنُصْلِهٖ : اور ہم اسے داخل کرینگے جَهَنَّمَ : جہنم وَسَآءَتْ : بری جگہ مَصِيْرًا : پہنچے (پلٹنے) کی جگہ
اور یہ کافر یہ گمان نہ کریں کہ وہ نکل بھاگیں گے، وہ ہمارے قابو سے باہر نہیں جاسکیں گے
آیات 59۔ 66 کا مضمون : آگے مسلمانوں کو جہاد کے لیے برابر تیار رہنے اور اس کے لیے اسلحہ اور قوت فراہم کرنے پر ابھارا ہے۔ اس لیے کہ بدر میں قریش کو جو شکست ہوئی اس نے قریش میں بھی آگ لگا دی اور یہود بھی جو اب تک یہ توقع لیے بیٹھے تھے کہ وہ قریش کے ہاتھوں مسلمانوں کو ختم کرا دیں گے۔ اپنی اس توقع میں ناکام ہو کر نئے منصوبے بنانے میں پوری طرح سرگرم ہوگئے۔ ان حالات سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں کو بھی ہدایت ہوئی کہ اب پوری سرگرمی سے جہاد کے لیے تیاری کرو۔ اس ضمن میں پیغمبر ﷺ کو یہ اطمینان بھی دلایا گیا کہ اگر یہ معاندین کوئی مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کا رجحان ظاہر کریں تو تم بھی مصالحت سے گریز نہ کرنا۔ اگر اس مصالحت کے پردے میں انہوں نے کوئی چال چلنے کی کوشش کی تو جس خدا نے اپنی نصرت اور انہی تھوڑے سے مسلمانوں کے ذریعہ سے بدر میں تمہیں فتح دلائی ہے وہ اب بھی تمہارے ساتھ ہے۔ پھر پیغمبر ﷺ کو یہ تسلی دی گئی کہ تم مسلمانوں کی تعداد کی کمی سے مطلق ہراساں نہ ہو۔ تمہارے لیے اللہ اور انہی تھوڑے سے مسلمانوں کی رفاقت کافی ہے۔ یہی قطرے سیلاب بنیں گے۔ مسلمانوں کو اطمینان دلاؤ کہ ان کے دس آدمی کفار کے سو آدمیوں پر بھاری ہوں گے۔ اصلی طاقت دلوں کی طاقت ہوتی ہے نہ کہ محض گنتی کی۔ جو لوگ تمہارے مقابل میں ہے وہ محض کھوکھلے دل والے ہیں۔ اس مجموعہ کی آخری آیت 66 قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں، مسلمانوں کی کثرت کے دور میں نازل ہوئی ہے، اس نے مسلمانوں پر سے وہ ذمہ داری کچھ ہلکی کردی جو اوپر والی آیت میں ان پر عائد ہوئی تھی۔ چونکہ اس کا تعلق اسی مضمون سے تھا اس وجہ سے اس کو یہاں جگہ دی گئی۔ آگے اس کی وضاحت آئے گی۔ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا ۭ اِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُوْنَ۔ اوپر کی آیات میں کفار کو جو دھ کی دی ہے اور خاص طور پر یہ بات جو فرمائی ہے کہ ان کی ساری دوا دوش اور ان کی تمام جولانیوں کا خدا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یہ اسی مضمون کی تاکید مزید ہے۔ فرمایا کہ اب ہم نے ان کا تعاقب شروع کردیا ہے۔ اب یہ اس غلط فہمی کو ذہن سے نکال دیں کہ یہ ہم سے بچ کے نکل جائیں گے۔ یہ ہمارے قابو سے باہر نہیں جاسکتے۔ اعجزہ الصید کے معنی ہوں فانہ ولم یقدر علیہ شکار قابو سے باہر نکل گیا۔ پکڑا نہ جاسکا۔
Top