Al-Qurtubi - Al-Qalam : 59
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا١ؕ اِنَّهُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ
وَلَا يَحْسَبَنَّ : اور ہرگز خیال نہ کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سَبَقُوْا : وہ بھاگ نکلے اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَا يُعْجِزُوْنَ : وہ عاجز نہ کرسکیں گے
اور کافر یہ نہ خیال کریں کہ وہ بھاگ نکلے ہیں۔ وہ (اپنی چالوں سے ہم کو) ہرگز عاجز نہیں کرسکتے۔
( آیت نمبر 59) قولہ تعالیٰ : والا یحسبن الذین کفرو اسبقوا یعنی وہ واقعہ بدر سے بچ گئے اور حیات کی طرف نکل گئے۔ پھر نیا کلام فرمایا اور ارشاد فرمایا : انھم لایعجزون بیشک وہ دنیا میں عاجز نہیں کرسکتے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان پر فتح کامرائی عطا فرما دے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا : مراد آخرت میں عاجز نہیں کر سکنا ہے۔ اور یہ حسن کا قول ہے۔ ابن عامر، حفص اور حمزہ نے یحسبن یا کے ساتھ اور باقیوں نے تا کے ساتھ قراءت کی ہے، اس بنا پر فعل میں ضمیر فاعل ہو۔ اور الذین کفرو مفعول اول ہو۔ اور سبقوا مفعول ثانی ہو۔ اور رہی یا کی قرات تو اس کے بارے نحویوں کی ایک جماعت جن میں سے ابوحاتم بھی ہیں، کا خیال ہے کہ یہ غلطی (لحن) ہے اس کے ساتھ قراءت جائز نہیں ہے اور نہ اس کے لیے وسعت ہے جو اعراب کو جانتا ہے یا سے پہچان کرا دی جائے۔ ابو حاتم نے کہا ہے : کیونکہ یحسبن مفعول کے ساتھ مذکور نہیں حالانکہ وہ دو مفعولوں کا محتاج ہے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ انتہائی تکلیف وہ بات ہے، قراءت جائز ہے اور معنی یہ ہوگا : ولا یحسبن من خلفھم الذین کفرواسبقوا ” یعنی پیچھے رہ جانے کافر گمان نہ کریں وہ بچ کر نکل گئے “۔ پس ضمیر اس کی طرف لوٹ رہی ہے جو پہلے گزر چکا، مگر تا کے ساتھ قراءت جائز نہیں ہے اور نہ اس کے لیے وسعت ہے جو اعراب کو جانتا ہے یا سے پہچان کر ادی جائے۔ ابو حاتم نے کہا ہے : کیونکہ یحسبن مفعول کے ساتھ مذکورہ نہیں حالانکہ وہ دو مفعولوں کا محتاج ہے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے، قراءت جائز ہے اور معنی یہ ہوگا : لایحسبن من خلفھم الذین کفرواسبقوا ” یعنی پیچھے رہ جانے والے کافر گمان نہ کریں وہ بچ کر نکل گئے “۔ پس ضمیر اس کی طرف لوٹ رہی ہے جو پہلے گزر چکا، مگر تا کے ساتھ قراءت کرنا زیادہ بین اور واضح ہے۔ مہدوی نے کہا ہے : جنہوں نے یا کے ساتھ پڑھا ہے اس میں یہ احتمال ہے کہ فعل میں ضمیر حضور نبی مکرم ﷺ کے لیے ہو اور الذین کفروسبقوا دو مفعول ہوں۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ الذین کفرو فائل ہو اور مفعول اوّل مخدوف ہو۔ اس کا معنی ہوگا : وال ٰحسبن الذین کفروا انفسھم سبقوا ” کافر اپنے بارے میں یہ گمان نہ کریں وہ بچ کر نکل گئے “۔ مکی نے کہا ہے : یہ جائز ہے کہ سبقوا کے ساتھ ان مضمر ہو اور یہ دو مفعولوں کے قائم مقام ہوجائے اور تقدیر عبارت اس طرح ہو : لایحسبن الذین کفروا ان سبقوا پس یہ اس ارشاد کی مثل ہوا : احسب الناس ام یتر کوا ( العنکبوت :2) اس میں کہ ان قائم مقام دو مفعلوں کے ہے۔ ابن عامر نے انھم لا یعجزوں میں ہمزہ کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ابو حاتم اور ابو عبید نے اس قراءت کو مستبعد قرار دیا ہے۔ ابو عبید نے کہا ہے : یہ اس بنا پر جائز ہے کہ معنی اس طرح ہو : ولا تعسبن الذین کفرو انھم لا یعجزون۔ نحاس نے کہا ہے : جو کچھ ابو عبید نے ذکر کیا ہے بصری نحویوں کے نزدیک وہ جائز نہیں، (کیونکہ) جست زیدا انہ خارج کہنا جائز نہیں مگر مزہ کے کسرہ کے ساتھ ( جائز ہے) اور بلا شبہ یہ جائز نہیں کیونکہ یہ مبتدا کے محل میں ہے، جیسے تو کہتا ہے : حسبت زیدًا، ابرہ خارج، اور اگر آپ فتحہ دیں تو معنی ہاگا جست زیدا خروجہ اور یہ محال ہے او اس میں یہ بعد بھی ہے کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے اس کے ساتھ معنی کے صحیح ہونے کی کوئی صورت نہیں، مگر یہ کہ لاکوزائد بنایا جائے اور کتاب اللہ میں کسی حرف کو قابل تسلیم حجت کے بغیر تطول اوزیارت کی طرف پھیرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور قرات جید یہ ہے کہ معنی اس طرح ہو : لانھم لایعجزون ( کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ ) مکی نے کہا ہے : پس معنی یہ ہے : لا یحسبن الکفار انفسھم فاتوا الانھم لایعجزون ای لایفوتون ( کفار اپنے بارے میں یہ گمان نہ کریں کہ وہ بچ گئے کیونکہ وہ بچ نہیں سکتے) پس ان لام کے حذف کے ساتھ نصب کے محل میں ہے یا لام کے عمل کرنے کی صورت میں محل جر میں ہے، کیونکہ انکے ساتھ ان کا حذف کثرت سے پایا جاتا ہے اور یہی خلیل اور کسائی سے روایت کیا گیا ہے۔ اور باقیوں نے ان کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے، کیونکہ یہ جملہ مستانفہ ہے اور فاقبل سے منقطع ہے اور یہی پسندیدہ ہے، کیونکہ اس میں تاکید کا معنی ہے اور اس لیے بھی کہ جمہور کا موقف یہی ہے۔ اور ابن محیصن سے روایت ہے کہ انہوں نے لایعجزون تشدید اور نون کے کسرہ کے ساتھ قراءت کی ہے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ دو وجہوں سے غلط ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ عجزہ کا معنی ہے ضعفہ و ضعف امرہ کسی کو کمزور کردینا اور کسی کے کام کو کمزور کردینا) اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کا دو نونوں کے ساتھ ہونا واجب ہے۔ اور اعجزہ کا معنی ہے سبقہ و فاتہ حتی لم یقد رعلیہ ( کسی سے بچ نکلنا اور مفقود ہوجانا یہاں تک کہ وہ اس پر قادر نہ ہو سکے) ( آیت نمبر 60) مسئلہ نمبر 1 : قولہ تعالیٰ : واعدوالھم اللہ سجا نہ و تعالیٰ نے مومنوں کی دشمنوں کے لیے قوت و طاقت تیار رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے بعد اس کے کہ پہلے تقویٰ کی تاکید فرمائی، کیونکہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو وہ انہیں محض کلام کے ساتھ، ان کے چہروں پر تھوکنے کے ساتھ اور مٹی کی ایک مشت ان پر ڈالنے کے ساتھ شکست اور ہزیمت سے دو چار کر دے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا لیکن اس نے چاہا کہ وہ بعض لوگوں کو ایسی بعض چیزوں کے ساتھ آزمائے جو پہلے سے اس کے علم میں ہیں اور اس کی قضا و قدران میں نافذ ہے۔ جب بھی خیر اور نیکی میں سے کوئی شے تو اپنے دوست کے لیے یاشر اور تکلیف میں سے کوئی اپنے دشمن کے لیے تیار کرے گا توہ وہ تیری اس تیاری میں داخل ہوگی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہاں قو سے مراد ہتھیار اور قوسیں ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر ؓ دے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اس حال میں کہ آپ منبر پر تشریف فرما تھے : ” اور تم ان کے لیے تیار رکھوقوت و طاقت میں سے جتنی استطاعت رکھتے ہو خبر دار سنو ! بیشک قوت تیر پھینکنا ہے، خبر دار سنو ! بیشک قوت تیر مارنا ہے، خبر دار سنو ! بیشک قوت تیر پھینکنا ہے “ (1) ۔ یہ نص ہے جسے حضرت عقبہ سے ابو علی ثمامتہ بن ہمدانی نے روایت کیا ہے اور ان کی صحیح میں اس کے سوا ( کو ائی روایت) نہیں ہے۔ اور ری کے بارے میں حضرت عقبہ سے ایک دوسری حدیث بھی مروی ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” عنقریب تم پر زمین فتح کردی جائے گی اور اللہ تعالیٰ تمہیں کافی ہوگا پس چاہے کہ تم میں سے کوئی اپنے تیروں کے ساتھ کھیلنے ( یعنی انہیں چلانے) سے عاجز نہ ہو “ (2) ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” ہر شے جس کے ساتھ آدمی کھیلتا ہے وہ باطل ہے سوائے اپنی قس کے ساتھ تیر اندازی کرنے کے، اپنے گھوڑے کو ادب سکھانے ( یعنی اسے سدھارنے کے) اور اسکے اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے ( اظہار محبت کرنے) کے، کیونکہ یہ حق ہے “ (3) ۔ اس کا معنی تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہر وہ شے جس کے ساتھ آدمی کھیلتا ہے اور وہ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں کوئی فائدہ نہ دے تو وہ باطل ہے اور اس سے اعراض کرنا، بچنا اولیٰ ہے۔ اور یہ تینوں امور ہیں کہ اگر آدمی انہیں اس ارادہ پر کرتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کھیلے اور چست اور ہشاش بش اس ہو، تو یہ حق اور درست ہیں کیونکہ ان کا اتصال نفع بخش اور مفید چیز کے سا تھے ہے، کیونکہ قوس کے ساتھ تیر اندازی کرنا اور گھوڑے کی تادیب سبھی امور جنگ میں معاون و مددگار ہیں۔ اور اہلیہ کے ساتھ کھیلنا اور محبت کا اظہار کرنا اس امر تک پہنچاتا ہے کہ اس سے ایسا بچہ پیدا ہو جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرے اور اس کی عبادت کرے گا۔ پس اس حیثیت سے یہ تینوں امور حق اور صحیح ہیں۔ سنن ابی دائود، ترمذی اور نسائی میں حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مرکم ﷺ نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ ایک تیر کے ساتھ تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرمائے گا ایک اسے بنانے والا جو اسے بناتے وقت خیر اور نیکی کی نیت کرنا تا ہے اور دوسرا اسے پھینکنے والا اور تیسرا وہ جس کو تیر ما را جائے یا دجائے “ (4) ۔ تیر اندازی کی فضیلت عظیم ہے اور مسلمانوں کے لیے اس کی منفعت اور فوائد بہت زیادہ ہیں۔ اور کافروں پر اسکی مضرت اور تکلیف انتہائی شید اور سخت ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اے نبی اسمایل ! تیر اندازی کیا کرو کیونکہ تہمارے آباء تیراندازی کرتے تھے “۔ اور گھوڑوں کو سکھانا اور اسلحہ استعمال جاننا فرض کفایہ ہے۔ اور کبھی فرض عین ہوجاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : ومن رباط الخیل جنس، عمر و بن دینار اور بوحیوٰہ نے ومن ربط الخیل را اور ہا کے ضمہ کے ساتھ قراءت کی ہے۔ اور یہ رباط کی جمع ہے، جیسے کتاب کی جمع کتب ہے۔ ابو حاتم نے ابن زید سے نقل کیا ہے کہ رباط سے مراد پانچ یا سے کچھ زائد گھوڑوں کو باندھنا ہے اور اس کی جمع ربط ہے۔ اور مراد وہی ہیں جو بندھے ہوئے ہوں۔ اسی سے کہا جاتا ہے : ربط یریط ربطا اور تبط یرتبط ارتبا طا۔ اور مریط الخیل اور مرابط الخیل سے مراد گھوڑوں کو دشمن کے مقابلے میں باندھنا ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : امرالالہ بریطھا لعدئوہ فی الحرب ان اللہ خیر موفق اللہ تعالیٰ نے جنگ میں اپنے دشمن کے مقابلے میں گھوڑے باندھنے کا حکم دیا ہے بیشک اللہ تعالیٰ بہتر توفیق عطا فرمانے والا ہے۔ اور مکحول بن عبد اللہ نے کہا : تلوم علی ربط الحیاد و حبسھا واوصی بھا اللہ النبی محمد ﷺ تو گھوڑوں کے باندھنے اور انہیں روکھنے پر ملامت کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اپنے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو نصیحت فرمائی ہے۔ اور گھوڑوں کو باندھنا فضل عظیم اور باعث عزت و شرف رتبہ ہے۔ عروہ البارقی کے ستر گھوڑے تھے جو جہاد کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ اور ان میں سے مستحب اور پسندیدہ موئث ( گھوڑیاں) ہیں۔ یہ مکرمہ اور ایک جماعت نے کہا ہے اور یہی صحیح ہے، کیونکہ موئث کا ( باطن) خزانہ ہے اور اس کا ظاہر عزت و فخر ہے۔ اور حضرت جبریل امین (علیہ السلام) کا گھوڑا بھی مونث تھا۔ اور ائمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” گھوڑا تین درجے کا ہے ایک آدمی کے لیے باعث اجر ہے اور ایک کے لیے باعث ستر ہے اور ایک آدمی کے لیے یہ بوجھ ہے “۔ (1) الحدیث۔ اور آپ ﷺ نے مذکر کو موئث سے خاص نہیں فرمایا۔ اور ان میں سے عمدہ اور اعلیٰ اجر کے اعتبار سے عظیم ہے اور بہت زیادہ نفع دینے والا ہے۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ سے عرض کی گئی : کون سا غلام افضل ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ جو ثمن کے اعتبار سے مہنگا ہو اور اپنے گھر والوں کے نزدیک نفیس اور عمدہ ہو “ (2) ۔ نسائی (رح) نے ابو وہب جشمی سے روایت نقل کی ہے۔ اور انہںٰ بھی شرف صحابیت حاصل تھا۔ انہوں نے بیان کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم انبیاء علیم الصلوٰات والتسلیمات کے اسماء پر نام رکھا کرو اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پسندیدہ اسما ( عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں) اور گھوڑے باندھ کر رکھو اور ان کی پیشانیوں اور ان کی پشتون کو رگڑو ( پونجھو) اور انہیں قلادہ پہنائو اور انہیں تانت کا قالدہ نہ پہنائو اور تم پر لازم ہے کہ سرخ سیاہی مائل گھوڑا اور رکھو جع پنج کلیاں ( یعنی چاروں پائوں اور اس کی پیشانی سفید ہو) یا سرخ زردی مائل پنج کلیان یا خالص سیاہ رنگ کا پنج کلیان گھوڑا رکھو “ (1) ۔ ترمذی نے حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” بہترین گھوڑا سیاہ رنگ کا ہے جس نے دانت نکالا ہوا ہو اور اس کی ناک کے سرے پر سفید داغ ہو۔ ( پھر وہ گھوڑا جس نے دانت نکلا ہو اور اس کے پائوں سفید ہوں) پھر مطلق سیاہ رنگ کا گھوڑا اور اگر سیاہ رنگ کا گھوڑا نہ ہو تو پھر سرخ رنگ کا گھوڑا جو سیاہی مائل ہو اور مذکورہ اوصاف پر ہو “ (2) اور اسے وارمی نے بھی حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ میں گھوڑا خریدنے کا ارادہ رکھتا ہوں، تو میں کون سا گھوڑا خریدوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ــ” تو سیاہ رنگ کا گھوڑا خرید جس کی ناک پر سفید داغ ہو دائیں ہاتھ کے سوا بایاں ہاتھ اور دونوں پائوں سفید ہوں یا پھر اسی طرح سرخ سیاہی مائل گھوڑا خریدنلے تو نفع اٹھانے گا اور محفوظ رہے گا “ (3) اور آپ ﷺ گھوڑوں میں الشکال ناپسند کرتے تھے۔ اور الشکال وہ گھوڑا ہوتا ہے جس کے دائیں پائوں میں اور بائیں ہاتھ میں سفید ہو یا دائیں ہاتھ میں اور بائیں پائوں میں سفیدی ہو۔ اسے امام مسلم (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے۔ اور ذکر کیا جاتا کہ وہ گھوڑا جس پر حضرت امام حسین بن علی ؓ کو شہید کیا گیا وہ اشکل تھا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ پس اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : واعدوالھم ما استطعتم من قوۃ کافی تھا۔ پھر خاص طور پر تیروں اور گھوڑوں کا ذکر کیوں کیا گیا ؟ تو یہ کہا جائے گا : بلاشبہ گھوڑا جنگوں کی اصل اور ان کا وہ اسلحہ ہے جس کی پیشانی میں خیر اور بھلائی رکھ دی گئی ہے اور یہ قوت کے اعتبار سے انتہائی طاقتور، دوڑ کے اعتبار سے انتہائی مضبوط اور شہسوار کو محفوظ رکھنے والا ہے اور اس کے ساتھ میدان میں چکر لگایا جاسکتا ہے، لہٰذا ازروئے عظمت و شرف کے اس کا ذکر خاص طور پر کیا اور عزت و تکریم کی خاطر اس کے غبار کی قسم کھائی۔ پش ارشاد فرمایا : والعدیث ضبحا۔ الآیہ ( العادیات) اور جب تیر جنگوں میں استعمال کیے جانے والے ہتھیاروں میں سے اور دشمن کو قتل کرنے کے اعتبار سے اور انہیں اور ارواح کے زیادہ قریب کرنے کے اعتبار سے زیادہ کامیابی دلانے والا ہتھیار ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے اسی لیے اور اس پر تنبیہ کرنے کے لیے اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا۔ اور قرآن کریم میں اس کی نظیر و جبریل و میکال ہے ( یعنی ان فرشتوں کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا اس کی کثیر مثالیں ہیں۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ ہمارے بعض علماء نے اس آیت سے گھوڑا اور ہتھیار رکھنے اور دشمن کے مقابلے کی تیار کے لیے خزانے اور ان کے محافظ رکھنے کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ اور علماء نے حیوان رکھنے کے جواز میں اختلاف کیا ہے جسے گھوڑا اور اونٹ وغیرہ۔ اس بارے میں دو قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ منع ہے، یہی قول ابوحنیفہ (رح) نے کیا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ صحیح ہے۔ یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے۔ اور یہی اصح ہے اور دلیل یہ آیت ہے۔ اور اس گھوڑے کے بارے میں حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث جس پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رہا میں حملہ کیا اور حضرت خالد ؓ کے حق میں حضور علیہ الصلوۃ السلام کا یہ ارشاد گرامی : اور رہے خالد تو تم خالد پر زیادتی کرتے ہو کیونکہ اس نے اپنا گھوڑا باندھ کر رکھا اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں استعمال کیا “ (1) الحدیث اور یہ بھی روایت ہے کہ ایک عورت نے اونٹ فی سبیل اللہ رکھا ہوا تھا اس کے خاوند نے جج کا ارادہ کیا، تو اس نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو وہ اونٹ اسے دے دے تاکہ وہ اس پر حج کرے کیونکہ حج بھی اللہ تعالیٰ کے راستوں میں سے ہے “ اور اس لیے بھی کہ یہ مال ہے جس سے بوجہ قربت نفع حاصل کیا جاسکتا ہے، پس جائز ہے کہ انہیں اونٹ کے بچوں کی طرح باندھ کر رکھا جائے۔ اور علامہ سہیلی نے اس آیت کے ضمن میں حضور نبی مکرم ﷺ کے گھوڑوں اور آلات حرب کے نام ذکر کیے ہیں جو انہیں جاننا چاہے وہ انہیں کتاب ” الاعدم “ میں پاسکتا ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ قولہ تعالیٰ ترھمون بہ عدواللہ وعدوکم یعنی تم اس کے ساتھ خوفزدہ کردو۔ واخرین من دویھم ( اور ان کے سوا دوسرے لوگوں کو) مراد اہل فارس اور روم ہیں۔ یہ سدی نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد جن ہیں۔ اسے علامہ طبری نے اختیار کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہرو ہے جس کی عداوت و دشمنی معروف نہ ہو۔ سہیلی نے کہا ہے : کہا گیا ہے کہ ان سے مراد بنی قریظہ ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ جن ہیں اور علاوہ ازیں بھی قول کیے گئے ہیں۔ اور مناسب نہیں ہے کہ ان کے بارے میں کوئی خاص سے کہی جائے، کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کہا ہے : واخرین من دویھم لا تعلمو نھم اللہ تعلمھم تو پھر کیسے کوئی ان کے بارے حقیقی علم کا دعویٰ کرسکتا ہے، مگر یہ کہ حدیث صحیح ہے جو اس بارے میں رسول اللہ ﷺ نے مروی ہے اور وہ اس آیت کے بارے میں آپ ﷺ کا یہ قول ہے : ھم الجن ( کہ مراد جن ہیں) پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک شیطان ایسے گھر میں کسی کو نہیں بگاڑ سکتا جس میں خوش منظر گھوڑا ہو “ اس روایت میں فرس عتیق کہا گیا ہے یعنی گھوڑے کا نام عتیق رکھا گیا ہے۔ اس لیے کہ وہ حقارت اور نسل کی خرابی سے الگ اور محفوظ ہوتا ہے۔ اس حدیث کو حارچ بن ابی اسامہ نے ابی ملی کی (رح) سے انہوں نے اپنے باپ اور پھر دادا کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے۔ اور یہ بھی روایت ہے کہ جن اس گھر کے قریب نہیں آتے جس میں گھوڑا ہو اور وہ گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سے بھاگ جاتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ قولہ تعالیٰ : وما تنفقوا من شیء تاکہ تم صدقہ کرو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : تم جو خرچ کرو گے اپنے آپ یا اپنے گھوڑے پر فی سبیل اللہ یوفی الیکم آخرت میں تمہیں پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ ( یعنی) ایک نیکی کا اجر اس کی مثل دس سے لے سات سو گنا تک اور پھر کثیر گنا تک۔ وانتم لاتظلمون ( اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا)
Top