Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 55
لَا جُنَاحَ عَلَیْهِنَّ فِیْۤ اٰبَآئِهِنَّ وَ لَاۤ اَبْنَآئِهِنَّ وَ لَاۤ اِخْوَانِهِنَّ وَ لَاۤ اَبْنَآءِ اِخْوَانِهِنَّ وَ لَاۤ اَبْنَآءِ اَخَوٰتِهِنَّ وَ لَا نِسَآئِهِنَّ وَ لَا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ١ۚ وَ اتَّقِیْنَ اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدًا
لَا جُنَاحَ : گناہ نہیں عَلَيْهِنَّ : عورتوں پر فِيْٓ : میں اٰبَآئِهِنَّ : اپنے باپ وَلَآ : اور نہ اَبْنَآئِهِنَّ : اپنے بیٹوں وَلَآ اِخْوَانِهِنَّ : اور نہ اپنے بھائی وَلَآ : اور نہ اَبْنَآءِ اِخْوَانِهِنَّ : اور اپنے بھائیوں کے بیٹے وَلَآ : اور نہ اَبْنَآءِ اَخَوٰتِهِنَّ : اپنی بہنوں کے بیٹے وَلَا : اور نہ نِسَآئِهِنَّ : اپنی عورتیں وَلَا : اور نہ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ ۚ : جس کے مالک ہوئے ان کے ہاتھ (کنیزیں) وَاتَّقِيْنَ : اور ڈرتی رہو اللّٰهَ ۭ : اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے شَهِيْدًا : گواہ (موجود)
عورتوں پر ( پردہ نہ کرنے میں ) کوئی گناہ نہیں ہے اپنے باپ دادا سے، اپنے بیٹوں سے، اپنے بھائیوں سے ، اپنے بھائی کے بیٹوں سے ، اپنی بہن کے بیٹوں سے، اپنے میل جول کی عورتوں سے اور اپنی کنیزوں سے۔ اللہ سے ڈرتی رہو ۔ بیشک اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 55 تا 58 لا جناح : کوئی گناہ نہیں ہے اتقین : ڈرتی رہیں یصلون : رحمتیں بھیجتے ہیں۔ درود بھیجتے ہیں سلموا : سلام بھیجو تسلیما : خوب سلما بھیجنا یوذون : تکلیف پہنچاتے ہیں لعن : اس نے لعنت کی ۔ رحمت سے دور کیا اکتسبوا : تم نے کمائی کی۔ تم نے کمایا احتملوا : انہوں نے اٹھا لیا بھتان : بہتان ۔ الزام اثما مبینا : کھلا گناہ تشریح آیت نمبر 55 تا 58 اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نبی کریم ﷺ کا بےانتہا ادب و احترام کرنے کے احکامات ارشاد فر مائے ہیں ۔ اور اس زمانہ کے رواج کے برخلاف یہ فرمایا تھا کہ جب تک ان کو گھروں پر آنے کی دعوت نہ دی جائے تو اس وقت تک وہ بغیر اجازت کے نبی کریم ﷺ کے گھروں میں داخل نہ ہو اور اگر وہ آئیں اور ان کی ازواج مطہرات سے کچھ پوچھنا ہو تو پردے کے پیچھے سے سوال کریں ۔ حجاب کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے تمام صحابیات ؓ نے بھی اپنے گھروں پر پردے لٹالئے تھے۔ حجاب کے اس حکم کے تحت سوائے محرم رشتہ داروں کے ہر ایک رشتہ دار اور تعلقات والوں پر پردے کی پابندی لگا دی گئی تھی۔ زیر مطالعہ آیات میں سب سے پہلے ان محرم رشتہ داروں کی تفصیل بیان کی گئی ہے جن سے پردہ نہیں ہے اور پھر اس کے بعد نبی کریم ﷺ کی شان ، عظمت اور آپ کا ادب و احترام سکھایا گیا ہے۔ فرمایا کہ باپ، بیٹا ، بھائی ، بھتیجہ، بھانجہ، مسلمان عورتیں اور کنیزیں ان سب کو گھروں میں آنے اور جانے کی اجازت ہے ان پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ اس کی کچھ تفصیل سورة نور میں بھی گذر چکی ہے۔ ان ہی آیات میں نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات سے اور ان کے واسطے سے پوری امت کی خواتین سے فرمایا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں خوف الہی کا دامن تھامے رہیں اور اپنے ہر عمل کی نگرانی کرتی رہیں کیونکہ اللہ سے ان کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں ہے۔ وہ ہر ایک کے احوال سے پوری طرح واقف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کا ادب احترام اور تعظیم و تکریم کے آداب سکھاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک آپ کی شان عظمت اتنی زیادہ ہے کہ اللہ ان پر دن رات اپنی رحمتوں کی بارش فر ما رہا ہے اس کے پاکیزہ فرشتے ہر آن ان کے لئے دعائے رحمت کر رہے ہیں لہذا اہل ایمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ پر کثرت سے صلوۃ وسلام بھیجنے کی سعادت حاصل کریں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے اللہ کو اور اس کے رسول کو ذہنی ، جسمانی یا روحانی اذیت پہنچنے کا امکان بھی ہو کیونکہ جو لوگ ایسا کریں گے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنتیں برستی رہیں گی۔ ان آیات کی کچھ وضاحتیں : (1) باپ ، بھائی، اور بھانجوں کے حکم میں وہ سب رشتہ دار شامل ہیں جو ایک عورت کے لئے محرم کا درجہ رکھتے ہیں خواہ وہ نسب کے اعتبار سے رشتہ دار ہوں یا رضاعی (دودھ شریک ) لحاظ سے ہوں ۔ (محرم اس کو کہتے ہیں جس سے ہمیشہ کے لئے نکاح کرنا حرام ہو) ان آیات میں دادا ، چچا اور ماموں کا ذکر نہیں ہے حالانکہ وہ بھی ایک عورت کے محرم ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک عورت کے لئے ماں اور باپ کا درجہ رکھتے ہیں ۔ جب بھانجوں اور بھتیجوں کا ذکر فرمادیا تو اب ان کا نام لینے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ بھتیجے اور بھانجے سے پردہ نہ کرنے کا جو سبب ہے وہی چچا اور ماموں سے پردہ نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ (2) قرآن کریم میں لفظ صلوۃ آیا ہے جس کا ترجمہ ہم فارسی زبان کے ایک لفظ ” درود “ سے کرتے ہیں اور عام طور پر اس آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو ! تم بھی ان پر خوب درود سلام بھیجو۔ یہ ترجمہ ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک صلوۃ کا ترجمہ صرف درود شریف ہے حالانکہ لفظ صلوۃ اپنے اندر بہت سے معنی کی وسعت رکھتا ہے ۔ رحمت، دعا ، نماز ، درود وغیرہ ۔ اس لفظ کی نسبت اگر عبادت کی طرف کی جائے گی تو اس سے نماز مراد ہوگی۔ اسی طرح اگر اس لفظ کی نسبت اللہ کی طرف ہوگی تو اس سے مراد رحمتیں بھیجنا ، فرشتوں کی طرف ہوگی تو اس کے معنی دعائے رحمت کے ہوتے ہیں اور جب اس لفظ کی نسبت نبی کریم ﷺ کی طرف ہوگی تو اس سے مراد درود شریف ہوگا اور اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا جائے گا کہ بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی کریم ﷺ پر رحمتیں بھیجتے اور فرشتے دعائے رحمت کرتے ہیں اے مومنو ! تم بھی نبی کریم ﷺ پر خوب کثرت سے سے درود وسلام بھیجو۔ یہ کہ ترجمہ اللہ اور اس کے فرشتے حضور اکرم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں یہ ترجمہ مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے فائدہ اٹھا کر اہل بدعت نے رسول اللہ ﷺ کا مقام اللہ سے بھی بڑھا کر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ (3) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی عظمت ، شان اور رتبہ کا اظہار کرنے کے لئے فرمایا کہ اللہ آپ پر بہت مہربان ہے اور آپ کی تعریف فرماتا ہے لہذا اب ہر مومن پر یہ واجب ہے کہ وہ آپ کے لئے صلوۃ یعنی دعا اور ان کی مدح و ثنا جتنی کرسکتا ہو وہ کرے اور آپ پر خوب سلام بھیجنے کی سعادت حاصل کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا بلند رتبہ اور عظیم مقام عطا فرمایا ہے کہ اکثر نماز ، اذان ، اقامت اور کلمہ طیبہ وغیرہ میں آپ کا ذکر مبارک شامل فرمایا ہے۔ اللہ نے آپ کو دین اسلام کے وہ زرین اصول عطا فرمائے ہیں جنہیں آپ نے تمام مذاہب پر غالب کر کے دکھایا اور ان اصولوں کو پھیلانے میں آپ نے دن رات جدو جہد فرمائی اور کفار و مشرکین کی شدید مزاحمت کے باوجود آپ نے صحابہ کرام ؓ کی ایک ایسی پاکیزہ جماعت تیار فرمائی جن پر کائنات کی تمام طاقتوں کو ناز ہے۔ اللہ نے آپ کو قرآن کریم کے ذریعہ جن زرین اصولوں کی تعلیم دی ہے اس کی حفاظت کا خود ہی ذمہ لیا ہے اور آپ کی برکت سے شریعت کے تمام اصولوں پر قیامت کے دن تک عمل ہوتا رہے گا۔ آپ ﷺ کو سارے رسولوں اور نبیوں کے آخر میں بھیج کر آپ کر سر پر ختم نبوت کا تاج سجادیا ہے جس سے آپ کا رتبہ و مقام اللہ کے بعد ساری مخلوق سے زیادہ ہوگیا ہے ۔ قیامت کے ہولناک دن جب ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی اور کوئی کسی کو نہ پوچھے گا اس وقت آپ نہ صرف اپنی امت کی بلکہ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی امتوں کی اللہ کی بارگاہ میں شفاعت فرمائیں گے۔ اللہ نے آپ کو مقام محمود عطا فرمایا ہے جہاں آپ اپنی امت کی شفاعت فرمائیں گے۔ ایسے پیارے اور محبوب رسول ﷺ کی دن رات تعریف و توصیف نہ کرنا ایک بہت بڑی محرومی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم ﷺ کے رتبہ اور مقام کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ان آیات کے آخر میں فرمایا کہ جو لوگ نبی کریم ﷺ کا ادب و احترام نہیں کرتے اور اپنے طرز عمل سے ان کو دکھ پہنچاتے ہیں تو ایسے لوگوں پر اللہ نہ صرف دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے بلکہ ان کے لئے ایک ایسا عذاب تیار کر رکھا ہے جو ان کو دنیا اور آخرت میں ذلیل و رسوا کر کے چھوڑ گا۔ اسی طرح وہ مومن مر اور مومن عورتیں جو بےقصور ہیں جن کو یہ کفار ستاتے ، ان پر تہمتیں لگاتے اور انہیں دکھ پہنچاتے ہیں اور انہیں اپنی جھوٹی اور من گھڑت باتوں سے نیچا دکھانا چاہتے ہیں تو ایسے لوگ در حقیقت اپنی گردن پر گناہوں کے بوجھ رکھتے چلے جا رہے ہیں ۔ دنیا اور آخرت میں ایسے لوگوں کی سزا مقرر کردی گئی ہے جس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ (4) نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص ذلیل و رسوا ہوجائے جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔ (ترمذی) اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ وہ شخص کنجوس ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پر ہے۔ (ترمذی) پوری زندگی میں ایک مرتبہ درود شریف پڑھنا فرض اور واجب ہے۔ اور جب بھی آپ کا نام مبارک آئے تو اسی وقت آپ پر درود بھیجنا مستحب ہے ۔ ” ﷺ “ کہنے سے بھی حکم کی تعمیل ہوجائے گی۔ جو شخص نماز پڑھتاوہ التحیات میں سلام بھیجتا ہے اور آخر میں درود شریف پڑھتا ہے لہذا جو شخص بھی نماز ادا کرتا ہے وہ اس حکم کی تعمیل کر کے درود سلام بھیجتا ہے اور جو نماز نہیں پڑھتا یا نماز کا منکر ہے وہی درود سلام کا منکر ہے۔
Top