Fahm-ul-Quran - Al-Maaida : 24
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّا : بیشک ہم لَنْ نَّدْخُلَهَآ : ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے اَبَدًا : کبھی بھی مَّا دَامُوْا : جب تک وہ ہیں فِيْهَا : اس میں فَاذْهَبْ : سو تو جا اَنْتَ : تو وَرَبُّكَ : اور تیرا رب فَقَاتِلَآ : تم دونوں لڑو اِنَّا : ہم ھٰهُنَا : یہیں قٰعِدُوْنَ : بیٹھے ہیں
” انہوں نے کہا اے موسیٰ ! ہم تو اس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے جب تک وہ اس میں موجود ہیں پس تو اور تیرا رب جاؤ اور لڑوہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ (24)
فہم القرآن ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) کی اللہ تعالیٰ کے حضور التجاء : جب نا ہنجار اور نافرمان قوم نے نہ صرف موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کا انکار کیا بلکہ پرلے درجے کی گستاخی کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تو اور تیرا رب جاکرقتال کریں۔ غور فرمائیں، جس قوم کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بیشمار مصائب وآلام برداشت کیے اور جس کے لیے اتنی جدوجہد کی کہ اس کا جواب کتنا گستاخانہ اور بزدلانہ ہے۔ یہ سن کر جناب موسیٰ (علیہ السلام) کے دل پر کیا گزری ہوگی ؟ لیکن اس کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) نے انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں کچھ کہنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں فریاد کی کہ الٰہی ! میں اپنی اور اپنے بھائی کی ذمہ داری لیتا ہوں جس کا یہ معنی ہے کہ ہم تو تیری راہ میں لڑنے مرنے کے لیے تیار ہیں اگر یہ نافرمان اپنے فائدے کی خاطر بھی تیرے راستے میں لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ بس تو ہمارے اور ان کے درمیان علیحدگی فرما دیجیے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان پر ارض مقدس کو حرام کیا اور انھیں چالیس سال تک تیہ کے صحرا میں ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا اور ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا کہ آپ کو نافرمان قوم پر افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ چناچہ کچھ مدت کے بعد حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہوئے۔ ان کے بعد یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل ارض مقدس میں داخل ہوئے لیکن اس وقت بھی انھوں نے بغاوت کا مظاہرہ کیا جس کا ذکر گزر چکا ہے۔ جغرافیہ دانوں نے اس صحرا کا رقبہ 27 فرسخ طول اور 9 فرسخ عرض بیان کیا جس کا مطلب ہے کہ یہ صحرا 90 میل لمبا اور 27 میل چوڑا ہے جس میں تقریباً 70 لاکھ کے قریب بنی اسرائیل مقید کیے گئے جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ صبح سے شام تک اس کوشش میں سرگرداں رہتے کہ کسی طرح وہ واپس پلٹ جائیں لیکن مغرب کے وقت اسی مقام پر ہوتے جہاں سے انھوں نے سفر شروع کیا ہوتا تھا گویا کہ وہ بغیر کسی دیوار اور بیڑیوں کے اللہ تعالیٰ کی جیل میں جکڑ دیے گئے تھے تاہم اس دوران انھیں صبح و شام کھانے کے لیے من اور سلویٰ دیا جاتا اور پینے کے بارہ چشموں کا انتظام اور دھوپ سے بچاؤ کے لیے بادلوں کا سا یہ کیا گیا۔ یہ مثلث نما جزیرہ ہے جو بحر الکاہل (بحیرہ روم) (شمال کی طرف) اور ریڈسی بحر احمر (جنوب کی طرف) کے درمیان مصر میں واقع ہے اور اس کا رقبہ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر ہے اس کی زمینی سرحدیں سویز نہر مغرب کی طرف اور اسرائیل۔ مصر سرحد، شمال مشرق کی طرف ہیں۔ سینائی جزیرہ نما جنوب مغربی ایشیا میں واقعہ ہے اسے مغربی ایشیا بھی کہتے ہیں یہ زیادہ درست جغرافیائی اصطلاح ہے جبکہ مصر کا باقی حصہ شمالی افریقہ میں واقعہ ہے جغرافیائی و سیاسی مقاصد کے لیے زیادہ سینائی کو اکثر افریقہ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سینائی تقریباً مکمل طور پر صحرا ہے مگر تبا (Taba) میں سبا ساحل (Sabah Coast) کے ساتھ ساتھ واقع ہے (موجودہ اسرائیل قصبہ ایلٹ ( eilat) کے نزدیک) جہاں ایک ہوٹل اور رقص گاہ (Casino) ہے جب ساحل کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف حرکت کی جائے تو وہاں نیوویبا (N (علیہ السلام) weba) داھاب (Dahab) اور شرم الشیخ (Sharmel sheikh) واقع ہیں سینائی العریش ( I Arishel) یں غزہ پٹی کے نزدیک شمالی ساحل پر واقع ہے۔ مسائل 1۔ اللہ کے رسول کے حکم کو نہ ماننے والے فاسق ہیں۔ 2۔ اللہ کا حکم نہ ماننے والے رسوا ہوتے ہیں۔ 3۔ مغضوب قوم کے لیے زمین تنگ کردی جاتی ہے۔ 4۔ نافرمان لوگوں پر عذاب نازل ہو تو افسوس نہیں کرنا چاہیے۔
Top