Fahm-ul-Quran - At-Tawba : 32
وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَكٌ وَّ لَاۤ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْۤ اَعْیُنُكُمْ لَنْ یُّؤْتِیَهُمُ اللّٰهُ خَیْرًا١ؕ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ١ۖۚ اِنِّیْۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا لَكُمْ : تمہیں عِنْدِيْ : میرے پاس خَزَآئِنُ اللّٰهِ : اللہ کے خزانے وَ : اور لَآ اَعْلَمُ : میں نہیں جانتا الْغَيْبَ : غیب وَ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا اِنِّىْ : کہ میں مَلَكٌ : فرشتہ وَّ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جنہیں تَزْدَرِيْٓ : حقیر سمجھتی ہیں اَعْيُنُكُمْ : تمہاری آنکھیں لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ : ہرگز نہ دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ خَيْرًا : کوئی بھلائی اَللّٰهُ : اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : جو کچھ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں اِنِّىْٓ : بیشک میں اِذًا : اس وقت لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ : البتہ ظالموں سے
اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا۔ تو کیا تم سمجھتے نہیں تھے؟
ولقد اضل منکم جبلاً کثیرًا افلم تکونوا تعقلون . اور یقیناً وہ تم میں سے کثیر مخلوق کو گمراہ کرچکا ہے ‘ سو کیا تم نہیں سمجھتے تھے ؟ یعنی کیا پیغمبروں کی زبانی تم کو تاکید نہیں کردی تھی ؟ یہ استفہام انکاری ہے اور نفی کا انکار ‘ اثبات ہوتا ہے ‘ اسلئے مطلب یہ ہوا کہ میں نے تاکید کردی تھی۔ یہ جملہ حکم سابق کی علت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے ‘ یعنی مؤمنوں سے الگ ہوجانے کا ‘ اسلئے حکم دیا گیا کہ تم کو میں نے تاکید کردی تھی۔ لاَ تَعْبُدُوْا یعنی شیطان کے کہنے میں آکر اللہ کی نافرمانی نہ کرنا۔ اِنَّہٗ لَکُمْ الخ یہ حکم سابق کی علت ہے ‘ یعنی اسلئے شیطان کے کہنے میں آکر گناہ نہ کرنا کہ وہ تمہارا صریحی دشمن ہے۔ ھٰذَا صِرَاطٌ یہ یعنی شیطان کی عبادت نہ کرنے کی تاکیدی ممانعت یا اللہ کی عبادت ‘ سیدھا راستہ ہے۔ صراطٌ کی تنوین مبالغہ کیلئے ہے ‘ یا اظہار عظمت کیلئے ‘ یا تبعیض کیلئے کیونکہ توحید سیدھے راستے پر چلنے کا ایک حصہ ہے (تکمیل تو تمام فرائض کی ادائیگی اور ممنوعات سے اجتناب کامل سے ہوتی ہے) ۔ جِبِلاً مخلوق یا جماعت جن کو پوری سمجھ اور کامل دانش حاصل ہے ‘ ان کیلئے یہ جملہ شیطان کی انسانوں سے دشمنی کا ثبوت ہے ‘ اس کی عداوت کا اظہار اور گمراہ کنی کی توضیح ہے۔ شیطان ‘ انسان کو بےحیائی کی باتوں اور برے کاموں کا مشورہ دیتا ہے۔ وہ خالق و رازق جس کے دست قدرت میں ہر نفع و ضرر ہے ‘ اس کی عبادت کو چھوڑ کر ان بتوں کی پوجا کی ترغیب دیتا ہے جن کو نہ نفع رسانی کی طاقت حاصل ہے ‘ نہ ضرر رسانی کی اور اس ناصح بہی خواہ نبی کے اتباع و اطاعت کو ترک کر کے خواہشات نفس کے پیچھے پڑجانے کا حکم دیتا ہے جس کی تصدیق منجانب اللہ معجزات سے ہو رہی ہے۔ اَفَلَمْ تَکُوْنَوا الخ یعنی شیطان کی عداوت بالکل واضح ہے ‘ اتنی کھلی ہوئی دشمنی کو کیا تم جانتے نہ تھے ؟ یہ استفہام بمعنی زجر و توبیخ ہے۔
Top