Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 76
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبْكَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ هُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوْلٰىهُ١ۙ اَیْنَمَا یُوَجِّهْهُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ١ؕ هَلْ یَسْتَوِیْ هُوَ١ۙ وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ١ۙ وَ هُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَضَرَبَ : اور بیان کیا اللّٰهُ : اللہ مَثَلًا : ایک مثال رَّجُلَيْنِ : دو آدمی اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَبْكَمُ : گونگا لَا يَقْدِرُ : وہ اختیار نہیں رکھتا عَلٰي شَيْءٍ : کسی شے پر وَّهُوَ : اور وہ كَلٌّ : بوجھ عَلٰي : پر مَوْلٰىهُ : اپنا آقا اَيْنَمَا : جہاں کہیں يُوَجِّهْهُّ : وہ بھیجے اس کو لَا يَاْتِ : وہ نہ لائے بِخَيْرٍ : کوئی بھلائی هَلْ : کیا يَسْتَوِيْ : برابر هُوَ : وہ۔ یہ وَمَنْ : اور جو يَّاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کے ساتھ وَهُوَ : اور وہ عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
اللہ ایک اور مثال دیتا ہے ۔ دو آدمی ہیں۔ ایک گونگا بہرا ہے ، کوئی کام نہیں کرسکتا ، اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے ، جدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اس سے بن نہ آئے۔ دوسرا شخص ایسا ہے کہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود راہ راست پر قائم ہے۔ بتاؤ کیا یہ دونوں یکساں ہیں ؟ ”۔
آیت نمبر 75 تا 76 پہلی مثال تو ان کے اندر موجود صورت حالات سے لی گئی ہے۔ اس وقت عرب کے جاہلی معاشرے میں مملوکہ غلام موجود تھے ، یہ اس قدر بےبس مخلوق تھی کہ نہ وہ کسی چیز کے مالک ہوتے تھے اور نہ ان کو کوئی اختیار حاصل تھا۔ یہ لوگ بھی مالک مختار و متصرف اور عاجز غلام اور بےاختیار کے درمیان فرق مراتب سے اچھی طرح واقف تھے۔ لہٰذا ان سے کہا گیا کہ مالک حقیقی کو تم کس طرح اپنے غلاموں کے ساتھ برابر قرار دیتے ہو اور ان غلاموں کو مالک کا شریک قرار دیتے ہو ، کیونکہ تمام انسان اللہ کے غلام اور بندے ہیں۔ دوسری مثال ایسے شخص کی ہے جو گونگا ، بلید ۔۔۔ اور کم نوال ہے۔ وہ کسی کام کو نہیں جانتا ، مالک پر بوجھ ہے۔ جدھر بھی بھیجا جائے کوئی خیر کا کام اس سے نہ بن پائے۔ لیکن دوسرا شخص قوی الجسم ، سلیم العقل ہے ، خوب بات کرتا ہے اور بات بھی عدل و انصاف کی کرتا ہے ، اور کردار کے اعتبار سے راہ راست پر قائم ہے۔ ان دونوں اشخاص میں کوئی سلیم العقل شخص مساوات قائم نہیں کرسکتا۔ بس ایک بت اور ایک پتھر اور اللہ سبحانہ قادر وعلیم کے درمیان کس طرح شرکت و مساوات قائم ہو سکتی ہے ، جبکہ اللہ حکم دیتا ہے کہ معروف کا حکم دو اور منکر سے لوگوں کو روکو اور صراط مستقیم کی طرف آؤ۔ یہ سبق جو اللہ کے اس حکم سے شروع ہوا تھا کہ جدالیین کا نظریہ نہ رکھو ، ان دونوں مثالوں سے اس سبق کا خاتمہ ہوا جن سے ثابت ہوا کہ شرکیہ عقائد و نظریات تعجب انگیز ہیں۔
Top