Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 77
وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے غَيْبُ : پوشیدہ باتیں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَآ : اور نہیں اَمْرُ السَّاعَةِ : کام ( آنا) قیامت اِلَّا : مگر (صرف) كَلَمْحِ الْبَصَرِ : جیسے جھپکنا آنکھ اَوْ : یا هُوَ : وہ اَقْرَبُ : اس سے بھی قریب اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اور زمین و آسمان کے پوشیدہ حقائق کا علم تو اللہ ہی کو ہے اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی ہی جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے ، بلکہ اس سے بھی کچھ کم۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے
بعثت بعد الموت کا مسئلہ وہ مسئلہ ہے جو ہر دور میں نہایت درجہ مختلف فیہ رہا ہے۔ اس کے بارے میں لوگوں نے ہر رسول کے ساتھ مکالمہ ، مجادلہ اور مناظرہ کیا ہے۔ اپنی اصل میں یہ وہ غیب ہے جو اللہ کے مخصوص ترین رازوں میں سے ہے۔ تشریح : وللہ غیب السموت والارض (61 : 77) ” زمین و آسمان کے پوشیدہ حقائق کا علم تو اللہ ہی کو ہے “۔ انسانوں کی حالت تو یہ ہے کہ وہ پردہ غیب کے پیچھے پوشیدہ اسرار و رموز کے پانے سے عاجزو قاصر ہیں۔ ان کا مادی علم جس قدر بھی آگے بڑھ جائے اور دنیا کی مادیات کے بارے میں ان پر جس قدر علوم کے خزانے بھی کھل جائیں۔ وہ زمین کے اندر پوشیدہ خزانوں کی ایک بڑی مقدار کو دریافت کیوں نہ کرلیں وہ ان اسرار کائنات کو پا نہیں سکتے۔ جبکہ اس کائنات میں علوم غیب کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے برگزیدہ انسان کو بھی یہ معلوم نہیں کہ کل اس کی ذات کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ، بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ نکلنے والا سانس پھر لوٹے گا یا نہیں۔ انسان کی خواہشات کی دنیا تو طویل و عریض ہے لیکن پردہ غیب کے پیچھے سے تقدیر اس پر خندہ زن ہوتی ہے۔ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اگلے لمحے اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ بعض اوقات اگلے ہی لمحے میں اسے مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ اس نے انسان کو اگلے لمحے آنے والے واقعات سے لاعلم رکھا ہے تاکہ وہ ہر وقت پر امید رہیں ، کام کرتے رہیں ، پیدا کرتے رہیں ، اور نشوونما دیتے رہیں اور جن کاموں کا انہوں نے آغاز کیا ہے انہیں پیچھے چھوڑ دیں تاکہ آنے والے ان کی تکمیل کریں۔ یہاں تک کہ تقدیر وہ چہرہ نمودار کردے جو پس پردہ ہے۔ قیامت بھی ان پوشیدہ اور مستور غیبوں سے ہے۔ اور اگر لوگوں کو قیام قیامت کی سات کا علم ہوجائے تو زندگی کی گاڑی یکدم رک جائے یا اس کے اندر عظیم خلل پڑجائے۔ زندگی کے شب و روز اس طرح نہ گزریں جس طرح کہ قانون قدرت نے ان کے لئے ضابطہ بندی کی ہوئی ہے بلکہ لوگ بیٹھ جاتے اور سال و ماہ اور دن اور گھنٹے گنتے کہ بس اب قیام قیامت کے اتنے دن رہ گئے۔ وما امر الساعۃ الا کلمح البصر اوھو اقرب۔ (61 : 77) ” اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے بلکہ اس سے بھی کچھ کم۔ یہ بہت ہی قریب ہے لیکن اس کے وقت کا حساب انسان کے ماہ و سال کے حساب سے مختلف پیمانوں کے ساتھ ہے۔ اس کے انتظامات کے لئے اللہ کو کسی وقت کی ضرورت نہیں ہے۔ پلک جھپکنے کی دیر کافی ہے ، اس سے بھی کم وقت میں یہ تمہارے سامنے اپنے پورے مناظر کے ساتھ حاضر ہوگی۔ ان اللہ علی کل شیئی قدیر (61 : 77) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ انسانوں اور مخلوقات کی یہ ان گنت تعداد کو حاضر کرنا ، ان کا اٹھانا ، جمع کرنا ، حساب و کتاب لینا ، جزاء و سزا دینا اس قدرت کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے جس نے صرف کن کہنا ہے اور سب کچھ ہوجانا ہے۔ یہ معاملہ صرف ان لوگوں کے لئے خوفناک اور مشکل ہے جو انسانی پیمانوں سے معاملات کو سوچتے ہیں۔ انسانی نظروں سے دیکھتے ہیں اور انسانی اعداد میں حساب و کتاب کرتے ہیں ۔ اس لئے ان کی سوچ اور اندازے غلط ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم واقعہ کو انسانی زندگی کی بعض مثالوں سے انسان کے لئے قریب الفہم بناتے ہیں ، کیونکہ اس عظیم اور ہولناک واقعہ کے حقیقی تصور سے انسان کی قوت ادراک اور قوت تصور عاجز ہے۔ یہ مثالیں انسانی زندگی میں دہرائی جاتی ہیں۔
Top