Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 14
اِقْرَاْ كِتٰبَكَ١ؕ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاؕ
اِقْرَاْ : پڑھ لے كِتٰبَكَ : اپنی کتاب (نامہ اعمال) كَفٰى : کافی ہے بِنَفْسِكَ : تو خود الْيَوْمَ : آج عَلَيْكَ : اپنے اوپر حَسِيْبًا : حساب لینے والا
پڑھ اپنا نامہ اعمال ، آج اپنا حساب لگانے کے لئے تو خود ہی کافی ہے۔
اقراء کتبک کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا (71 : 41) ” پڑھ اپنا نامہ اعمال ، آج اپنا حساب لگانے کے لئے تو خود ہی کافی ہے “۔ اسی اٹل قانون قدرت کے ساتھ عمل اور مکافات عمل کا قانون وابستہ ہے۔ من اھتدی فانما یھتدی لنفسہ ومن ضل فائما یضل علیھا والا تزر وازرۃ وزر اخری (71 : 51) ” جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لئے مفید ہے ، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبال اسی پر ہے “۔ چناچہ عمل کی ذمہ داری انفرادی ہے اور اس کی وجہ سے ہر انسان اپنے نفس کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر ہدایت اختیار کرتا ہے تو بھی اپنے لیے کرتا ہے ، اگر گمراہ ہوتا ہے تو وہ خود ہی ذمہ داری ہے۔ کوئی بھی دوسرے کے کیے کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ اور کوئی بھی کسی کے بوجھ میں کمی نہ کرسکے گا۔ ہر انسان سے خود اس کے اعمال کی باز پرس ہوگی اور صرف اس کے اعمال حسنہ کی جزا دی جائے گی اور کوئی دوست بھی کسی دوست کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے نہایت مہربانی کرتے ہوئے انسان کو صرف اس اصول پر مسئول اور ذمہ دار نہیں بنایا جو اس کائنات فطرت میں موجود ہے اور نہ اس کو صرف عہد الست کی بنا پر مسئول بنایا جو اللہ نے تمام انسانوں سے اس وقت لیا تھا جب وہ آدم کی پشت میں تھے بلکہ اللہ نے نہایت مہربانی کرتے ہوئے سلسلہ رسل جاری فرمایا ، جو لوگوں کو ناموس شریعت کی یاد دہانی کراتے رہے ، انجام بد سے لوگوں کو ڈراتے رہے۔ اور یہ اصول مقرر فرمایا۔
Top