Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 64
وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ١ؕ وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا
وَاسْتَفْزِزْ : اور پھسلا لے مَنِ : جو۔ جس اسْتَطَعْتَ : تیرا بس چلے مِنْهُمْ : ان میں سے بِصَوْتِكَ : اپنی آواز سے وَاَجْلِبْ : اور چڑھا لا عَلَيْهِمْ : ان پر بِخَيْلِكَ : اپنے سوار وَرَجِلِكَ : اور پیادے وَشَارِكْهُمْ : اور ان سے ساجھا کرلے فِي : میں الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَوْلَادِ : اور اولاد وَعِدْهُمْ : اور وعدے کر ان سے وَمَا يَعِدُهُمُ : اور نہیں ان سے وعدہ کرتا الشَّيْطٰنُ : شیطان اِلَّا : مگر (صرف) غُرُوْرًا : دھوکہ
تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلالے ، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا ، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ سا جھالگا ، اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس…اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں
واستفزز……(71 : 46) ” تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلا دے ، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا “۔ یہاں شیطان کے وسائل گمراہی اور ضلالت کو مجسم طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ کسی طرح شیان انسانوں کے دل ، ان کے شعور اور ان کی عقل پر تسلط اختیار کرلیتا ہے۔ گویا آدم و ابلیس کے درمیان کھلی جنگ ہے۔ ہمہ گیر جنگ ہے۔ اس میں آواز ، گھوڑے اور ٹینک پیارے اور تمام دوسرے وسائل شیطان استعمال کرتا ہے جیسا کہ تمام روایتی جنگوں کے درمیان ہر قسم کے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں۔ آوازیں بھی دی جاتیں اور آوازوں اور مبارزت کی وجہ سے دشمن کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ استدراج اور کیمو فلاج سے کام لیا جاتا ہے۔ جنگی چالیں چلی جاتی ہیں ، پہلے کسی دشمن کو کھلے میدان میں لایا جاتا ہے ، پھر اس پر وار کیا جاتا ہے یا گھیر لیا جاتا ہے۔ وشارکھم فی الاموال والاولاد (71 : 46) ” مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا “۔ جاہلانہ بت پرستی کے اندر یہ شرکت پائی جاتی ہے۔ مثلاً اپنے بنائے ہوئے بتوں اور الہوں کے لئے اہل جاہلیت اپنے اموال میں سے حصے مقرر کرتے تھے۔ یہ تمام حصے گویا شیطان کے تھے۔ اولاد میں شیطان کی حصہ داری یوں تھی کہ اولاد میں سے بعض کو وہ ان الہوں کی خدمت کے لئے وقف کردیتے تھے جو درحقیقت شیان کے ہوجاتے تھے۔ مثلاً عبد اللہ اور عبدہ مناۃ اور بعض اوقات وہ براہ راست شیان کا حصہ کرتے تھے مثلاً عبد الحارث یعنی شیان کا بندہ ۔ اسی طرح وہ تمام دولت جو حرام ذرائع سے آتی تھی یا جو حرام طریقوں میں صرف ہوتی تھی ، بدکاریوں اور گنہ کاریوں کی راہ میں جو لٹائی جاتی تھی۔ حرام اولاد بھی شرکت شیطان کا ایک نمونہ ہے۔ یہاں مراد عمومی شرکت ہے۔ ذکر صرف مال اور اولاد کا ہوا ہے اس لئے کہ مال اور اولاد معشیت کے بنیادی فیکٹر ہیں۔ ابلیس کو ابنی آدم کے گمراہ کرنے میں ہر قسم کے وسائل استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ یعنی ایسے وعدے جو پورے نہ کیے جاسکیں۔ وعدھم ……(71 : 46) ” اور ان کو وعدوں کے جال میں پھنسا دے اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں “۔ مثلاً یہ کہ اگر تم نے میری راہ اپنائی تو تم پر کوئی عذاب نہ ہوا ، تم سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا اور یہ کہ حرام ذرائع سے ہر قسم کا مال تمہارے پاس جمع ہوگا۔ تم دنیا میں غالب اور کامیاب رہو گا اور ناپاک ذرائع آمدنی اور نجس طرز معیشت کے تمام دروازے تمہارے لئے کھلے ہوں گے۔ شیطان کا سب سے بڑا جھوٹا وعدہ یہ ہوتا ہے کہ گناہوں اور خطا کاریوں کے بعد تمہیں معاف کردیا جائے گا۔ یہ وہ سوراخ ہے ، جس کے ذریعے شیطان ہر دل میں داخل ہوجاتا ہے خصوصاً ایسے کمزور لوگوں کے دلوں میں جو گناہوں اور خطاکاریوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے یا ایسے لوگوں کے دلوں میں جو ارتکاب معصیت میں بےباک ہوتے ہیں اور انہیں قابل فخر و عزت سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ وہ یوں چاپلوسی اختیار کرتا ہے کہ بھائی اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے اور اللہ غفور ورحیم ہے۔ اسے اس بات میں دلچسپی نہیں ہے کہ خواہ مخواہ لوگوں کو سزا دے۔ شیطان ! تم جائو تمہیں اجازت ہے کہ جو لوگ تمہاری طرف میلان رکھتے ہیں ان کو پھانسو لیکن میرے بعض بندے ایسے بھی ہوں گے جن پر تمہارے دائو نہیں چلیں گے کیونکہ وہ ایسے قلعوں میں محفوظ ہوں گے جو تمہارے اور تمہاری افواج کی دسترس سے دور ہوں گے۔
Top