Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 109
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا
قُلْ : فرمادیں لَّوْ : اگر كَانَ : ہو الْبَحْرُ : سمندر مِدَادًا : روشنائی لِّكَلِمٰتِ : باتوں کے لیے رَبِّيْ : میرا رب لَنَفِدَ الْبَحْرُ : تو ختم ہوجائے سمندر قَبْلَ : پہلے اَنْ تَنْفَدَ : کہ ختم ہوں كَلِمٰتُ رَبِّيْ : میرے رب کی باتیں وَلَوْ : اور اگرچہ جِئْنَا : ہم لے آئیں بِمِثْلِهٖ : اس جیسا مَدَدًا : مدد کو
” اے نبی کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لئے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہوجائے ، مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں ، بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے۔
انسانی معلومات کی حد تک سب سے بڑا ذخیرہ آب سمندر ہے۔ انسان جو علوم لکھتے ہیں وہ سیاہی کے ساتھ لکھتے ہیں۔ اپنے علم کو وہ روشنائی کی شکل میں کاغذ پر لاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ان کا علم بہت ہی وسیع ہے۔ قرآن مجید یہاں ان کو یہ سمجھاتا ہے کہ اگر ان وسیع اور گہرے سمندروں کو روشنائی بنا دیا جائے اور اللہ کے علم کو لکھنا شروع کیا جائے ، تو یہ سمندر تو خشک ہوجائیں گے مگر اللہ کے علوم ختم نہیں ہو سکتے۔ ذرا آگے سوچو کہ اس سمندر جتنا اور سمندر لے آئے ہم ۔ دوسرا سمندر بھی ختم ہوگیا ، مگر اللہ کے کلمات و علوم ختم نہ ہوئے۔ اس محسوس تصور ، اور اس مجسم حرکت کے ذریعے انسانی محدود و تصور اور ناپختہ شعور اور قاصر قوت مدرکہ کے قریب حقیقت لائی گئی کہ اللہ کا بہت وسیع ہے۔ اگرچہ اللہ کے علم کی وسعت کی حقیقت اب بھی ہمارے اور اس کی حدود سے وراء ہے۔ یہ ہے وہ مقصد ، یعنی تقریب الی الافھام ، جس کے لئے قرآن کریم امثال لاتا ہے اور نہایت ہی گہرے اور ناقابل فہم معانی کو ایک مشاہدے اور تصویر کی شکل میں انسانی فہم و ادراک کے قریب لایا جاتا ہے۔ اس مثال میں بحر کو چونکہ انسان بہت ہی وسیع سمجھتا ہے اور اپنے علم کو بھی سمندر کی طرح بہت ہی وسیع سمجھتا ہے ، اس لئے قرآن بتاتا ہے کہ وسیع اور گہرا ہنے کے باوجود یہ سمندر بھی محدود ہے اور کلمات جو علم الٰہی کو ظاہر کرتے ہیں ، لامحدود ہیں۔ انسان ان کی انتہا تک نہیں پہنچ سکتا۔ انسان علم الٰہی کا نہ ادراک کرسکتا ہے ، نہ اسے قلم بند کرسکتا ہے اور نہ اس کی نقل کرسکتا ہے۔ انسان اپنے انفس و آفاق کی دنیا میں جو معمولی سی پیش رفت کرلیتا ہے ، وہ اس پر بھی اترانا شروع کردیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید اسے بہت بڑی علمی فتح حاصل ہوگئی ہے۔ بعض کو تو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ وہ سب کچھ جان گئے ہیں یا جلد ہی سب کچھ جان لیں گے۔ لیکن عالم مجہول انسان کے سامنے ایسے آفاق رکھتا ہے جن کو سر کرنا اور جن تک انسان کا پہنچ جانا نہایت ہی دور کی بات ہے۔ انسان جب بھی اپنے حقیقی علم کا جائزہ لے گا کہ وہ سمجھے گا کہ وہ تو ابھی تک ساحل ہی پر کھڑا ہے۔ انسان آج تک اللہ کے جن علوم کو دائرہ علم اور دائرہ تحریر میں لاسکا ہے وہ علم الٰہی کا ایک نہایت ہی محدود اور قلیل حصہ ہیں کیونکہ محدود اور لامحدود کے درمیان ہم کوئی نسبت قائم نہیں کرس کتے اور نہ ان کے درمیان کوئی نسبت ہے۔ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔ غرض انسان جس قدر علوم چاہے سیکھے اور اس کرئہ ارض کے بارے جو انکشافات چاہے ، کرے۔ لیکن اسے چاہئے کہ غرور علمی کو ذرا تھوک دے ۔ اس کے علم کی انتہا اگر یہ ہو کہ ” سمندر روشنائی بن کر خشک ہوجائے تو بھی علم الٰہی کی تحریر و تشدید ختم نہ ہوگی اگرچہ اس جیسا کوئی اور سمندر بھی لے آیا جائے ، کلمات الہیہ کا اختتام نہ ہو سکے گا۔ علم انسانی کی محدود یت کو ثابت کرنے کے لئے آپ انسانی شعور کی تاروں کو تیسری مرتبہ چھیڑا جاتا ہے۔ یہاں انسان کے مرتبہ و کمال کی تصویر کشی کی جاتی ہے اور رسالت آخیرہ کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے کہ نبی آخری الزمان کا علم بھی ذات باری کی لامحدود علم کے مقابلے میں بہت ہی محدود ہے۔ انسانی فکر و نظر اس کے لامحدود علم کے مقابلے میں قاصر ہی رہے گا۔
Top