Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 80
وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاۚ
وَاَمَّا : اور رہا الْغُلٰمُ : لڑکا فَكَانَ : تو تھے اَبَوٰهُ : اس کے ماں باپ مُؤْمِنَيْنِ : دونوں مومن فَخَشِيْنَآ : سو ہمیں اندیشہ ہوا اَنْ يُّرْهِقَهُمَا : کہ انہی پھنسا دے طُغْيَانًا : سرکشی میں وَّكُفْرًا : اور کفر میں
رہا وہ لڑکا ، تو اس کے والدین مومن تھے ، ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا۔
یہ لڑنا بظاہر تو قتل کے مستحق نہ تھا۔ نہ واجب القتل تھا ، لیکن مستقبل میں وہ بہت ہی خطرناک بن رہا تھا۔ سخت کافر اور حد سے تجاوز کرنے والا ہو رہا تھا۔ اس کے نفس کے اندر ان برائیوں کے بیج موجود اور بعد میں ظاہر ہونے والے تھے۔ اگر یہ زندہ رہتا تو اپنے کفر اور سرکشی کی وجہ سے والدین کی نافرمانی کرتا اور یہ والدین اس کی محبت کی وجہ سے اس کی راہ پر چلتے۔ اس لئے اللہ نے اس بندئہ صالح کو حکم دیا کہ اس لڑکے کو قتل کر دے اور اللہ اس کے والدین کو اس کے بدلے نہایت ہی صالح اولاد دے دے گا جو والدین کے ساتھ زیادہ حسن سلوک کرنے والی ہوگی۔ اگر ان امور کو انسان کے ظاہری علم ہی پر چھوڑ دیا جاتا تو انسان اس لڑکے کے بارے میں ظاہری فیصلہ ہی کرتا اور اس لڑکے کو قانوناً کچھ بھی نہ کہا جاسکتا تھا۔ کیونکہ اس نے شریعت کے مطابق ایسا کوئی جرم نہ کیا تھا کہ اسے قتل کردیا جاتا۔ نیز اللہ کے سوا اگر کوئی غیب بھی جانتا ہو تو بھی کسی فرد کو کوئی اس طرح قتل نہیں کرسکتا۔ کوئی جج بھی اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرسکتا۔ فیصلہ قانون کے مطابق ہی ہوگا۔ لیکن یہاں عبد صالح نے فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق کیا اور یہ حکم مستقبل کے اعمال کے ساتھ وابستہ علم الٰہی کی وجہ سے کیا گیا۔
Top