Fi-Zilal-al-Quran - Maryam : 23
فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ١ۚ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
فَاَجَآءَهَا : پھر اسے لے آیا الْمَخَاضُ : دردِ زہ اِلٰى : طرف جِذْعِ : جڑ النَّخْلَةِ : کھجور کا درخت قَالَتْ : وہ بولی يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش میں مِتُّ : مرچکی ہوتی قَبْلَ ھٰذَا : اس سے قبل وَكُنْتُ : اور میں ہوجاتی نَسْيًا مَّنْسِيًّا : بھولی بسری
پھر زچگی کی تکلیف نے اسے ایک کھجور کے درخت کے نیچے پہنا دیا۔ وہ کہنے لگی ” کاش میں اس سے پہلے ہی مر جاتی ہے اور میرا نام و نشان نہ رہتا۔
یلیتنی مت قبل ھذا و کنت نسیا منسیاً (91 : 32) ” کاش میں اس سے پہلے ہی مر جاتی اور میرا نام و نشان ہی نہ رہتا۔ “ قرآن نے اس بات کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے گویا ہم اس کے چہرے کے خدو خال دیکھ رہے ہیں ، اس کے دلی اضطراب کو گویا ہم محسوس کرسکتا ہے۔ رنج و الم جو ان کو ہے ہر شخص اسے حقیقی طور پر محسوس کرتا ہے۔ ایسے مواقع یہ تمنا جائز ہے کہ اس کا نام و نشان مٹ جائے۔ منسیاً وہ کپڑا جسے حیض کے خون کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے بعد پھینک دیا جاتا ہے اور بھلا دیا جاتا ہے (ایسی جگہ پھینک دیا جاتا ہے کہ کوئی دیکھ بھی نہ سکے۔ ) اس شدت رنج و الم میں اچانک ایک عظیم سرپرائز دیا جاتا ہے۔
Top