Fi-Zilal-al-Quran - Maryam : 47
قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ١ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا
قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكَ : تجھ پر سَاَسْتَغْفِرُ : میں ابھی بخشش مانگوں گا لَكَ : تیرے لیے رَبِّيْ : اپنا رب اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِيْ : مجھ پر حَفِيًّا : مہربان
ابراہیم نے کہا ” سلام ہے آپ پر۔ میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کردے ‘ میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔
تم پر خدا کی سلامتی ہو ‘ نہ جھگڑا ہے ‘ نہ تردید ہے ‘ نہ دھمکی اور نہ ارادہ قتل کے جواب میں رد عمل ہے۔ بلکہ جواب یہ ہے کہ میں تمہارے بارے میں اپنے رب سے دعا کرتا رہوں گا کہ وہ آپ کو اس گمراہی سے اور شیطان کی دوستی سے کسی طرح نکال لائے۔ آپ پر رحم فرمائے اور آپ کو ہدایت نصیب کرے۔ میرے ساتھ میرے رب کا معاملہ یہ ہے کہ میں نے جب بھی دعا کی ہے میرے رب نے مجھے نامراد نہیں لوٹایا اور اگر میرا آپ کے پاس رہنا اور آپ کی نظروں کے سامنے پھرنا آپ کو پسند نہیں تو اے ابا جان ‘ میں آپ کو اور آپ کی قوم کو چھوڑدوں گا۔ آپ جانیں اور آپ کے معبود جانیں۔ میں تو اپنے رب وحدہ ہی کی بندگی کروں گا اور مجھے یقین ہے کہ میرا رب میری اس دعا کو مسترد نہیں کرے گا۔ حضرت ابراہیم جس بات کی امید کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ میرا رب مجھے شقی نہیں بنائے گا۔ ان کی یہ بات بھی نہایت کسر نفی ‘ ادب اور تقویٰ پر مبنی ہے۔ وہ اپنے آپ کو بڑا نہیں سمجھتے۔ صرف یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اللہ مجھے شقاوت اور بد بختی سے بچائے گا۔ یوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ ‘ اپنی قوم ‘ اپنے اہل اور رشتہ داروں اور ان کی بت پرستیوں کو چھوڑ کر علاقے کو خیر باد کہہ دیا۔ اللہ نے بھی انہیں تنہا نہ چھوڑا۔ اللہ نے بھی انہیں اولاد دی اور مقام عالی عطا کیا۔
Top