Al-Qurtubi - An-Najm : 5
عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰىۙ
عَلَّمَهٗ : سکھایا اس کو شَدِيْدُ الْقُوٰى : زبردست قوت والے نے
ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا
علمہ شدید القوی۔ حضرت حسن بصری کے علاوہ تمام مفسرین کی رائے یہ ہے کہ شدید القویٰ سے مراد حضرت جبریل امین ہیں (3) کیونکہ ان کی رائے ہے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے (4) ۔ حضرت حسن بصری کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے فرمان ذومرۃ پر کلام کمل ہوجائے گی۔ اس کا معنی ہے قوت والا اور قوت اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے اس کا اصل معنی اس کو مضبوطی سے بٹنا ہے گویا اسے لگاتار بٹا گیا یہاں تک کہ اس کا کھولنا مشکل ہوگیا۔ پھر فرمایا فاستوی اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یعنی عرش پر متمکن ہوا، یہ معنی حضرت حسن بصری سے مروی ہے۔ ربیع بن انس اور فراء نے کہا ، فاستوی۔ وھو بالافق اعلیٰ ۔ یعنی حضرت جبریل اور حضرت محمد ﷺ متمکن ہوئے۔ یہ اس صورت کے بعد ہوگا جب ضمیر مرفوع پر ھو سے عطف کیا جائے اکثر عرب جب اس قسم کے عطف کا ارادہ کرتے ہیں تو معطوف علیہ کی ضمیر کو ظاہر کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : استوی ھود فلان وہ بہت کم ہی یہ کہتے ہیں استوی وفلان : فراء نے یہ شعر پڑھا : الم تر ان النبع یصلب عودہ ولایستوی والخروع المتصفف (1) کیا تو نہیں دیکھتا کہ نبع کے درخت کی لکڑی سخت ہوتی ہے وہ ٹوٹی ہوئی خروع (جڑی بوٹی) برابر نہیں ہوتی۔ اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ء اذا کنا ترباً وابآء نا (النمل : 67) معنی ہے کیا اس وقت جب ہم اور ہمارے آباء مٹی ہوجائیں گے۔ آیت کا معنی ہے حضرت جبریل امین اور حضرت محمد ﷺ معراج کی رات افق اعلی میں متمکن ہوئے۔ اس نے ضمیر پر عطف کو جائز قرار دیا ہے تاکہ تکرار نہ ہو۔ زجاج نے اس کا انکار کیا ہے مگر ضرورت شعری میں جائز کہا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے جبریل امین افق اعلیٰ پر متمکن ہوئے۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔ جب استواء کرنے والے حضرت جبریل امین ہیں تو ذومرۃ کا معنی ہوگا وہ اچھی گفتگو کرنے اولے ہیں (2) یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ قتادہ نے کہا : اچھی طویل صورت والے ہیں (3) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے صحیح جسم والے روز آفات سے محفوظ ہیں، اسی معنی میں نبی کریم ﷺ کا ئفرمان ہے : لاتحل الصدقۃ لغنتی ولالذی مرۃ سوی۔ (4) غنی اور صحیح اعضاء والے قوی آدمی کے لئے صدقہ لینا حلال نہیں۔ امراء القیس نے کہا : کنت فیھم ابداً ذاحیلۃ محکم المزۃ مامون العقد میں ان میں ہمیشہ تدبیر والا رہا ہوں مضبوط اعضاء والا اور محفوظ وعدون والا۔ یہ قول کیا گیا ہے : ذومرۃ قوت والا۔ کلبی نے کہا، حضرت جبریل امین کی قوت کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے قول لوط کے شہر کو پست ترین زمین سے اکھیڑا اسے اپنے ایک پر، پر اٹھایا یہاں تک آٰسمان تک لے گئے یہاں تک کہ آسمان والوں نے ان کے کتوں کی آواز اور مرغوں کی چیخ کو سنا پھر انہیں الٹا دیا، ان کی قوت کا مظہر یہ بھی ہے کہ انہوں نے ابلیس کو ارض مقدسہ کی ایک گھاٹی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے گفتگو کرتے ہوئے دیکھا اپنے ایک پر سے اسے ہوا دی اور اسے ہند کے دور دراز پہاڑ میں پھینک دیا، ان کی قوت کا انداز یہ بھی ہے قوم ثمود میں چیخ ماری جن کی تعداد بہت زیادہ تھی تو صبح کے قوت وہ سب اوندے منہ گرے، مرے، پڑے تھے، ان کی قوت کا اظہار اس طرح بھی ہوا کہ وہ انبیاء پر آسمان سے اترتے پھر اس کی طرف چڑھتے اور پلک جھپکنے کی دیر نہ لگتی۔ قطرب نے کا کہا : عرب ہر ایسے شخص کے بارے میں ذومرۃ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو عظیم رائے اور اعلیٰ عقل رکھتا ہو۔ شاعر نے کہا : قد کنت قبل لقاکم ذامرۃ عندی لکل مغاصم میزانہ تمہاری ملاقات سے پہلے میں دانشمند تھا میرے پاس ہر جھگڑا کرنے والے کے لئے ترازو تھا۔ اس کی عظیم رائے اور اعلیٰ دانش سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں کی طرف وحی پر انہیں امین بنایا۔ جوہری نے کہا : مرۃ چار طبائع میں سے ایک ہے۔ مرہ کا معنی قوت اور عقل کی پختگی ہے رجل مریر ایسا آدمی جو قوی ہو اور دانشمند ہو۔ شاعر نے کہا : تری الرجل النحیف فتزدریہ وحشو ثیابہ اسد مریر تو کمزور آدمی کو دیکھتا ہے تو تو اسے بےعزت کردیتا ہے جب کہ اس کے کپڑوں کے اندر قوی شیر ہے۔ مجاہد اور قتادہ نے کہا : ذومرۃ کا معنی ہے قوت والا (1) ، اس معنی میں خفاف بن ندبہ کا قول ہے : انی امرو ذومرۃ فاستبقی (2) میں ایسا آدمی ہوں جو بڑا قوی ہے تو مجھے باقی رکھ۔ قوت اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور مخلوق کی صفات میں سے بھی ہے۔ فاستوی اس کا فاعل حضتر جبریل امین ہیں جس طرح ہم نے بیان کیا ہے یعنی آسمان وہ مکان کی طرف بلند ہوئے بعد اس کے کہ انہوں نے حضرت محمد ﷺ کو علم پہنچایا، یہ سعید بن مسیب اور ابن جبیر کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے وہ اس صورت میں کھڑے ہوئے جس صورت پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیدا کیا، کیونکہ وہ نبی کریم کے پاس انسانوں کی صورت میں آتے تھے جس طرح انبیاء کے پاس انسانی صورت میں آتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے سوال کیا کہ وہ اپنی وہ صورت دکھائیں جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے تو حضرت جبریل امین نے دو دفعہ آپ کو اپنی صورت دکھائی ایک دفعہ زمین میں اور ایک دفعہ آسمان میں۔ جاں تک زمین کا تعلق ہے وہ افق اعلیٰ میں صورت دکھائی۔ نبی کریم ﷺ غار حرا میں تھے جبرئیل امین نے مشرق سے طلوع کیا تو مغرب تک زمین کو بھر دیا۔ نبیک ریم ﷺ بےہوش ہو کر زمین پر آ رہے تو جبرئیل امین انسانوں کی صورت میں آپ کے پاس آئے انہیں سینہ سے لگایا اور آپ ﷺ کے چہرہ سے غبار صاف کرنے لگے۔ جب نبی کریم ﷺ کو افاقہ ہوا، فرمایا :” اے جبرئیل امین ! میں یہ گمان نہیں کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اس صورت پر پیدا کیا ہے۔ “ (3) حضرت جبرئیل امین نے کہا، اے محمد ! ﷺ میں نے اپن پروں میں سے صرف دو پر پھیلائے ہیں میرے چھ سو پر ہیں ہر ایک پر کی وسعت مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔ فرمایا :” یہ تو بہت بڑی چیز ہے۔ “ حضرت جرئیل امین نے کہا : اللہ تعالیٰ نے جو مخلوق پیدا کی ہے میری حیثیت اس کے مقابلہ میں بڑی چھوٹی سی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسرافیل کو پیدا فرمایا ہے اس کے چھ سو پر ہیں اس کا ہر ایک پر اتنا بڑا ہے جتنے بڑے میرے سب پر ہیں۔ بعض اوقات وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے اتنا کمزور ہوجاتا ہے کہ وہ چھوٹی چڑیا کے برابر ہوجاتا ہے، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ولقد راہ بالافق المبین۔ (الکتویر) جہاں تک آسمان میں دیکھنے کا تعلق ہے تو آپ نے سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا اس صورت پر حضرت محمد ﷺ کے علاوہ کسی نبی نے نہیں دیکھا۔ ایک تیسرا قول بھی ہے کہ قرآن آپ کے سینہ میں قرار پکڑ گیا۔ اس تعبیر کی دو صورتیں ہیں (1) حضرت جبرئیل امین کے سینہ میں وہ قرار پکڑ گیا جب وہ اسے لے کر اترے (2) حضرت محمد ﷺ کے سینہ میں ثبت ہوگیا جب یہ آپ ﷺ پر نازل ہوا۔ ایک چوتھا قول بھی ہے : معنی ہے حضرت محمد ﷺ نے اعتدال کی راہ اپنائی۔ اس تعبیر کی دو صورتیں ہیں (1) اپنی قوت میں معتدل ہوئے (2) اپنی رسالت میں کامل ہوئے، ماوردی نے ان دونوں کا ذکر کیا ہے۔ (1) میں کہتا ہوں : پہلی صورت میں کلام کی تکمیل ذومرۃ پر ہوگی اور دوسری صورت میں شدیدا لقوی پر تکمیل ہوگی۔ ایک پانچواں قول بھی ہے : اس کا معنی ہے بلند ہونا۔ اس تعبیر کی صورت میں دو وجہیں ہیں۔ (1) جبرئیل امین اپنے مکان کی طرف بلند ہوئے جس طرح ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔ (2) نبی کریم ﷺ معراج کے ساتھ بلند ہوئے۔ چھٹا قول ہے : اللہ تعالیٰ عرش پر متمکن ہوا، یہ حضرت حسن بصری کے قول کے مطابق ہے۔ سورة اعراف میں یہ بحث گزر چکی ہے۔
Top