Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 29
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ۗ ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠ ۧ
ھُوَ
: وہی ہے
الَّذِىْ
: جس نے
خَلَقَ
: پیدا کیا
لَكُمْ
: واسطے تمہارے
مَّا
: جو کچھ ہے
فِى الْاَرْضِ
: زمین میں
جَمِيْعًا
: سارے کا سارا / سب کچھ
ثُمَّ
: پھر
اسْتَوٰٓى
: وہ متوجہ ہوا / ارادہ کیا
اِلَى
: طرف
السَّمَآءِ
: آسمان کے
فَسَوّٰىھُنَّ
: پس برابر کردیا ان کو / درست بنایا ان کو / ہموار کیا ان کو
سَبْعَ
: سات
سَمٰوٰتٍ
: آسمانوں کو
وَ
: اور
ھُوَ
: وہ
بِكُلِّ
: ساتھ ہر
شَىْءٍ
: چیز کے
عَلِيْمٌ
: خوب علم والا ہے
وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں ۔ پھر اوپر کی طرف متوجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ “
اس پہلی چمک کے متصلاً بعد روشنی کی ایک دوسری کرن آتی ہے جو پہلی کے لئے تکمیل کا درجہ رکھتی ہے ۔ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں ، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔ “ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے بارے میں مفسرین اور متکلمین نے طویل بحثیں کی ہیں ، قبلیت ، وبعدیت اور استوا اور تسویہ اور دوسری کلامی بحثیں یہاں کی جاتی ہیں ۔ لیکن یہ حضرات اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ قبل وبعد ، محض انسانی اصطلاحات ہیں ، اللہ تعالیٰ کے لئے ان کا کوئی مفہوم نہیں ہے ۔ یہ حضرات اس بات کو بھی سامنے نہیں رکھتے کہ استوا اور تسویہ انسانی لغی اصطلاحات ہیں جو لامحدود ذات کو انسان کے محدود تصور کے قریب لے آتی ہیں ۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔ قرآن کی ایسی تعبیروں پر علمائے اسلام نے جو طویل بحثیں کیں ، وہ اس مصیبت اور آفت کا نتیجہ تھیں جو یونانی فلسفہ اور یہود ونصاریٰ کی لاہوتی بحثوں کی صورت میں امت مسلمہ پر نازل ہوئی۔ یہ بحثیں تب پیداہوئیں جب اس فلسفہ اور ان لاہوتی بحثوں نے عربوں کی سادہ ذہنیت اور مسلمانوں کے پاکیزہ خیالات کو گدلا کردیا تھا۔ اب ہمارے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ ہم بھی اس مصیبت میں خواہ مخواہ گرفتار ہوجائیں اور منطقی اور کلامی جدلیات میں قرآن کریم کے حسن و جمال کو گم کردیں ۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ان مصنوعی تعبیرات واصطلاحات سے آزاد ہوکر یہ دیکھیں کہ پوری کائنات کو انسان کے لئے پیدا کرنے کی حقیقت کیا ہے ؟ اس حقیقت سے کس چیز کا اظہارہورہا ہے ۔ اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے وجود انسانی کا کیا مقصد قرار پاتا ہے ۔ اس زمین پر انسان کے کیا فرائض ہیں ۔ اللہ کے ہاں انسان کی قدر و قیمت کیا ہے ۔ نیز اسلامی تصورحیات اور تصور کائنات میں انسان کی کیا قدر و قیمت ہے اور اسلامی نظام زندگی میں انسان کا مقام کیا ہے ؟ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا ” اللہ تو وہی ہے جس نے تمہاری زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ “ یہاں لفظ لکم یعنی ” تمہارے لئے “ اپنے گہری معنویت لئے ہوئے ہے ۔ یہ اس گہری حقیقت کا اظہار کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس انسان کو ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ۔ اس کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ زمین پر اللہ کانائب اور خلیفہ ہو ۔ زمین کے اندر جو کچھ ہو وہ اس کی ملکیت ہو اور وہ اس میں مؤثر اور متصرف ہو ۔ کیونکہ اللہ کی اس طویل و عریض کائنات میں وہی اعلیٰ مخلوق ہے ۔ وہ اس وسیع میراث کا پہلا وارث ہے ۔ لہٰذا اس زمین کے حالات اور اس کے انقلابات کے اندر اس کا کردار بھی اول درجے کا ہے ۔ وہ جس طرح اس زمین کا سردار ہے اسی طرح اس کے آلات کا بھی سردار ہے۔ وہ آلات پیداوار کے ہاتھ میں مقید اور بےبس نہیں ہے ، جس طرح آج کی مادی دنیا میں انسان ان آلات کے ہاتھوں بےبس ہوچکا ہے ۔ نیز وہ ان تبدیلیوں اور تغیرات کا بھی تابع نہیں ہے جو انسان اور انسان کے باہم روابط میں ان آلات کی پیدا کردہ ہیں جیسا کہ آج کل کے مادہ پرستانہ تصور حیات میں انسان اور اس کے کردار کو حقیر تر سمجھا جاتا ہے اور اسے بےجان اور بےشعور آلات کا غلام بنادیا جاتا ہے ۔ حالانکہ وہ ان سے برتر اور ان کا سردار ہے ۔ قرآن کی رو سے ساری اقدار میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے کہ اسے انسانیت کی قدر و قیمت سے برتری حاصل ہو۔ انسان تو اس کے سامنے ذلیل و خوار ہو اور وہ اس کے مقابلے میں بلند وبالا ہو۔ وہ تمام مقاصد جن کے نتیجے میں انسان کی انسانیت کی تذلیل ہو ۔ وہ انسان کے مقصد وجود ہی کے خلاف ہیں اور اس لئے معیوب ہیں ، چاہے ان کے نتیجے میں بیشمار مادی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ چناچہ اسلامی تصور حیات کے مطابق انسان کی شرافت اور انسان کی برتری وہ پہلی قدر ہے جو سب اقدار سے اولیت رکھتی ہے ۔ تمام مادی قدریں اس کے تابع ہیں اور ان کا درجہ بعد میں آتا ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ اپنی جس نعمت کا ذکر فرما رہے ہیں اور اس کے کفران پر نکیر ہورہی ہے وہ صرف یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین کی تمام نعمتوں سے نوازا بلکہ یہ بھی ہے کہ انسان ان تمام چیزوں کا مالک اور متصرف بھی ہے اور یہ کہ انسان کی قدر و قیمت ان تمام مادی اقدار سے برتر ہے جن پر یہ زمین حاوی ہے ۔ جس انعام کا یہاں ذکر ہے ملکیت کائنات اور زمین کے ذخائر سے انتفاع سے بھی آگے ، وہ انسانی شرافت اور انسان کی برتری کی نعمت ہے۔ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ” پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے۔ “ یہاں اس بات کی ضرورت نہیں کہ استواء الی السماء کی حقیقت وماہیت کیا ہے ؟ ہمارے لئے یہ جاننا کافی ہے کہ آسمان کی طرف متوجہ ہونے سے مراد کیا ہے ؟ استوا الی السماء قدرت الٰہی کے اظہار کا ایک پیرایہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تخلیق وتکوین کا ارادہ فرمایا۔ اسی طرح سات آسمانوں کی حقیقت اور ان کی شکل اور حدود اربعہ کے تعین کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ آیت کے اس اصولی اور عام مفہوم کا سمجھ لینا ہی کافی ہے۔ کفار چونکہ کائنات کے خالق ونگہبان کے منکر تھے ، اس لئے یہاں یہ بیان کیا گیا کہ اللہ ہی زمین و آسمان کا خالق ہے ۔ اس نے انسانوں کے لئے زمین کی تمام مخلوق کو مسخر کرلیا ہے اور آسمانوں کے اندر اس طرح نظم اور ربط پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے اس کرہ ارض پر زندگی کا باقی رہنا آسان اور سہل ہوگیا ہے ۔ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ “ وہی سب کا خالق اور سب کا مدبر ہے ، لہٰذا ظاہر ہے کہ وہ ہر چیز کا علم بھی رکھتا ہے ۔ پوری کائنات کی تدبیر کے ساتھ ساتھ پوری کائنات کا علم بھی رکھنا ایک ایسی حقیقت ہے جو اس کائنات کے خالق وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کے مہمیز کا کام دیتی ہے ۔ اس سے انسان اس وحدہ لاشریک مدبر کی بندگی کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ اور بطور شکر نعمت اپنے رازق اور منعم کی بندگی بجالاتا ہے ۔ یہاں آکر سورت کی ابتدائی بحثیں ختم ہوجاتی ہیں ۔ اس پوری بحث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لوگ ایمان لے آئیں اور مومنین ومتقین کے اختیار کردہ راستے کو اپنالیں ۔ درس 3 ایک نظر میں قرآن کریم میں مختلف مواقع پر قصص کا بیان ہوتا ہے۔ موقع ومحل خود بتا دیتا ہے کہ یہاں اس قصے کے بیان سے غرض وغایت کیا ہے ‘ سلسلہ کلام کی کون سی کڑی سے تعرض کیا جارہا ہے ؟ کس شکل و صورت میں قصہ پیش ہورہا ہے اور وہ طرز ادا کیا ہے جس میں وہ قصہ بیان ہورہا ہے ........ اس اسلوب کلام سے روحانی ‘ فکری اور فنی فضا میں ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایک تو موضوع کلام کا حق ادا ہوجاتا ہے دوسری طرف بیان قصہ کی نفسیاتی اغراض بھی پوری ہوجاتی ہیں اور قصہ کو لانے سے جو اثرات پیدا کرنے مطلوب ہوتے ہیں وہ ہوجاتے ہین۔ بعض لوگوں یہ وہم ہوا ہے کہ قرآنی قصص میں تکرار ہے کیونکہ ایک ہی قصہ مختلف شکلوں میں کئی جگہ دہرایا گیا ہے ۔ لیکن گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ جن قصوں کا کوئی ایک حصہ یا پورے قصے کو کسی جگہ دہرایا گیا ہے تو وہاں وہ اپنی سابقہ شکل و صورت میں ہی نہیں بیان ہوا بلکہ دونوں مقامات پر قصے کی مقدار اور سیاق کلام اور طرز ادا بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ جہاں بھی قصے کا کوئی حصہ دہرایا جاتا ہے وہاں ایک نئی بات کہنی مطلوب ہوتی ہے لہٰذا فی الحقیقت قرآن کریم میں بیان قصص میں کوئی تکرار نہیں ہے ۔ بعض کج فہم لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے بیان کردہ بعض واقعات تخلیقی ہیں یا ان کے بیان میں تصرف کیا گیا ہے یعنی محض مقاصد اور تحسین کلام کے لئے یہ قصے لائے گئے ہیں ۔ لیکن جو شخص بھی فطرت سلیم رکھتا ہو اور کھلی آنکھوں سے قرآن کا مطالعہ کرتا ہو وہ اس حقیقت کو بسہولت پالیتا ہے کہ ہر جگہ موضوع بحث کی مناسبت سے کوئی قصہ یا اس کا حصہ لایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انداز بیان اور طرز ادا بھی موقع ومحل کی مناسبت سے بالکل جدا ہوتی ہے ۔ قرآن کریم ایک دعوتی کتاب ہے ۔ ایک نظام زندگی ہے اور ایک نظام زندگی کا دستور بھی ہے ۔ وہ تسکین ذوق کی حکایت یا تاریخ کی کتاب نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت دین کے دوران منتخب قصے بھی بیان کئے جاتے ہیں ۔ قصوں کے اسلوب بیان اور ان کے مقدار کا فیصلہ سیاق کلام اور مناسبت حال کے لحاظ سے کیا جاتا ہے ۔ بیان قصص میں صرف حسن ادا کی بہترین خوبیوں ہی کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ زور کلام کی خاطر کہیں بھی واقعات میں اضافہ نہیں کیا گیا ہاں ہر جگہ واقعات کو بالکل ایک انوکھے انداز میں پیش کیا گیا ہے اور اثر انگیزی کے لئے صرف سچائی کی قوت اور حسن ادا پر ہی اعتماد کیا گیا ہے۔ قرآنی قصے درحقیقت قافلہ ایمان کے طویل اور مسلسل سفر کی داستان اور روئیداد ہوتے ہیں اور قرآن میں دعوت دین کی طویل کہانی کو سمودیا گیا ہے جو نسلاً بعد نسل لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی رہی اور لوگ اسے قبول کرتے رہے ۔ یہ قصے ایک طرف تو انسانوں کی ان برگزیدہ ہستیوں کی کیفیت ایمان کو پیش کرتے ہیں جنہیں اس کام کے لئے منتخب کیا گیا اور دوسری طرف یہ بتاتے ہیں کہ ان برگزیدہ ہستیوں اور رب العالمین کے درمیان تعلق کی نواعیت کیا تھی ؟ ان قصوں کے ذریعہ ہم دیکھتے ہیں کہ یوں یہ قافلہ اہل کرم اس طویل شاہراہ پر چلاآتا ہے ۔ دل کی روشنی نور اور طہارت سے بھرتے ہوئے وہ دل کے اندر اس قیمتی متاع ‘ ایمان اور اس کائنات میں اس کی اہمیت کا شعور بیدار کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وہ ایمانی تصور حیات کو تمام دوسرے عارضی تصورات زندگی سے ممیز کرتے ہوئے اسے انسان کے حس و شعور میں بٹھاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید جو کتاب دعوت ہے اس کا ایک بڑاحصہ ایسے ہی قصص پر مشتمل ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ ان تصریحات کی روشنی میں قصہ آدم کا مطالعہ کریں جیسا کہ سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے قافلہ حیات انسانی کی زندگی سے بحث کی گئی ہے بلکہ اس پوری کائنات کے وجود سے بحث کی گئی ۔ اس کے بعد انسان پر اپنی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کرہ ارض کا ذکر ہوا اور بتایا گیا کہ اس زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ نے انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے ۔ اس ضمن میں اس زمین پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو منصب خلافت عطاکئے جانے کا قصہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ زمین کے اختیارات حضرت آدم (علیہ السلام) کے سپرد کردیتے ہیں لیکن اختیارات کی یہ سپردگی مشروط ہے اور حضرت آدم کے ساتھ ایک معاہدہ ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو علم ومعرفت کی وہ ضروری مقدار بھی عطا کرتے ہیں جو بار خلافت اٹھانے کے لئے ضروری تھی نیز بعد میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے منصب خلافت کا معاہدہ بنی اسرائیل سے کیا۔ اس لئے قصہ آدم اس کے لئے تمہید کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد بنی اسرائیل کو اس خلافت سے معزول کردیا اور قلمدان خلافت اس امت مسلمہ کے حوالے کردی جاتی ہے جو اللہ کے عہد کو اچھی طرح پورا کرنے والی ہے ۔ اس طرح یہ قصہ سیاق وسباق سے پوری طرح ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ لمحی بھر آغاز انسانیت کے احوال پڑھیں اور دیکھیں کہ ان کے پس منظر میں کس قدر قیمتی ہدایات پوشیدہ ہیں ۔ پردہ اٹھتا ہے اور سب سے پہلے ہم عالم بالا کے اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں ۔ بلندیوں کی چمک اور روشنیوں کے نور بصیرت کے ذریعہ ہم انسانیت کے آغاز کی کہانی کو یوں اسٹیج ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
Top