Fi-Zilal-al-Quran - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
” رحمٰن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام
درس نمبر 160 ایک نظر میں اس سورت کے اس درس چہارم میں عباد الرحمٰن کو ان کے امتیازی اوصاف کے ساتھ دکھایا گیا ہے کہ ان کے کردار کے بنیادی فیچر کیا ہوتے ہیں۔ گو وہ انسانیت کا خلاصہ ہیں اور زمین کا نمک ہیں اور تمام قافلہ رسل کی کشمکش حق و باطل اور انسانی تاریخ کا منتہائے مقصود ہیں۔ گویا وہ باغ انسانیت کا پکا ہوا پھل ہیں۔ کفر ، ناشکری اور اعراض و نافرمانی کے خلاف اہل ہدایت کے طویل جدوجہد کا وہ حاصل ہیں۔ درس سابق کے آخر میں اہل کفر نے رحمٰن کو پہچاننے سے انکار کیا تھا۔ تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کیا تھا تو یہاں بتایا جاتا ہے کہ تم تو رحمٰن کو نہیں مانتے مگر رحمٰن کے بندوں کو مت دیکھ رہے ہو۔ یہ ہیں وہ لوگ جو رحمٰن کو پہچانتے ہیں۔ یہ ہیں اس ٹائٹل کے مستحق کہ ان کو رحمٰن کا بندہ کہا جاسکے۔ ملاحظہ کرو ذرا ان کی فات ، دیکھو ان کا کردار ، ان کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے ، اسے پھڑو۔ یہ زندہ مثال کی شکل میں عملاً تمہارے سامنے موجود ہیں۔ ایسی جماعت اور ایسی ہی سوسائٹی ، اسلام وجود میں لانا چاہتا ہے۔ ایسے ہی نفوس اسلام اپنے منہاج تربیت کے ذریعے پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہی لوگ ہیں جن کو اس کرہ ارض پر اللہ تعالیٰ اہمیت دیتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ کی عنایات ہوتی ہیں۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو اللہ کو تمام انسانوں کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ یہ تو ایسے ہی لوگوں کی دعائوں کی برکت ہے جس سے یہ کائنات قائم ہے۔ وعباد الرحمن ……سلماً (63) ۔ جن کی چال میں کوئی تکلف اور تصنع نہیں ہوتا۔ نہ کوئی تکبر ، نہ کوئی غرور ہوتا ہے اور نہ ہی سستی اور ڈھیلا پن ہوتا ہے۔ یعنی ان کے چال پروقار ہوتی ہے۔ یہاں چال سے مراد ان کی مجموعی شخصیت ہے ، جس میں انسان کا شعور اور اس کی شخصیت معتدل کا اعتدال شامل ہے ، جس کی وجہ سے انسان کی تمام صفات اور اس کے تمام افعال کے اندر ، اعتدال پیدا ہوجاتا ہے اور ان کے معتدل صفات کی وجہ سے پھر اس شخص کی روش میں بھی ایک اعتدال اور وقار آجاتا ہے۔ یہ شخص مطمئن اور پروقار ہوتا ہے اور ہر قسم کے حلات میں اس کے اندر ایک ٹھہرائو وتا ہے۔ یمشون علی الارض ہونا (25 : 63) کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ وہ زمین پر مردوں کی طرح سر جھکائے ہوئے چلتے ہیں۔ اعضائے جسم کو لٹکائے ہوئے اس طرح چلتے ہیں کہ بس ابھی یہ صاحب زمین پر گرنے والے ہیں۔ بعض لوگ اظہار تقویٰ کی خاطر زمین پر اس طرح چلتے ہیں۔ احادیث میں للہ ﷺ کی چال کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب چلتے تو لڑکھڑا کر چلتے تھے۔ آپ تمام لوگوں سے تیز چلتے تھے۔ آپ کی چال بہت خوبصورت اور سکون کے ساتھ ہوتی ہوتی تھی۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں دیکھی۔ گویا سورج آپ کے چہرہ مبارک پر چلتا ہے اور میں نے کوئی شخص للہ سے تیز رفتار نہیں دیکھا۔ گویا آپ کے لئے زمین کو لپیٹ دیا جاتا تا۔ ہم تو ہر معاملے میں پریشان ہوتے تھے لیکن آپ کوئی پرواہ نہ کرتے تھے۔ حضرت عمر ابن الخطاب فرماتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ لڑکھڑا کر چلتے تھے۔ یوں نظر آتا تھا کہ شاید آپ کسی نشیبی جگہ پر اتر رہے ہیں۔ ایک بار انہوں نے کہا کہ آپ اس طرح چلتے تھے جس طرح کوئی شخص اترتا ہے اور چڑھنے والے کی چال بھی اسی رطح ہوتی ہے جس طرح اترنے والے کی چال ہوتی ہے اور اس قسم کی چال وہ لوگ چلتے ہیں جو اولوالعزم ، عالی ہمت اور بہادر ہوتے ہیں (زاد المعاد ، ابن القیم) یہ لوگ چونکہ سنجیدہ ، پروقار اور راست رد ہوتے ہیں اور ان کے پیش نظر چونکہ ہمیشہ بلند مقاصد ہوتے ہیں۔ اس لیء وہ احمقوں ، نادانوں او بیوقوفوں کی حماقتوں اور نادانیوں میں اپنے آپ کو نہیں الجھاتے۔ اس لئے وہ ایسے لوگوں کے ساتھ بحث و مباحثے اور بد کلامی میں حصہ نہیں لیتے۔ اگر کوئی ایسا موقعہ پیش آجائے تو و نہایت ہی خوبصورتی سے اپنے آپ کو چھڑاتے ہیں۔ واذا خاطبھم ……سلماً (25 : 63) ” اور جاہل ان کو منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ “ یہ بات وہ نہ کسی کمزوری کی وجہ سے اور نہ تکبر کی وجہ سے کرتے ہیں۔ نہ اس وجہ سے کہ وہ عاجز ہیں۔ بلکہ ایسی چیزوں سے اپنے آپ کو بلند رکھتے ہیں۔ وہ اپنے قیمتی اوقات کو ایسے کاموں میں صرف نہیں کرتے۔ جو شرفاء کے لائق نہیں ہیں۔ وہ فحش گوئی اور بدکلامی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے ایسا کرتے ہیں اور اپنے اوقات کو اچھے کاموں میں صرف کرتے ہیں۔ یہ تو تھا ان کا دن لوگوں کے ساتھ وہ اس طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ رہی ان کی رات تو اس میں وہ خدا کا خوف کرتے اور اللہ سے ڈرتے رہتے تھے۔ اللہ کی بڑائی کا شعور ان کو ہوتا تھا اور اللہ کے عذاب سے وہ ڈرتے تھے۔
Top