Fi-Zilal-al-Quran - Al-Furqaan : 68
وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو لَا يَدْعُوْنَ : نہیں پکارتے مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا اٰخَرَ : کوئی معبود وَلَا يَقْتُلُوْنَ : اور وہ قتل نہیں کرتے النَّفْسَ : جان الَّتِيْ حَرَّمَ : جسے حرام کیا اللّٰهُ : اللہ اِلَّا بالْحَقِّ : مگر جہاں حق ہو وَلَا يَزْنُوْنَ : اور وہ زنا نہیں کرتے وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے گا ذٰلِكَ : یہ يَلْقَ اَثَامًا : وہ دو چار ہوگا بڑی سزا
جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا
والذین ……الی اللہ متاباً (71) خدا کو وحدہ لاشریک جاننا اسلامی نظریہ حیات کی اساس ہے۔ عقیدہ توحید نہایت واضح ، سیدھا اور سادہ عقیدہ ہے۔ اور اس کے مقابلے میں جس قدر عقائد ہیں وہ پیچیدہ ، ٹیڑھے اور ناقابل فہم عقید ہیں۔ اسلامی نظریہ حیات پر جس طرح ایک صحیح نظام زندگی قائم ہوتا ہے اسی طرح دوسرے عقائد پر کوئی سیدھا اور صالح نظام زندگی قائم ہی نہیں ہو سکتا۔ کسی جاندار کو ناحق نہ قتل کرنا اور سوسائٹی کی اجتماعی زندگی کو پرسکون ، پرامن اور مطمئنبنانا اسلامی اور انسانی زندگی کا طرہامتیاز ہوتا ہے ، جبکہ قتل و غارت اور لوٹ مار جنگل کی زندگی کا خاصہ ہوتا ہے اور کوئی ایسی سوسائٹی جس میں ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہو اور لوٹ مار عام ہو ، اسے نہ انسانی سوسائٹی کہا جاسکتا ہے اور نہ ایسی سوسائٹی میں کوئی ترقیاتی کام ہو سکات ہے۔ اس لئے اسلام قتل نفس کو بہت بڑا جرم قرار دیتا ہے۔ اسی طرح اسلام زنا کو گھنائونا جرم قرار دیات ہے اور اسے جرم قرار دے کر ہی دو قسم کی زندگیوں کے راستے جدا کئے جاسکتے ہیں۔ ایک ایسی زندگی ہے جس میں ایک شخص اپنے آپ کو ایک حیوان جیسی غلیظ جنسی خواہش سے ذرا بلند کردیتا ہے اور وہ یہ یقین کرلیتا ہے کہ جنس آخر سے اس کے ماپ کا ایک اعلیٰ وارفع مقصد مقرر کیا گیا ہے۔ یہ محض لذت کوشی اور گری ہوئی غلیظ حیوانی زندگی کا ملاپ نہیں ہے ، جو ایک نر اور مادے کے درمیان ہوتا ہے اور جس کے اندر محض جسمانی تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ غرض یہ تین صفات وہ صفات ہیں جو ایک انسانی اور شریفانہ زندگی اور ایک عام حیوانی اور گری ہوئی وحشیانہ زندگی کے درمیان حدود و امتیاز پیدا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے عباد الرحمٰن کی صفات و نشانات کے اندر ان تینوں صفات کو داخل کیا ہے ۔ کیونکہ عباد الرحمٰن اللہ کے نزدیک اعلیٰ وارفع مخلوق ہے اور ان کے نزدیک یہ نہایت ہی اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان صفات کے بعد یہ تہدید آتی ہے۔ ومن یفعل ذلک یلق اثاما (25 : 68) ” یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہوں کا بدلہ پائے گا۔ “ اثام کا مفہوم یہاں عذاب ہے۔ اس عذاب کی تشریح پھر یوں کی گئی ہے۔
Top