Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 202
فَیَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَۙ
فَيَاْتِيَهُمْ : تو وہ آجائے گا ان پر بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور انہیں لَا يَشْعُرُوْنَ : خبر (بھی) نہ ہوگی
” پھر جب وہ بیخبر ی میں ان پر آپڑتا ہے
فیقولوا ھل نحن منظرون (204) یعنی کیا ہمیں دنیا میں ایک اور مہلت دے دی جائے گی تاکہ ہم اصلاح کرسکیں۔ اے کاش کہ ایسا ہوجائے۔ کفار مکہ بار بار مطالبہ کرتے تھے کہ تم جو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہو اور اس کے قصے سناتے ہو ، لائو وہ عذاب کہ دیکھیں یہ مذہب کا مذاق اڑاتے تھے کیا یہ لوگ اس قدر بےباک اور مغرور ہوگئے ہیں اس لئے کہ یہ خوشحال ہیں۔ عیاشیوں نے ان کو غبی بنا دیا ہے اور یہ خدا کے عذاب کو بعید الوقوع قرار دیتے ہیں۔ ان کی حالت ہمیشہ کے کھاتے پیتے لوگوں کی سی ہے۔ ایسے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔ یہ حالات کے بدلنے کا تصور بھی نہیں کرتے۔ یہاں ان کو ایسی غفلت سے جگایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس وقت ان کی حالت ایسی ہوگی کہ یہ دنیا کا سب ساز و سامان بےکار ہوجائے گا اور کوئی شئے بھی ان کو فائدہ نہ دے سکے گی۔
Top