Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 71
قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِیْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا نَعْبُدُ : ہم پرستش کرتے ہیں اَصْنَامًا : بتوں کی فَنَظَلُّ : پس ہم بیٹھے رہتے ہیں ان کے پاس لَهَا : ان کے پاس عٰكِفِيْنَ : جمے ہوئے
” انہوں نے جواب دیا ” کچھ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں اور انہی کی سیوا میں ہم لگے رہتے ہیں
قالوا نعبد اصناماً فنظل لھا عکفین (71) یہ لوگ اپنے بتوں کو اللہ کہتے تھے لیکن قرآن کریم نے ان کی زبانی ان کے لئے اصنام کا لفظ بھی نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ یہ بت پتھروں سے گھڑے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ لوگ ان بتوں کی عبادت اور تعظیم میں لگے ہوئے ہیں اور یہ ان کے عقائد کی ایک عام کمزوری تھی لیکن جب عقائد نور خیالات بگڑ جاتے ہیں ، تو پھر جن لوگوں نے ان بگڑے ہوئے عقائد کو سینے سے لگا لیا ہوتا ہے وہ سمجھ نہیں سکتے کہ ان کا یہ رویہ ان کو کس قدر ذلتوں اور کس قر پستیوں تک گرا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے غافل دلوں کو جگاتے ہیں ، ان کی عقل سے اپیل کرتے ہیں کہ تم دیکھتے نہیں ہو کہ کس حد تک تم گر گئے ہو اور کیا کیا حماقتوں کو سینے سے لگائے ہوئے ہو۔ بغیر سوچنے اور سمجھنے کے۔
Top