Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 72
قَالَ هَلْ یَسْمَعُوْنَكُمْ اِذْ تَدْعُوْنَۙ
قَالَ : اس نے کہا هَلْ : کیا يَسْمَعُوْنَكُمْ : وہ سنتے ہیں تمہاری اِذْ : جب تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو
” اس نے پوچھا ” کیا یہ تمہاری سنتے ہیں جب تم انہیں پکارتے ہو ،
قال ھل ……یضرون (73) کسی الہہ کی کم از کم جو خاصیت ہونا چاہئے کہ وہ سنے اور سوال و جواب کرے۔ کم از کم کوئی اپنے اس بندے جیسا تو ہونا چاہئے جو اس کی عبادت کر رہا ہے اور اس کے سامنے گڑ گڑارہا ہے۔ یہ الہہ تو نہ سنتے ہیں اور نہ گویا ہیں اور نہ ہی کوئی نفع و ضرور دے سکتے ہیں۔ اگر یہ سن ہی نہیں سکتے ، بہرے ہیں تو پھر نفع و نقصان کیسے دیں گے۔ اس لئے ان کو کسی صورت میں پکارنا جائز نہیں ہے۔ لوگوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوالات میں سے کسی کا جواب نہ دیا۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم ان کے ساتھ سخت مذاق کر رہے ہیں اور ان کے بتوں اور ان کی روش پر تنقید کر رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس اس کا کوئی جواب ہی نہ تھا۔ ان کا جواب بس یہ تھا جو ہر شخص کا جواب ہوتا ہے جو بےسوچے سمجھے تنقید کرتا ہے۔
Top