Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ
: اور چاہیے رہے
مِّنْكُمْ
: تم سے (میں)
اُمَّةٌ
: ایک جماعت
يَّدْعُوْنَ
: وہ بلائے
اِلَى
: طرف
الْخَيْرِ
: بھلائی
وَيَاْمُرُوْنَ
: اور وہ حکم دے
بِالْمَعْرُوْفِ
: اچھے کاموں کا
وَيَنْهَوْنَ
: اور وہ روکے
عَنِ الْمُنْكَرِ
: برائی سے
وَاُولٰٓئِكَ
: اور یہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الْمُفْلِحُوْنَ
: کامیاب ہونے والے
تم میں کچھ لوگ ضرور ایسے رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ‘ بھلائی کا حکم دیں ‘ اور برائیوں سے روکتے رہیں ۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ۔
سوال یہ ہے کہ ان یہودی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان دوآسامیوں (Bases) پر استوار ہوکر پھر امت مسلمہ کا منشور اور ہدف کیا ہے ؟ اس کا فریضہ ‘ فریضہ اقامت دین ہے ۔ اس کرہ ارض پر اسلامی نظام زندگی کا قیام ہے ۔ حق کو باطل پر غالب کرنا ہے ‘ معروف کو منکر پر غالب کرنا ہے ‘ خیر کو پھیلانا ہے اور شر کو روکنا ہے ۔ یہ ہے وہ نصب العین جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھوں سے ‘ اپنی نظروں کے سامنے ‘ اپنے خاص منہاج کے مطابق اس امت کو برپا کیا ہے ۔ اس نصب العین کا تعین ان الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ” تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ‘ بھلائی کا حکم دیں ‘ اور برائیوں سے روکیں اور جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ۔ “ بس یہ ضروری ہوا کہ ایسی جماعت ہر وقت موجود ہو جو بھلائی کی طرف دعوت دے ‘ معروف کا حکم دے اور منکر سے منع کرے ۔ ان کے اندر ایک ایسا اقتدار ‘ ایک ایسی قوت ضرور ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے ۔ یہ بات کہ ایک ایسا اقتدار یا ایسا مقتدر اعلیٰ ضروری ہے جو یہ کام کرے ‘ اس پر یہ آیت بصراحت دلالت کرتی ہے ۔ یعنی دعوت الی الخیر ہر وقت ہو اور یہ بات ہر کوئی کرسکتا ہے ‘ لیکن یہاں تو ساتھ ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے الفاظ بھی وارد ہیں ۔ اگر دعوت اسلامی بغیر اقتدار اعلیٰ کے ممکن العمل بھی ہے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بغیر اقتدار اعلیٰ کے حصول کے ممکن نہیں ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے صحیح اسلامی تصور حیات یہی ہے کہ ایسا قتدار اعلیٰ ضروری ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے ۔ یہ اقتدار اعلیٰ دعوت الی الخیر کے نصب العین پر قائم ہوگا ۔ اور اس کا مقصد دفعیہ شر ہوگا ۔ یہ اقتدار اعلیٰ ایسا ہوگا جو مکمل اتحاد واتفاق کے نتیجے میں حاصل ہوگا ‘ یہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے نتیجے میں اور اخوت اسلامی کے قیام کے بعد ہوگا ۔ یعنی یہ اقتدار اعلیٰ ‘ یا مملکت یا سلطنت ان دوبنیادوں پر قائم ہوگی یعنی اتحاد اور اخوت اور اس کا نصب العین انسانی زندگی میں اسلامی نظام حیات کا قیام ہوگا۔ اور اس اقتدار اعلیٰ کا قیام اس طرح ہوگا کہ اس نظام کی طرف جو خیر ہی خیر ہے ‘ عام لوگوں کو دعوت دی جائے گی ۔ لوگوں کو اس سے متعارف کرایا جائے گا کہ اس کی نظام کی حقیقت کیا ہے ۔ انہیں یہ بتایا جائے گا کہ اسلامی نظام اقتدار اعلیٰ کا خواہاں ہے تاکہ وہ معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے ۔ اور لوگ اس کی اطاعت کریں یا وہ اپنی اطاعت کروائے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَمَا اَرسَلنَا مِن رَّسُولٍ اِلّا لِیُطَاعَ بِاِذنِ اللّٰہِ……………” ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے ‘ وہ صرف اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ “ اس لئے یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس کرہ ارض پر اسلامی نظام زندگی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ صرف وعظ و ارشاد اور تبلیغ بیان جاری ہو ۔ یہ تو اسلامی نظام کا ایک حصہ اور جزء ہے ۔ اس کا دوسرا اہم جزء یہ ہے کہ ایک ایسا اقتدار اعلیٰ قائم کیا جائے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کرے ۔ اور انسانی زندگی میں معروف کو رائج کرے ۔ اور منکر کا قلع قمع کرے ۔ اور اس ” جماعت ممتازہ “ کو بھی بچائے رکھے کہ ہر کس وناکس اس امت کو اپنی خواہشات ‘ اپنی مرغوبات اور شہوات کے بھینٹ نہ چڑھاسکے ۔ اور اسے اپنی ذاتی مصلحتوں کی خاطر استعمال نہ کرسکے ۔ اور معاشرہ کے اندر نیکی اور بھلائی پر مبنی اخلاق کو کوئی اپنی خاص رائے اور اپنے مخصوص تصورات کے تحت تباہ نہ کرسکے ‘ اگرچہ وہ سمجھتا ہو کہ وہ جو کچھ کررہا ہے وہ معروف اور درست ہے۔ یہی وجہ ہے دعوت الی الخیر ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ کوئی آسان اور سہل کام نہیں ہے ۔ خصوصاً جب اس کے مزاج پر غور کریں اور دیکھیں کہ وہ لوگوں کی خواہشات اور میلانات کے ساتھ متصادم ہے ۔ وہ بعض لوگوں کی ذاتی مصلحتوں اور مفادات کے ساتھ ٹکراتا ہے ‘ بعض لوگوں کے غرور اور کبریائی پر اس کی زد پڑتی ہے ‘ بعض غاصب جابروں اور زبردستی مسلط ہونے والے حکام بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں ‘ بعض گرے ہوئے طبقات جن میں ترقی اور بلندی کا داعیہ ہی نہیں ہے ‘ وہ اسے مصیبت سمجھتے ہیں ‘ بعض اس قدر کامل ہوں کہ اس کی مشقتیں برداشت کرنے کی ہمت نہ رکھتے ہوں ‘ بعض ظالم طبقات ہوں جس کے ساتھ عدل لگانہ کھاتا ہو۔ بعض ایسے گم کردہ راہ اور کجرو ہوں کہ انہیں صراط مستقیم اچھا ہی نہ لگتا ہو ‘ اور ان میں سے بعض ایسے بھی موجود ہوں جو منکر کو پسند کرتے ہوں اور معروف کے دشمن ہوں……حالانکہ انسانیت اور امت مسلمہ صرف اس وقت فلاح پاسکتی ہے کہ اس میں خیر غالب ہو ‘ معروف ہو معروف سمجھا جاتا ہو ‘ منکر کو منکر سمجھا جاتا ہو ‘ اور ان تمام امور کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ ایک ایسا اقتدار اعلیٰ ہو جس میں خیر غالب ہو اور وہ نہی عن المنکر اور امر بالمعروف کا فریضہ ادا کرتاہو ۔ اور پھر اپنے اوامر اور نواہی کو منوانے کی قوت بھی رکھتا ہو۔ لہٰذا ایک ایسی جماعت کا قیام ازحد ضروری ہے جس کی بنیاد پر ان دو ستونوں پر ہو ‘ اللہ پر ایمان اور اخوت اسلامی تاکہ وہ اپنی قوت ایمانی ‘ قوت خدا خوفی اور باہم الفت اور محبت اور اتفاق و اتحاد کی قوت کے بل بوتے پر وہ فریضہ ادا کرسکے جس کے لئے اسے اٹھایا گیا ہو ‘ اس لئے کہ جماعت مسلمہ کو جو نصب العین دیا گیا ہے اور جو فریضہ اس پر عائد کیا گیا ہے کہ وہ ان دوخصوصیات کے بغیر اس میں عہدہ برآ نہیں ہوسکتی اور نہ کامیاب وکامران ہوسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ……………” یہی لوگ فلاح پائیں گے ۔ “ غرض اس قسم کی جماعت کا قیام اسلامی نظام زندگی کے قیام کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہے ۔ یہ اسلامی نظام کی ذاتی ضرورت ہے ۔ یہ جماعت وہ ماحول فراہم کرے گی جس کے اندر اسلامی نظام سانس لے گا ‘ زندہ ہوگا اور ایک حقیقت کے روپ میں نمودار ہوگا ۔ یہ ماحول بھلائی کا ماحول ہوگا ‘ باہم متعاون ومتکافل ہوگا ‘ اور اس میں دعوت الی الخیر کا چرچا ہوگا۔ اس میں بھلائی ‘ نیکی ‘ سچائی ‘ انصاف معروف ہوں گے ۔ شر ‘ رذالت ‘ باطل اور ظلم اس میں منکر تصور ہوں گے ۔ اس ماحول میں بھلائی آسان ہوگی اور برائی کا ارتکاب مشکل ہوگا۔ اس میں بھلائی پر عمل پیرا ہونے میں اس قدر مشقت نہ کرنا ہوگی جس قدر برائی پر مشقت ہوگی ۔ اس میں حق باطل کے مقابلے میں طاقتور ہوگا۔ اس میں ظلم کے مقابلے میں عدل سے زیادہ نفع ہوگا ‘ اس میں بھلائی کرنے والے کو معاونین بسہولت دستیاب ہوں گے ۔ اور اس میں برائی کا ارتکاب کرنے والے مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا ‘ یہی وجہ ہے کہ ایسی سوسائٹی کا قیام ضروری ہے ‘ جس میں سچائی اور بھلائی بلاجدوجہد نشوونما پاسکے ۔ اس کے لئے اس کا پورا ماحول اور اس کا ہر فرد اس میں معاون ہوگا اور جس میں باطل اور شر کی نشو ونما کی راہ میں بےحد مشکلات اور رکاوٹیں ہوں گی ‘ اس لئے کہ پورا ماحول اس کے لئے ساز گار نہ ہوگا۔ اسلام کا تصور کائنات ، اس کا تصور حیات ‘ اس کا تصور اقتدار ‘ اس کا تصور اعمال ‘ اس کا تصور واقعات ‘ اس کا تصور اشیاء اور افراد تمام دوسرے جاہلی تصورات سے ‘ اپنی اساس اور نوعیت کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ اس لئے اسلام کے اس وسیع تصور حیات کے لئے ضروری ہے کہ اس کے لئے ایک ماحول ہو ‘ جس میں یہ تصور حیات پھلے پھولے اور اس میں اس کی اپنی اقدار حیات پروان چڑھیں ۔ لہٰذا اسلام کے جاہلی ماحول سے جدا ایک عمدہ ماحول کی ضرورت ہے اور اسے ایک جاہلی معاشرے کے سوا اس کا اپنا معاشرہ درکا رہے ۔ یہ ماحول اور یہ معاشرہ اسلامی تصور حیات کے لئے ہو جس میں یہ تصور زندہ رہے اور یہ ماحول بھی اس کے لئے زندہ ہو ‘ اس ماحول میں یہ تصور پھلے پھولے ‘ اور آزادی کے ساتھ وہ اس ماحول میں سانس لے سکے ‘ اس میں ذاتی ترقی کرسکے ‘ اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ‘ نہ داخلی رکاوٹیں جو اس کی راہ میں مشکلات پیدا کریں اور نہ خارجی رکاوٹیں جو مزاحمت کریں ۔ اور اگر ایسی رکاوٹیں کسی وقت وجود میں آجائیں تو دعوت اسلامی ان کا مقابلہ کرے ‘ اس لئے کہ یہ دعوت الی الخیر ہے ‘ دعوت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے ۔ اور جب اس قسم کی کوئی قاہرانہ قوت دعوت اسلامی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالے تو اس معاشرے میں اس کی مدافعت کرنے والے موجود ہوں اور یہ لوگ اسلامی نظام کے محافظین ہوں۔ یہ ماحول اسلامی جماعت کی صورت میں فراہم ہوتا ہے اور یہ جماعت دوبنیادوں پر قائم ہوتی ہے ۔ ایمان باللہ اور اخوت اسلامی ۔ ایمان باللہ اس لئے ضروری ہے تاکہ اس کا تصور کائنات ، تصور حیات ‘ اس کی اقدار ‘ تصور اعمال اور تصور اشخاص واشیاء میں مطابقت ہو۔ یہ تمام تصورات ایک ہی پیمانے کے مطابق ہوں اور ایک ہی منبع سے ماخوذ ہوں ‘ انہی کے مطابق زندگی کے تمام مسائل حل کئے جائیں اور پوری زندگی کے فیصلے اللہ کی طرف سے آئی ہوئی شریعت کے مطابق ہوں ۔ اور وہ جماعت محبت کے ساتھ اس قیادت کی پیروی کرے جو اسلامی نظام حیات کے مطابق قائم ہو ۔ وہ اسلامی اخوت پر قائم ہو۔ اس کی تشکیل محبت اور باہم تعاون وتکافل کے اصولوں پر ہو ‘ یہ ایسے اصول ہیں جن کے سایہ میں خود غرضی اور لالچ ختم ہوجاتی ہے اور ایثار اور قربانی کے جذبات دوچند ہوجاتے ہیں ‘ لوگ بڑی سہولت اور آزادی سے اور بڑی گرمجوشی سے ایثار کرتے ہیں اور نہایت ہی اطمینان ‘ خوشی اور اعتماد کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ غرض مدینہ طیبہ میں پہلی اسلامی جماعت انہی دواصولوں پر قائم ہوئی تھی ‘ اس کا ایمان باللہ نہایت ہی پختہ تھا جو معرفت الٰہی پر مبنی تھا۔ معرفت الٰہی کی وجہ سے صفات باری کا پرتو ان کے ضمیروں پر پڑگیا ‘ خدا خوفی ‘ خدا کی نگرانی کا شعور ‘ مسلسل بیداری ‘ ذات باری کا احساس اس جماعت کے اندر اس ھد تک پہنچا ہوا تھا کہ جس کی نظیر تاریخ انسانی میں بڑی نادر ہے ۔ اور معرفت کردگار کے ساتھ ساتھ خوبصورت اور میٹھی محبت کے پیکر تھے ۔ معاشی لحاظ سے باہم معاون متکافل اور گہری اور سچی ہمدردی رکھتے تھے ۔ اور وہ اس میدان میں اس قدر اونچے مقام تک پہنچے ہوئے تھے کہ اگر انہوں نے یہ معیار عملاً پیش نہ کیا ہوتا تو وہ محض خواب ہی خواب ہوتا ۔ غرض مہاجرین اور انصار کے درمیان برادری اور مواخات کا قصہ تو ایک حقیقت تھا ‘ لیکن وہ اس قدر ممتاز اور بلند معیار کا تھا کہ آج بھی وہ محض افسانہ نظر آتا ہے ‘ حالانکہ وہ حقیقت تھی ۔ اور وہ قصہ اس سرزمین پر بطور واقعہ پیش آیا تھا۔ اگرچہ وہ محیر العقول اور افسانہ نظر آتا تھا ۔ غرض اس قسم کے ایمان اور اس قسم کی اخوت اور بھائی چارے پر ہر دور میں اسلامی نظام قائم ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاق کلام میں مکرر ‘ جماعت مسلمہ کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ تفرقے اور بےجا اختلاف سے باز رہیں ۔ ان سے پہلے جن لوگوں کو اس امانت کے اٹھانے کے لئے منتخب کیا گیا تھا ‘ اور جنہوں نے تفرقہ بازی کی تھی اور انجام کار وہ جس طرح تباہ وبرباد ہوئے تھے ‘ اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ اعزاز چھین لیا تھا اور جماعت مسلمہ کے سپرد کردیا تھا ‘ اس لئے وہ باہم جڑے ہوئے تھے ۔ نیز ان لوگوں کا جو برا انجام قیامت میں ہونے والا ہے وہ مستزاد ہے ‘ کہ جس دن کچھ چہرے سیاہ ہوں گے اور کچھ سفید ہوں گے اور یہ لوگ سیاہ چہروں والے ہوں گے ۔
Top