Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 179
مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِ حَتّٰى یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١۪ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
مَا كَانَ
: نہیں ہے
اللّٰهُ
: اللہ
لِيَذَرَ
: کہ چھوڑے
الْمُؤْمِنِيْنَ
: ایمان والے
عَلٰي
: پر
مَآ
: جو
اَنْتُمْ
: تم
عَلَيْهِ
: اس پر
حَتّٰى
: یہانتک کہ
يَمِيْزَ
: جدا کردے
الْخَبِيْثَ
: ناپاک
مِنَ
: سے
الطَّيِّبِ
: پاک
وَمَا كَانَ
: اور نہیں ہے
اللّٰهُ
: اللہ
لِيُطْلِعَكُمْ
: کہ تمہیں خبر دے
عَلَي
: پر
الْغَيْبِ
: غیب
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
اللّٰهَ
: اللہ
يَجْتَبِىْ
: چن لیتا ہے
مِنْ
: سے
رُّسُلِھٖ
: اپنے رسول
مَنْ
: جس کو
يَّشَآءُ
: وہ چاہے
فَاٰمِنُوْا
: تو تم ایمان لاؤ
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَرُسُلِھٖ
: اور اس کے رسول
وَاِنْ
: اور اگر
تُؤْمِنُوْا
: تم ایمان لاؤ
وَتَتَّقُوْا
: اور پر وہیز گاری
فَلَكُمْ
: تو تمہارے لیے
اَجْرٌ
: اجر
عَظِيْمٌ
: بڑا
اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم لوگ اس وقت پائے جاتے ہو ۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کرکے رہے گا ۔ مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم لوگوں کو غیب پر مطلع کردے ۔ (غیب کی باتیں بتانے کے لئے تو ) اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے ۔ لہٰذا (امور غیب کے بارے میں ) اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو ۔ اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلوگے تو تم کو بڑا اجر ملے گا ۔ “
یہاں یہ آیت قطعی طور پر فیصلہ کردیتی ہے کہ اللہ کی شان یہ نہیں ہے ‘ اس کی الوہیت کا تقاضا یہ نہیں ہے اور اس کی کائنات میں مروجہ سنت یہ نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں منافقین کو اسی طرح چھپے ہوئے چھوڑدے ۔ حالت یہ ہے کہ منافقین بس دعوائے ایمان کریں ‘ اسلام کا اظہار کریں اور اسلامی صفوں میں چھپے رہیں حالانکہ ان کے دل ایمان کی تروتازگی سے خالی ہوں ‘ اور ان میں اسلام کی روح سرے سے نہ ہو۔ اس امت کو اللہ نے اس لئے برپا کیا ہے کہ وہ اس کائنات میں ایک عظیم کردار ادا کرے ۔ ایک عظیم نظام زندگی کا علم لے کر اٹھے ‘ اس زمین پر ایک منفرد صورت حال پیدا کردے ۔ ایک جدید نظام وجود میں آجائے ۔ اس مشن اور عظیم نصب العین کا تقاضایہ تھا کہ وہ پوری یکسوئی ‘ پوری صفائی اور پوری تمیز کے ساتھ اس نصب العین کو پختہ طریقے سے پکڑے اور یہ تقاضا بھی تھا کہ اس کی صفوں کے اندر کوئی خلل اور کوئی کمزوری نہ ہو ‘ اس کی بنیادوں میں کوئی کمزوری نہ ہو اور مختصر الفاظ میں یوں کہ ان مقاصد کا تقاضا تھا کہ یہ امت اس قدر عظیم ہو جس قدر اس کا یہ نصب العین عظیم ہے ۔ جس نصب العین اور جس ٹارگٹ تک اسے اس کائنات میں پہنچنا ہے ۔ اور آخرت کا بلند مقام و مرتبہ تو بہرحال ان کے لئے اللہ نے تیار کیا ہوا ہے ۔ ان سب باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ اسلامی صف ہر وقت جاگتی رہے تاکہ اس سے خبیث عناصر نکل جائیں ۔ وہ کارکنوں پر اس قدر دباؤ رکھے کہ جو اینٹ کچی ہو ‘ وہ پہلے دن ہی بیٹھ جائے ۔ اور ان پر ہر وقت روشنی پڑتی رہے تاکہ اندرونی کمزوریاں اور ضمیر کے اندر برے خیالات کی تطہیر ہوتی رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے بھی ان کی صفوں کو صاف کرنے کے لئے ان کی امداد فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ کی شان کے یہ لائق نہ تھا کہ وہ اپنے دوستوں کی صفوں میں ایسے ناپاک لوگوں کو رہنے دے ۔ نیز اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو غائبانہ باتوں کا براہ راست علم دے دے ۔ اس لئے کہ غیب کا علم تو صرف اللہ کے شایان شان ہے ۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے جس پر انہیں پیدا کیا گیا ہے ‘ اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ وہ غیبی اطلاعات کا ادراک کرسکیں ۔ انسانی جسم کی مشینری جو ان کے اندر تخلیق ہوئی ہے وہ اس اسکیم کے مطابق تیار ہی نہیں کی گئی کہ وہ غائبانہ امور کا ادراک کرسکے ۔ الا یہ کہ کوئی خاص مقدار اللہ کسی کو دے دے ۔ اور یہ بھی خصوصی حکمت کے تحت ہوا کرتا ہے یعنی اس قدر جس قدر اس دنیا میں ان کی خلافت فی الارض کے مقاصد کے لئے ضروری ہو۔ اور اس مقصد یعنی انسان کے وظیفہ خلافت فی الارض کے لئے علم غیب کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کی اس موجودہ مشینری پر علم غیب کے دروازے کھول دے تو یہ مشینری ختم ہوکر رہ جائے ‘ اس لئے کہ وہ علوم غیب کے اخذ کے لئے سرے سے تیار ہی نہیں ہے ۔ صرف اس قدر غیب کا علم اسے درکار ہوتا ہے جس میں اس کی روح کاملاپ اس کے خالق کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کا وجود ‘ وجود کائنات سے مل جاتا ہے ۔ علم غیب پر اطلاع پانے کا کم سے کم نقصان تو یہ ہوگا وہ ہاتھ پاؤں ہلانا چھوڑدے گا ‘ ہر وقت ان نتائج کے بارے میں سوچتا رہے گا جو واقع ہونے والے ہیں ‘ اور وہ اس زمین میں کسی قسم کی ترقی کے لئے سوچ بھی نہ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بات اللہ کی شایان شان نہ تھی کہ وہ لوگوں کو علم غیب کی اطلاع دے دے اور نہ یہ اس حکمت اور اسکیم کے مطابق تھی جس کے مطابق وہ اس زمین کو چلارہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پس اللہ خبیث کو طیب سے کیسے جدا کرتا ہے ؟ اور اس کی سنت اور اس کی شان اس تطہیر کے عمل میں کس طرح کام کرتی ہے ؟ اور کس طرح اسے چھانٹ کر رکھ دیتی ہے ؟ وہ کس طرح غبار اور دھند کو دور کرتا ہے ؟ کس طرح منافقین کو الگ کرکے اسلامی صفوں کو پاک کرتا ہے تاکہ مسلمان اس کرہ ارض پر اپنا کردار ادا کرسکیں جس کے لئے مسلمانوں کو بطور امت برپا کیا گیا ہے ۔ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ…………” اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کھرے کو کھوٹے سے اس طرح جدا کرتا ہے کہ اس نے رسولوں کو بھیجا ‘ کوئی ان پر ایمان لایا اور کسی نے ان سے انکار کیا ۔ اور رسالت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے سلسلہ جہاد فرض کیا گیا۔ اور جہاد کے اندر لوگوں کو آزمائشوں میں ڈال کر آزمایا گیا ‘ ان تمام اقدامات سے شان الٰہی ظہور میں آتی ہے ۔ یوں اللہ کی سنت کام کرتی ہے اور یوں کھراکھوٹے سے الگ ہوجاتا ہے ۔ دلوں کی تطہیر ہوجاتی ہے ‘ نفوس پاک ہوجاتے ہیں اور اللہ کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ ظاہر ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ کی حکمت کے ایک حصے سے پردہ اٹھتا ہے ۔ یہ حکمت زندگی میں حقیقت بن کر ظاہر ہوتی ہے ۔ اور یہ حکمت ایک مضبوط بنیاد پر ‘ کھلے بندوں ‘ روشن ستارے کی طرح زمین پر استقرار حاصل کرتی ہے……اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے جو روشن ہوتی ہے ‘ جو واضح ہوتی ہے ‘ جو سادہ اور قابل فہم ہوتی ہے ‘ اب اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے اندر حقیقی ایمان پیدا کریں اور پھر اس حقیقی ایمان کے تقاضے پورے کریں اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ آخرت میں ایک فضل عظیم ہے جوان کا منتظر ہے۔ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ……………” اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اگر تم ایمان لاؤ اور خدا ترسی کی روش پر چلو تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔ “……واقعات احد کے بیان اور اس کے بعد ان واقعات پر تبصروں اور تنقیدوں کے بیان کے بعد یہ بہترین ہدایت اور مشورہ ہے جو اہل ایمان کو دیا گیا ہے ۔ جنگ احد کے بارے میں قرآن کریم نے جو تبصرہ کیا ہے ‘ اس میں بعض نہایت ہی اہم اور عظیم حقائق کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ان تمام حقائق کو گنوادیا جائے اور یہاں ان کے بارے میں پوری تفصیلات دی جاسکیں ‘ لیکن مناسب ہے کہ ان حقائق میں سے جو زیادہ عمومی اور شامل اور زیادہ ظاہر ہیں ان کی طرف اشارہ کردیاجائے تاکہ ان اشارات پر وہ تمام واقعات قیاس کرلئے جائیں جو اس غزوہ میں پیش ہوئے ‘ جیسا کہ قرآن کریم نے انہیں عبرت کے طور پیش کیا ہے۔ 1۔ اس معرکے اور اس پر ہونے والے اس طویل تبصرے نے ایک بنیادی حقیقت کا بالکل کھول کر بیان کردیا ہے کہ یہ دین جو درحقیقت انسانوں کے لئے ایک نظام زندگی ہے ‘ اس کا اصل مزاج کیا ہے اور وہ انسانوں کی زندگیوں کے اندر کس طرح کام کرتا ہے ۔ یہ نہایت ہی اساسی اور سادہ اور قابل فہم حقیقت ہے لیکن بسا اوقات اسے بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے یا ابتداءً ہی اس کا ادراک نہیں کیا جاتا اور اس کے بھول جانے اور اس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے اس دین کی فہم میں فاش غلطیاں کی جاتی ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اس دین کی حقیقت کے سمجھنے میں بھی غلطی کی جاتی ہے بلکہ اس تاریخ کو سمجھنے میں غلطی کی جاتی ہے اور انسانی زندگی میں اس نے جو کردار ادا کیا یا کرتا ہے یا آئندہ کرے گا اس کے سمجھنے میں بھی نہایت ہی فاش غلطی ہوتی ہے۔ ہم میں بعض لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ دین اسلام جو انسانی زندگی کے لئے اللہ کا تجویز کردہ نظام ہے ‘ اسے معجزانہ طور پر کام کرنا چاہئے ۔ اس میں اس کے انسانی مزاج ‘ اس کی فطری قوت اور کسی وقت میں موجود مادی صورت حال کا کوئی لحاظ نہ رکھاجائے ‘ چاہے انسان ترقی کے کسی درجے میں ہوں ‘ اور جس معاشرے اور ماحول میں بھی ہوں۔ جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اسلام اس معجزانہ اور ساحرانہ انداز میں کام نہیں کرتا بلکہ اسلام لوگوں کی بشری طاقت کے مطابق کام کرتا ہے اور یہ انسانی محدود قوت اور انسان کی اصل بنیادی صورت حال باہم دگر مل کر کام کرتے ہیں ۔ بعض اوقات انسان اور اس وقت کی موجود صورت حالات اسلامی نظام سے واضح طور پر متاثر ہوجاتے ہیں ‘ اور یا یہ دونوں مل کر لوگوں کی جانب سے اسلام کی جانب ردعمل کو متاثر کرتے ہیں ۔ بعض اوقات ان دونوں کے اثرات اسلام کے خلاف ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے لوگ کیچڑ کی طرح بھاری ہوکر بیٹھ جاتے ہیں ۔ ان کی نظروں میں لالچ ‘ لذت اور شہوت اس قدر اہم ہوجاتی ہے کہ وہ اسلام کے پیغام کو قبول کرنے کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے اور لوگ اسلامی سمت میں نہیں چلتے ۔ جب یہ لوگ ایسی صورت حال دیکھتے ہیں تو وہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ صورتحال ایسے لوگوں کی توقعات کے خلاف ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ دین اللہ کی جانب سے ہوتا ہے……اور بعض اوقات وہ اس بات میں شبہ کرنے لگتے ہیں کہ آیا یہ دین فی الواقعہ لوگوں کے لئے کوئی مکمل نظام حیات ہے بھی اور اس سے بھی آگے بڑھ کر بعض لوگ سرے سے اس دین کی حقانیت پر شک کرنے لگتے ہیں۔ فکر وعمل کی ان غلطیوں کی بنیاد صرف ایک غلطی پر ہے ۔ وہ یہ کہ ایسے لوگوں نے اس دین کے مزاج ہی کو نہیں سمجھا ۔ اس کے طریقہ کار ہی کو نہیں سمجھا ‘ یا وہ اس حقیقت کو سمجھ کر بھول گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دین انسانی زندگی کے لئے ایک منہاج ہے۔ اور اس کا انسانی زندگی کے اندر قیام خالص انسانی جدوجہد پر موقوف کیا گیا ہے ۔ اور اس جدوجہد کو انسانی طاقت کے اندر محدود کیا گیا ہے۔ اور اس دین پر عمل پیرا ہونے کا آغاز وہاں سے کیا جاتا ہے جہاں انسان اپنی مادی زندگی کی ترقی کے مدارج میں سے جد درجے میں موجود ہو ‘ یہ دین انہیں جہاں پاتا ہے وہاں سے لے کر آگے چلتا ہے ۔ اور انہیں اپنے آخری انجام تک پہنچاتا ہے ۔ اور یہ سب کام انسان کی طاقت اور وسعت کے حدود میں کیا جاتا ہے ۔ اور وہاں تک وہ انہیں آگے بڑھاتا ہے جس قدر ان کے اندر طاقت اور وسعت ہو اور جہاں تک وہ پہنچ سکتے ہوں اور پہنچنے کی صلاحیت اپنے اندررکھتے ہوں ۔ اس کام میں اس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک لحظہ بھی اس کام سے غفلت نہیں کرتا۔ کسی منصوبے میں غفلت نہیں کرتا ۔ کسی اقدام میں غفلت نہیں کرتا ۔ اور فطرت انسانی کے مطابق کام کرتا ہے ‘ انسانی طاقت کے حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرتا ہے ۔ انسان مادی اعتبار سے جہاں تک ترقی یافتہ ہو اس کے مطابق کام کرتا ہے ‘ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اسے اس مقام تک لے جاتا ہے جہاں تک وہ ابھی تک نہیں پہنچ پایا تھا اور تاریخ انسانی میں انسان کے وضع کردہ تمام نظامہائے زندگی کے ادوار میں سے کسی دور میں بھی نہیں پہنچ پایا تھا۔ اسلام نے اپنے یہ کمالات عملاً اس وقت دکھائے جب کبھی بھی ایک مختصر وقت کے لئے اسے نافذ کیا گیا اور آئندہ بھی وہ ایسا ہی کرکے دکھائے گا بشرطیکہ کوشش اس کے نفاذ کی ‘ کی جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلطی کا آغاز اس دین کے مزاج کو نہ سمجھنے یا سمجھ کر اسے بھلادینے کی وجہ سے ہوا جس طرح ہم نے کیا ۔ اور ہم نے نفاذ دین کے لئے معجزانہ اور ساحرانہ انقلاب کا انتظار شروع کردیا ‘ جو انسانی صورت حال کے مناسب نہیں ہے ‘ جس سے فطرت انسانی بدل جاتی ہے ‘ اور جس سے اسلام کا مزاج بدل جاتا ہے ۔ اور یہ طریقہ کار اس کی فطرت حقیقی سے لگا نہیں کھاتا ۔ اس کی استعداد اور اس کے رجحانات کے بھی خلاف ہے اور جو انسان کے مادی حالات کے بھی خلاف ہیں۔ کیا اسلام من جانب اللہ نہیں ہے ؟ کیا وہ ایسی قوت قادرہ کی طرف سے ارسال کردہ نہیں ہے جسے کوئی قوت عاجز نہیں کرسکتی ؟ تو پھر اسلام کے نفاذ کو کیوں انسانی طاقت کے حدود پر موقوف کردیا گیا اور کیوں اسے انسانی جدوجہد کا محتاج کیا گیا ہے ؟ پھر کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ انسان اس کے لئے کام کریں اور وہ ہمیشہ غالب ہی ہوں ؟ کیوں اسلامی لوگ ہمیشہ کامیاب نہیں رہتے ؟ انسان کی خواہشات نفسانیہ ‘ اس کا مزاج اور اس کی مادی صورت حال کیوں اس پر غالب آجاتی ہیں اور کبھی ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اہل حق شکست فاش کھاتے ہیں حالانکہ وہ اہل حق ہوتے ہیں ؟ یہ تمام سوالات جیسا کہ ہم نے بیان کیا حقیقی سوالات ہیں اور یہ اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ ہم نے اس دین کے اصل مزاج ہی کو نہیں سمجھا ہے باوجود اس کے کہ اس دین کا مزاج اور اس کا طریق کار نہایت ہی سادہ ہیں یا ہم نے انہیں سمجھتے ہوئے بھلادیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے اور وہ انسانی فطرت کو بھی تبدیل کرسکتا ہے ۔ چاہے وہ فطرت انسانی کو اس دین کے ذریعہ بدلے یا اس کے لئے کوئی اور طریق کار اختیار کرے اور وہ اس بات پر بھی قادر تھا کہ ابتدائے آفرینش سے انسان کو کسی دوسری فطرت پر پیدا کرتا ۔ لیکن اس کی مشیئت یہ تھی کہ وہ انسان کو اس کی موجودہ فطرت پر ہی پیدا کرے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے پسند کیا کہ انسان کو ذی ارادہ بنائے اور اس کے اندر ہدایت وضلالت قبول کرنے کی صلاحیت ہو۔ اور اس کی مشیئت یہ بھی تھی کہ ہدایت کو ‘ انسان کی جدوجہد اور اس کی جانب سے طلب ہدایت اور اس کی استعداد قبولیت پر موقوف کردیا جائے ۔ پھر اللہ کی مشیئت نے چاہا کہ انسانی فطرت ہمیشہ کام کرتی رہے اور اسے کسی صورت میں مٹایانہ جاسکے ‘ نہ تبدیل کیا جاسکے اور نہ معطل کیا جاسکے اور اس کی مشیئت یہ بھی تھی کہ اسلامی نظام زندگی کو اس کرہ ارض پر بذریعہ انسانی جدوجہد قائم کیا جائے اور انسانی طاقت اور وسعت کے حدود کے اندر قائم کیا جائے ۔ اور یہ بھی مشیئت الٰہی کا ایک حصہ تھا کہ انسان کو وہی کچھ ملے جس قدر وہ اپنی وسعت کے مطابق جدوجہد کرے ۔ اس کی زندگی کے شب وروز کے مطابق اور جو صورت حال فی الواقعہ موجود ہو اس کے دائرے میں۔ انسانوں میں سے کسی کے لئے یہ حق نہیں ہے کہ وہ پوچھے اللہ نے ایسا کیوں چاہا ۔ جب تک انسان بندہ اور خدا الٰہ ہے اس لئے کہ انسان کے پاس اس کائنات کے نظام کا کلی علم نہیں ہے اور نہ اس علم تک کبھی انسان کے پہنچنے کا امکان ہے ۔ نہ انسان کو یہ علم دستیاب ہو سکتا کہ اس کائنات کے ہر موجود کے حوالے سے نظام کائنات کے تقاضے کیا ہیں اور یہ کہ انسان کی موجودہ فطرت کی منصوبہ بندی اور تشکیل کے پیچھے کیا کیا حکمت کارفرما ہے ۔ اس لئے ایسے مقامات پر ایک سچا مسلمان یہ سوال کر ہی نہیں سکتا کہ کیوں ؟ میں سمجھتا ہوں کہ ایک سنجیدہ ملحد بھی یہ سوال نہیں کرسکتا کیوں ؟ مومن تو اس لئے نہیں کرسکتا کہ اسے بارگاہ الٰہ میں بڑا باادب ہونا چاہئے اس لئے کہ اس کا دل ذات باری کی حقیقت اور اس کی صفات سے واقف ہوتا ہے اور اسے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ انسانی ادراک کا یہ میدان عمل ہی نہیں ہے ۔ اور کافر اس لئے یہ سوال نہیں کرتا کہ وہ سرے سے خدا کو تسلیم ہی نہیں کرتا ۔ اگر سے ذات باری کی معرفت ہوتی تو وہ اس کی ذات وصفات کا اعتراف کرلیتا ۔ الوہیت کے تقاضوں کو جانتا۔ ہاں بعض ایسے لوگ جو سنجیدہ نہیں ہوتے اور اخلاقی لحاظ سے گرے ہوئے ہوتے ہیں وہ ایسے سوالات کرتے ہیں ۔ وہ نہ سنجیدہ اور سچے مسلم ہوتے ہیں اور نہ ہی سنجیدہ اور سچے کافر ہوتے ہیں ۔ اس لئے اس سوال میں زیادہ دلچسپی لینا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اسے سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہئے ۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک جاہل شخص ذات باری کے متعلق سوال کرتا ہے ۔ اس لئے کہ ایسے جاہل کے سوال کا جواب براہ راست نہ دینا چاہئے ۔ اسے صرف اللہ کی الوہیت کی حقیقت بتادینا چاہئے ‘ تو اگر وہ اسے پالے تو مومن ہے اور اگر نہ پاسکے تو کافر ہے ۔ بس ایسے جاہل کے ساتھ بات یہاں ختم ہوجاتی ہے ۔ ورنہ یہ شخص بحث برائے بحث کررہا ہوگا۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو یہ سوال اٹھانے کا حق ہی نہیں ہے کہ اللہ نے حضرت انسان کو اس کی اس موجودیہ فطرت کے مطابق کیوں پیدا کیا ؟ کیوں اس کی یہ فطرت کام کرتی رہتی ہے ‘ اسے مٹایا نہیں جاسکتا ۔ اس میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ۔ اسے معطل نہیں کیا جاسکتا اور پھر کیوں اللہ نے اسلامی نظام زندگی کے قیام کو انسانی جدوجہد پر موقوف کیا اور انسانی طاقت کے اندر جدوجہد کو ضروری قراردیا۔ ہر انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کرے ۔ وہ دیکھے کہ انسانی فطرت انسانی ماحول کے اندر کس طرح کام کرتی ہے۔ پھر وہ انسانی تاریخ کا مطالعہ اس فطری انداز میں کرے ۔ اس طرح ایک تو وہ تاریخی واقعات کے حقیقی اسباب کو سمجھے گا اور دوسرے یہ کہ اسے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ تاریخ کا رخ کس طرح موڑا جاسکتا ہے ۔ یہ نظام زندگی جسے ہم اسلام کہتے ہیں ‘ جس طرح اسے حضرت محمد ﷺ نے پیش فرمایا ‘ اس زمین پر ‘ ان لوگوں کی دنیا میں ‘ صرف اس بناپر جاری وساری اور قائم نہیں ہوسکتا کہ بس وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے ۔ اور یہ صرف مجرد ” تبلیغ “ اور ” بیان “ سے بھی نافذ نہیں ہوسکتا ۔ اور یہ اس طرح بھی نافذ نہیں ہوسکتا کہ اسے اللہ تعالیٰ ناموس فطرت اور قوانین قدرت کی طرح نافذ کردے ‘ جو اس نے آسمانوں کی گردش ‘ ستاروں کی رفتار اور طبیعی اسباب پر طبیعی نتائج مرتب کئے جانے والے کے سلسلے میں جاری کئے ہوئے ہیں ۔ بلکہ اس کے لئے یہ منہاج رکھا گیا ہے کہ اسے ایک انسانی جماعت لے کر اٹھے ‘ جو سب سے پہلے اس پر اچھی طرح ایمان رکھتی ہو ‘ پھر خود اس پر پوری طرح عمل پیرا ہو اور اپنی طاقت کے مطابق اسے زندگی کا وظیفہ اور نصب العین قرار دے ۔ پھر دوسروں کے دلوں میں اس ایمان کی منتقلی اور ان کی زندگیوں میں اس نظام کے قیام کے لئے یہ جماعت جدوجہد کرتی ہو ‘ اور اس قدر جدوجہد کرے کہ اس سلسلے میں وہ اپنی پوری طاقت لگادے ۔ وہ انسانی کمزوریوں کے خلاف جہاد کرے وہ انسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرے اور وہ اپنے نفس کی جہالت اور دوسرے نفوس کی جہالت کے خلاف جہاد کرے ۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ جہاد کرے جو انسانی کمزوریوں ‘ خواہشات نفسانیہ اور جہالت کی وجہ سے اس نظام زندگی کی راہ روکے کھڑے ہیں اور اس نظام زندگی کو اس حد تک قائم کردے جس حد تک انسانی مزاج اور طاقت اسے برداشت کرسکتے ہیں اور وہ انسانوں کو اس مقام سے پکڑے جس مقام پر وہ درجہ ترقی کے حوالے سے عملاً موجود ہوں۔ وہ ان انسانوں کے حقیقی حالات زندگی کو نظر انداز نہ کرے ۔ نیز وہ لوگوں کے حقیقی حالات کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہ کرے اور ان حالات اور تقاضوں کے مطابق اس نظام کو چلائے ۔ لوگوں کی یہ جماعت پہلے خود اپنے نفس پر فتح حاصل کرے ‘ اور پھر کبھی وہ اپنے ماحول کے لوگوں پر فتح حاصل کرے اور کبھی یوں ہو کہ وہ اپنے نفس اور اپنے ماحول کے لوگوں سے شکست کھاجائے ۔ یہ بات اس کی جدوجہد کے عین مطابق ہو۔ ان عملی طریقہ ہائے کار کے عین مطابق ہو ‘ جو اس جماعت نے اختیار کئے یا جس قدر اسے اختیار کرنے کی توفیق ہوئی ۔ پھر اس جماعت کے لئے ہر چیز سے پہلے ‘ ہر جدوجہد سے پہلے اور ہر وسیلہ واسلوب سے پہلے ایک دوسرا بنیادی عنصر بھی ضروری ہے ‘ وہ یہ کہ یہ جماعت اس نصب العین کے ساتھ کس قدر مخلص ہے اور وہ کس قدر اپنی ذات کے اندر اسے نافذ کررہی ہے ۔ اور یہ کہ اس نظام کے نازل کرنے والے اللہ کے ساتھ اس کا تعلق کس قدر ہے ؟ اسے اس پر کس قدر اعتماد ہے اور اسے اس پر کس قدر توکل اور بھروسہ ہے ؟ یہ ہے اس دین کی اصل حقیقت اور یہ ہے اس کا طریق نفاذ اور یہ ہے اس کی تحریک کا منصوبہ ۔ اور یہی وہ بات ہے جسے اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ کو اچھی طرح سمجھانا چاہتے ہیں ۔ واقعہ جنگ احد کے تمام واقعات کے بیان ‘ ان واقعات پر آنے والے تبصروں کا پورا ماحصل یہی ہے ۔ اب یہ کہ احد کے موقعہ پر اسلامی جماعت نے جب مکمل اسلام کو ‘ جس میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے احکام شامل تھے ‘ اپنے نفسوں میں عملی شکل پیش کرنے میں قدرے قصور کیا ‘ اور بعض مواقف پر اس نے بعض عملی اقدامات کرنے میں کوتاہی کی ‘ اور جب اس نے اس مذکورہ بالا عظیم اساسی حقیقت کو سمجھنے میں کوتاہی کی اور اس نے یہ خیال کیا کہ ہم تو بہرحال کامیاب ہوں گے ‘ اس لئے کہ یہ دین اور یہ نظام اللہ کی طرف سے ہے اور اس بنا پر اس نے اپنے تصرفات اور تدابیر کو نظر انداز کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ہزیمت سے دوچار کردیا تاکہ وہ ذرا تلخ تجربات کا مزہ بھی چکھ لے ۔ چناچہ اس تجربے کے بعد قرآن مجید نے ان کی اس غلط فہمی کو اپنے تبصرے کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کی۔ أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ” اور جب تم پر وہ مصیبت آئی جس کے دوگنا تمہارے ہاتھوں سے ان پر آئی تھی تو تم نے کہا یہ کیسے ؟ اے پیغمبر کہہ دو کہ یہ خود تمہارے اپنے نفوس کی وجہ سے ہے ۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ جیسا کہ اس سے قبل سیاق کلام میں کہہ آئے ہیں ‘ اللہ اہل ایمان کو اس مقام پر چھوڑ نہیں دیتے بلکہ انہیں اللہ کی تقدیر کے ساتھ پیوستہ فرماتے ہیں جو ان اسباب اور نتائج کی پشت پر کام کررہے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں بتاتے ہیں کہ اس ابتلا کی پشت پر اللہ کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے لئے بھلائی چاہتے ہیں ‘ رہی ابتلا تو یہ تو ان پر ان کے اپنے تصرفات اور اسباب ظاہری کی وجہ سے آتی ہے۔ یہ فیصلہ کہ اسلامی نظام زندگی کا قیام ‘ انسانی جدوجہد پر چھوڑدیا گیا ہے اور اس پر ان انسانی اقدامات کا اثر ہوتا ہے جو وہ اس کے حوالے سے کرتے ہیں ۔ اس میں انسان کے لئے بہت بڑی بھلائی ہے ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام زندگی میں فساد کے بجائے اصلاح چاہتا ہے ۔ اسے معطل کرنا نہیں چاہتا ۔ وہ انسانی فطرت کی اصلاح اس طرح چاہتا ہے کہ وہ اسے بیدار کرتا ہے اور اسے اعتدال پر لاتا ہے ۔ یہ اس لئے کہ کسی دل میں ایمان اس وقت تک مکمل اور پورا نہیں ہوسکتا جب تک یہ شخص اسلام کے حوالے سے لوگوں کا مقابلہ نہیں کرتا۔ یہ جہاد وہ سب سے پہلے تبلیغ اور بیان کے ذریعہ کرے گا ۔ اس کے بعد وہ مجاہدہ ہاتھ سے کرے گا جب کہ مخالف اسلام قوت زبردستی راہ ہدایت کو مسدود کررہی ہے۔ اس سلسلے میں اس مومن پر ابتلا کا دور بھی آسکتا ہے جس میں اسے صبر سے کام لینا ہوگا ‘ تکالیف برداشت کرنا ہوں گی ‘ ہزیمت اٹھانی ہوگی اور اس پر صبر کرنا ہوگا۔ اگر فتح نصیب ہو تو سنجیدہ رہنا ہوگا۔ اس لئے کہ فتح کے وقت صبر اور سنجیدگی بہ نسبت شکست کے زیادہ مشکل ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ دل صاف ہوجائے ‘ صفوف کے اندر سے کچا عنصر چھٹ جائے ‘ جماعت اپنی صحیح راہ پر گامزن ہوجائے اور اپنی سیدھی راہ پر اوپر کی طرف چڑھتی جائے اور اس تمام سرگرمی میں متوکل علی اللہ ہو۔ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جب تک قلب مسلم ایمان کے معاملے میں لوگوں کے مقابلے میں مجاہدہ اور جہاد نہیں کرے گا ان کے دلوں میں حقیقت ایمان کا بیٹھنا نہایت ہی مشکل ہے ۔ اس لئے کہ لوگوں کے ساتھ مقابلہ اور مجاہدہ سے قبل اس نے اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کرلیا ہوگا۔ اور اس جہاد کے بعد اس کے سامنے ایمان کے وہ آفاق کھلیں گے جو اس کے سامنے کبھی نہیں کھل سکتے جب تک وہ بیٹھا ہواہو ‘ پرامن زندگی گزارنے کا عادی ہو اور ہر کسی کے ساتھ مسالمت کررہا ہو اور ہر حال میں نباہ رہا ہو۔ جب وہ جہاد شروع کرے گا تو اسے لوگوں کے اندر حقائق نظر آئیں گے ‘ زندگی کے اندر کچھ حقائق اس پر روشن ہوں گے جو ہرگز اس پر روشن نہیں ہوسکتے تھے جب تک وہ مجاہدہ فی سبیل اللہ نہیں شروع کرتا ۔ اس جہاد فی سبیل اللہ ہی کے نتیجے میں اس کا نفس ‘ اس کا شعور ‘ اس کے تصورات ‘ اس کی عادات ‘ اس کا مزاج ‘ اس کے تاثرات اور اس کی قوت قبولیت حق اس مقام تک پہنچ جائیں گے جہاں تک اس کے بغیر وہ ہرگز نہ پہنچ سکتا تھا۔ غرض جہاد کا یہ شاق اور تلخ تجربہ انسان کو کندن بنا دیتا ہے۔ اسی طرح کسی جماعت مسلمہ کے اندر بھی ایمان کی حقیقت اس وقت تک مکمل اور مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک وہ تجربہ ‘ امتحان اور ابتلا میں نہ پڑے ۔ اور جب تک اس کا ہر فرد اپنی قوت کی حقیقت سے واقف نہ ہو۔ جب تک اس فرد کو اپنے نصب العین کا پتہ نہ ہو ۔ اسی طرح اس جماعت کو بھی اپنی تمام اینٹوں کا پتہ نہ ہو جن سے وہ بنی ہے ۔ یوں کہ ہر اینٹ کس قدر بوجھ سہار سکتی ہے اور یہ کہ مشکل اور ٹکر کے وقت وہ اینٹیں ایک دوسرے کے ساتھ کس قدر پیوست ہیں ۔ یہ تھی وہ حکمت جس کو اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ کو سمجھانا چاہتے تھے ‘ اور یہ حکمت اس کو تربیت کے اس کورس میں اسے سمجھائی گئی جو میدان احد میں اسے دیا گیا۔ اور اس کے بعد پھر واقعات احد پر اس سورت میں جو تبصرہ کیا گیا ‘ اس میں بھی اسی حکمت کو اسے سمجھایا گیا۔ جبکہ ظاہری اسباب شکست کے بیان کے بعد اللہ نے فرمایا :” جو نقصان لڑائی کے دن تمہیں پہنچا وہ اللہ کے اذن سے تھا ‘ اور اس لئے تھا کہ اللہ دیکھ لے تم میں سے مومن کون ہیں اور منافق کون ہیں ۔ “ اور دوسری جگہ فرمایا ” اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم لوگ اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کرکے رہے گا ۔ “ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں اللہ کی حکمت اور تقدیر کی طرف حوالے کرتا ہے ‘ یعنی ان اسباب کی پشت پر جو تقدیر اور حکمت تھی ۔ چناچہ انہیں ایمان کی اس عظیم حقیقت اور سچائی کی طرف موڑتا ہے جو اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک وہ نفس انسانی کے اندر بیٹھ نہیں جاتی ۔ فرماتے :” اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے فریق مخالف کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ۔ تم پر یہ وقت اس لئے لایا گیا ہے کہ اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی راستی کے گواہ ہیں کیونکہ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔ اور وہ آزمائش کے ذریعہ مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کرنا چاہتا تھا۔ “ تو گویا یہ اب اللہ کی تقدیر ہے ‘ اس کی تدبیر ہے اور اس کی حکمت ہے ‘ جو ان اسباب کی پس پشت کام کررہی ہے ‘ ان واقعات کے پیچھے کام کررہی ہے ۔ اور ان تمام اشخاص اور ان کی تمام حرکات کے پیچھے حقیقی موثر ہے ۔ اور یہی اسلام کا کامل اور شامل اور جامع تصور ہے ۔ اور یہ تصور ان واقعات کے نتیجے میں انسانی ذہن میں بیٹھ جاتا ہے ۔ اور پھر ان واقعات پر جو تبصرہ کیا گیا ہے ‘ اس میں بھی اس کی طرف واضح اشارات موجود ہیں ۔ 2۔ اس معرکے کے واقعات اور ان تبصروں کے ذریعہ ایک دوسری حقیقت واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے ۔ یعنی نفس انسانی ‘ فطرت انسانی ‘ انسانی جدوجہد کے مزاج ‘ اور ان تمام امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان میں فریضہ اقامت دین کے حصول کے امکانات ……حقیقت یہ ہے کہ نفس انسانی کامل نہیں ہے اور یہ اپنی حقیقت واقعیہ کے اعتبار سے کامل نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ارتقاء اور ترقی کے اہل بھی ہے اور وہ اس میدان میں ترقی و کمال کی انتہاؤں کو چھوسکتا ہے ‘ جو انتہاء اور حد اس کے لئے مقرر کردی گئی ہے ۔ دیکھئے ہم انسانی جماعتوں میں سے ایک جماعت کا مطالعہ کرتے ہیں ‘ اور یہ جماعت اپنی حقیقی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ یہ جماعت گروہ صحابہ کی صورت میں ہے ‘ جس کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ……………(تم سب سے بہترین امت ہو ‘ جسے لوگوں کے لئے نکالا گیا ہے ) اور یہ خیر امت رسول اکرم ﷺ کے صحابہ تھے ۔ یہ تمام انسانیت کی روح اور زمین کا نمک تھے۔ لیکن اس جماعت صحابہ کا جو مطالعہ اس سورت میں پیش کیا گیا ہے ” تم میں سے جو لوگ مقابلے کے دن پیٹھ پھیر گئے ان کی لغزش کا سبب یہ ہے کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگادیئے تھے ۔ اللہ نے انہیں معاف کردیا۔ “ اور بعض دوسرے صحابہ کے بارے میں ہے ” مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور کام میں باہم اختلاف کیا ‘ اور جو نہی کہ وہ چیز تمہیں دکھائی دی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے تو تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کربیٹھے ۔ اس لئے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے ۔ “ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ……………” اور دراصل تمہاری اس لغزش کو اللہ نے معاف کردیا۔ “……انہی کے بارے میں قرآن کہتا ہے ” جب تم میں دوگروہوں نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ وہ کمزوری دکھائیں اور اللہ تو ان کا مددگار تھا ‘ اللہ ہی پر اہل ایمان کو توکل کرنا چاہئے ۔ “ انہی حضرات میں سے بعض لوگ شکست کھاتے ہیں اور وہ کھل کر سامنے آجاتے ہیں اور ان کی ہزیمت کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” یاد کرو جب تم بھاگے چلے جارہے تھے ‘ کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ہوش تمہیں نہ تھا۔ اور رسول تمہارے پیچھے تم کو پکار رہا تھا ۔ اس وقت تمہاری ‘ اس روش کا بدلہ اللہ نے تمہیں یہ دیا کہ تم کو رنج پر رنج دیئے تاکہ آئندہ کے لئے تمہیں یہ سبق ملے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے جائے یا جو مصیبت تم پر نازل ہو اس پر ملول نہ ہو۔ “ جنگ بدر کے شرکاء سب کے سب مومن اور مسلم تھے ۔ لیکن یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا ۔ اس وقت جماعت کی تربیت اور تشکیل ہورہی تھی ۔ لیکن وہ اسلامی نظریہ حیات اپنانے میں سنجیدہ اور سچے تھے ۔ انہوں نے اپنا تمام معاملہ اللہ کے سپرد کردیا تھا۔ اللہ کی راہنمائی پر راضی ہوگئے تھے ۔ انہوں نے اس نظام زندگی کے آگے سرتسلیم خم کرلیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے انہیں اپنے جوار رحمت سے دھتکار نہ دیا ۔ ان پر رحم فرمایا اور انہیں معاف کردیا ۔ اور رسول اللہ ﷺ کو بھی حکم دیا کہ وہ انہیں معاف کردیں ۔ اور ان کے لئے مغفرت طلب کریں ۔ اور اللہ نے رسول ﷺ کو یہ حکم بھی دیا کہ آپ ﷺ ان سے مشورہ بھی لازماً کریں ۔ باوجود اس کے کہ ان سے غلطیاں ہوئیں ‘ باوجود اس کے کہ مشورے کے نتیجے میں ‘ احد میں نقصان ہوا۔ اللہ نے انہیں اپنے معاملات اور تصرفات کے نتائج کا مزہ چکھنے دیا۔ اور انہیں ایسے سخت اور تلخ ابتلا میں ڈالا ۔ لیکن ان غلطیوں کے باوجود انہیں اسلامی صفوں سے باہر نکال کر نہیں پھینک دیا ۔ اور یہ حکم صادر نہیں کیا :” جاؤ تم اس کام کے لئے فٹ نہیں ہو ‘ کیونکہ تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ تم سے کمزوریاں سرزد ہوئیں اور تم نے غلطیاں کیں۔ “ بلکہ اسلام نے ان کی غلطیوں اور کمزوریوں کو قبول کرلیا ۔ اس ابتلا میں ڈال کر ان کی تربیت کی ۔ اس کے بعد ان کی غلطیوں پر مزید تبصرہ کرکے مزید تربیت کی ۔ اور اس کے بعد نصیحت کرکے اور ہدایات دے کر مزید تربیت کی ۔ اور یہ نصیحت اور یہ وعظ بھی نہایت ہی مشفقانہ انداز میں عفو و درگزر کے ساتھ کیا ۔ جس طرح ایک بزرگ اپنے بچوں کی تربیت کرتا ہے ۔ وہ آگ سے جلائے جاتے ہیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ آگ جلاتی ہے اور تاکہ وہ ہوشیار ہوجائیں ۔ اللہ نے ان کے ضعف کو ان پر آشکارا کیا اور ان کے دلوں کی خفیہ سوچوں سے بھی انہیں آگاہ کردیا ۔ اس لئے نہیں کہ انہیں شرمندہ کیا جائے ‘ یا ذلیل کیا جائے ‘ یا حقیر سمجھاجائے یا یہ کہ انہیں مجبور کیا جائے اور ان پر وہ بوجھ ڈالا جائے جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے ‘ بلکہ اس لئے کہ ان کے ہاتھ پکڑے جائیں ‘ انہیں ہدایت دی جائے ۔ ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی جائے اور وہ اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھیں اور کبھی بھی مایوس نہ ہوں جب تک وہ اللہ کی مضبوط رسی کو تھامے ہوئے ہیں ۔ اس تربیت کے بعد وہ اپنے اصل مقام پر آگئے ۔ اپنی آخری منزل تک پہنچ گئے اور ان کے اندر وہ رنگ پیدا ہوگیا جو احد کے معرکہ کے آغاز میں تھا ۔ آج ہزیمت اور چوٹ لگنے پر ایک ہی رات گزری ہے ۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تعاقب کے لئے نکل رہے ہیں ۔ آج نہ ان کے دل میں ڈر تھا نہ تردد تھا۔ آج وہ ڈرانے والوں کی باتوں کو خاطر ہی میں نہ لارہے تھے ‘ جو انہیں ان الفاظ میں ڈرا رہے تھے : الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ” جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف فوجیں جمع ہوئی ہیں ‘ ان سے ڈرو ۔ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ۔ “ اور اس کے بعد جب افراد جماعت بڑے اور بالغ ہوتے گئے تو ان کا معاملہ بھی بدلتا گیا اور ان کا محاسبہ اس طرح کیا جانے لگا جس طرح بڑے اور بالغ افراد کا کیا جاتا ہے ۔ لیکن ابتداء میں ان کی تربیت اسی طرح تھی جس طرح بچوں کی تربیت کی جاتی ہے ۔ جو شخص غزوہ تبوک کے حالات پڑھے گا (سورت برأت میں) چند افراد اس غزوے سے پیچھے رہ گئے تھے ۔ رسول ﷺ نے ان کا سخت محاسبہ کیا ۔ یہ بہت ہی سخت محاسبہ تھا ۔ اس سے احد اور تبوک کی پالیسی کے درمیان واضح فرق نظرآئے گا اس لئے کہ اب جماعت تربیتی لحاظ سے بہت ہی آگے جاچکی تھی ۔ لیکن جب یہی لوگ احد میں تھے ‘ تو ان سے نرمی کی گئی ۔ اس لئے کہ اب تبوک کے معاملے میں وہ تربیت کے آخری مرحلے میں تھے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ تھے تو انسان ۔ پھر بھی ان میں انسانی کمزوری تھی ‘ غلطی ہوگئی ‘ لیکن ان کے اندر غلطی کا اعتراف اور توبہ کا داعیہ موجود تھا ‘ آخرکار معافی ہوئی ۔ غرض اسلامی زندگی کے اندر انسان کی بششریت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اسے تبدیل نہیں کیا جاتا ‘ اسے معطل نہیں کیا جاتا اس پر اس قدر بوجھ نہیں ڈالا جاتا کہ اس کی طاقت سے باہر ہو۔ اگرچہ اسلامی نظام زندگی اسے اس دنیا میں اس مقام بلند تک پہنچاتا ہے جو اس کے لئے مقدر ہو۔ اسلام کا یہ طرز عمل اس نقطہ نظر سے بہت ہی اہم ہے کہ وہ انسان کو ہمیشہ امید کی کرن سے نوازتا ہے تاکہ وہ سعی برائے کمال جاری رکھے اور آگے بڑھے ۔ لیکن اسلامی نظام زندگی کے سایے میں ‘ یہ جماعت جس مقام بلند تک پہنچی وہ اس گرے ہوئے مقام سے اپنے سفر کا آغاز کرکے پہنچی جس میں وہ اس وقت پڑی تھی ‘ جب اسلام آیا راستے میں اس سے لغزشیں ہوتی رہیں ‘ اس لئے کہ راستہ دشوار گزار تھا ‘ اور وہ جماعت بہرحال ایک انسانی جماعت تھی اور ایک نہایت ہی پسماندہ سوسائٹی سے اٹھی تھی جو جاہلیت میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ ہر لحاظ سے پسماندہ تھی جب کہ ہم نے اس کے نمونے تشریح آیات کے وقت پیش کئے ۔ اسلام کی اس پالیسی کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانیت کو اس مقام بلندتک پہنچنے کی امید سے مالا مال کردیتا ہے ۔ اگرچہ کسی معاشرے کے موجودہ حالات بد سے بدتر ہوں ۔ پھر اس پسماندہ سوسائٹی سے امت کو اٹھاکر اسلام اس قدر ترقی دیتا ہے کہ اس کی مثال آج تک پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ ابھی تک اس مثال کو دہرایا نہیں جاسکا حالانکہ یہ کوئی معجزانہ انقلاب نہ تھا ‘ جواب ناقابل اعادہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا انقلاب تھا جو اسلامی زندگی کے تحت رونما ہوا ‘ جو انسانی جدوجہد کے نتیجے میں رونما ہوا۔ انسانی طاقت کے حدود کے اندر رونما ہوا ۔ آج بھی یہ انقلاب اسی انسانی طاقت کے بل بوتے پر برپا کیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ انقلاب ممکن ہے ۔ غرض اسلامی زندگی پر سوسائٹی کو وہاں لیتا ہے جہاں وہ موجود ہوتی ہے اور جہاں تک وہ مادی ترقی کرچکی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد وہ اسے مزید ترقی دیتا ہے جب کہ اس نے عربوں کی جاہلیت زدہ پسماندہ سوسائٹی کے ساتھ کیا جو نہایت ہی ابتدائی مدارج پہ تھی ۔ نہایت گری ہوئی اور اس سوسائٹی کو اسلام نے نہایت ہی ایک مختصر عرصے میں جو ربع صدی سے بھی کم تھا ‘ اوج کمال تک پہنچایا۔ لیکن اس کے لئے واحد شرط ضروری ہے ۔ وہ یہ کہ کوئی انسانی سوسائٹی اپنی نکیل اس نظام کے ہاتھ میں دے دے ۔ اس پر ایمان لائے ‘ اس کے آگے سرتسلیم خم کردے ۔ وہ اسے اصول حیات بنادے ‘ وہ اسے اپنی تحریک کا شعار بنادے ‘ اور اس طویل اور دشوار گزار سفر میں اس کے ساتھ ہم قدم ہوجائے ۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)
Top