Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاخْتِلَافِ : اور آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّھَارِ : اور دن لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
زمین وآسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری آنے میں ان ہوشمندلوگوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں
درس نمبر 29 ایک نظر میں یہ سورت جس قدر سبقوں اور دروس پر مشتمل تھی یہ ان میں سے آخری درس ہے ۔ اس سورت میں اسلامی تصور حیات کے اساسی عناصر میں اہم عناصر کی ایک بڑی تعداد کا ذکر ہوا ہے ۔ اور ان عناصر کو ہر قسم کے اجمال ‘ اشتباہ اور اہل کتاب کے ساتھ مجادلوں اور مشرکین کے ساتھ مباحثے کرکے ان اساسی عناصر کو منقطع کیا گیا ہے۔ اس پوری سورت میں اسلامی نظام زندگی کی نوعیت اور جان ومال کے حوالے سے اس کے تقاضوں کا بیان ہوا ہے ۔ جماعت مسلمہ کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ان فرائض کو کس طرح ادا کرے گی ۔ اور مشکل حالات کے ابتلا میں اس کا رویہ کیا ہوگا اور خوشحالی کے حالات میں وہ ابتلا سے کس طرح عہدہ برآہوگی اور وہ اسلامی نظریہ حیات اور اس کے عظیم فرائض اور ڈیوٹیوں کو کس طرح سرانجام دے گی ‘ جو نفس کے حوالے سے بھی ہیں اور مال کے حوالے سے بھی ہیں ۔ یہی وہ مضامین تھے جو اس پوری سورت کا محور تھے اور جنہیں ہم نے پارہ سوئم اور چہارم کی تفسیر فی ظلال القرآن میں بیان کیا۔ اب یہ آخری درس ایک طرح کی آخری ضرب یا ضربات ہیں ۔ یہ آخری ضربات اس سورت میں موضوع کے ساتھ نہایت ہی متناسب ہیں ۔ اور یہ آخری ضرب بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے اور طرز ادا کے اعتبار سے سابقہ ضربات سے بالکل ہم آہنگ ہے ۔ اس کے اندر ایک نہایت ہی گہری حقیقت کا بیان ہوا ہے ۔ یہ کہ یہ کائنات ایک کھلی کتاب ہے ۔ اس کے اندر ایمان ویقین کے بیشمار دلائل اور علامات موجود ہیں ۔ اس کائنات سے اس ذات کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے جو اسے بڑی حکمت کے ساتھ چلارہی ہے ۔ اس سے اظہارہوتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی سے وراء ایک اخروی زندگی ہے ۔ اس زندگی کا حساب و کتاب اور مکافات عمل وہاں ہوگا ۔ ان دلائل کو کون پڑھ سکتا ہے ‘ اس آیات واشارات کو کون پاسکتا ہے ‘ اس حکمت کا ادراک کون کرسکتا ہے ؟ اور اس کائنات کی آواز کون سن سکتا ہے ؟ یہ صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جو اولوالالباب ہیں ‘ جو اصحاب دانش وبنیش ہیں ۔ وہ لوگ جو اس کتاب مفتوح پر سے یونہی نہیں گزرجاتے اور وہ ان ظاہر و باہر آیات اور نشانیوں سے آنکھیں بند نہیں کرلیتے ۔ یہ حقیقت اس کائنات کے حوالے سے اسلامی تصور حیات کے اساسی عناصر میں سے ایک عنصر ہے ۔ اور اس کے اور انسانی فطرت کے درمیان ایک عمیق ربط ہے ۔ اور فطرت انسانی اور فطرت کائنات کے درمیان گہری داخلی مفاہمت اور ہم آہنگی ہے ۔ یہ کائنات ایک جہت سے اپنے خالق کے وجود پر دلالت کرتی ہے ۔ اور دوسری جہت سے اس سے وہ ناموس اکبر معلوم ہوتا ہے ۔ جو مقصدیت ‘ گہری حکمت اور قصد و ارادے آپ کے حوالے سے اس کائنات کے اندرکارفرما ہے ۔ اور اس کا روح رواں ہے ۔ اور اس ناموس اکبر کا فہم و ادراک اس نقطہ نظر سے بہت ہی اہم ہے کہ اس کائنات ‘ اس کے خالق الٰہ العالمین کے بارے میں انسان کیا موقف اختیار کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کائنات اس موجودہ دنیا کے بارے میں اسلامی افکار کا اہم خزانہ اور منبع ہے ۔ اس کے بعد اس درس میں ‘ صاحبان عقل و دانش اور عالمان علم کائنات کی اس خشوع دعا کی قبولیت کا ذکر ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کائنات کی اس کتاب مفتوح کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں اور یہ کائنات جن دلائل کو پیش کرتی ہے یہ ان پر غور کرتے ہیں ۔ اور یہ کائنات جو مقاصد بتاتی ہے ۔ یہ اس پر بھی تامل کرتے ہیں ۔ اور دعا کی قبولیت کے ساتھ ساتھ ہدایات کیا دی جاتی ہیں ؟ یہ کہ عمل پیہم ‘ جہاد مسلسل ‘ صبر و محبت اور ایمان تقاضوں کی بجاآوری ہی دراصل وہ تحفے ہیں جو ان لوگوں کو ملتے ہیں ۔ جو اس کائنات کی کتاب مفتوح کو اللہ ترسی کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ اور پھر آخر میں اہل کفر کی پوزیشن کو حقیر بنایا گیا ہے ۔ اگرچہ ان کے پاس اس دنیا کا سازوسامان زیادہ ہے۔ یہ کچھ بھی نہیں ہے ‘ اصل دولت تو وہ ہے جو آخرت میں ملے گی مومنین کو اس کی بات کرنی چاہئے۔ اس سورت میں اہل کتاب اور مسلمانوں کے خلاف ان کے موقف کے بارے میں تفصیلی بات کی گئی تھی ۔ اس آخری سبق میں اہل کتاب میں سے بعض اچھے لوگوں کا ذکر بھی کردیا گیا ہے ۔ اور آخرت میں ان کی جزا اور صفت خشوع کا ذکر خصوصی طور پر کیا گیا۔ اس نسبت سے کہ اہل ایمان میں سے ان لوگوں کا ذکر کیا گیا تھا جو اس کائنات کی کتاب مفتوح کا مطالعہ کرتے تھے اور ان کے اندر بھی صفت خشوع اور انابت سے دعا کی تھی ۔ اور انہوں نے اس امر کو نہایت ہی شرمناک سمجھا کہ اللہ کی آیات کو معمولی دام کے عوض فروخت کیا جائے ۔ جیسا کہ بعض اہل کتاب یہ کام کرتے تھے اور جن کا ذکر اس سورت میں ہوچکا ہے ۔ اس کے بعد پوری سورت کا خاتمہ آتا ہے اور اس میں اس پوری سورت کی ہدایت کا خلاصہ دیا گیا ہے ۔ اور جماعت مسلمہ کو یہ کہا گیا ہے کہ یہ ان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ یہ ان کے فرائض اور پروگرام کا خلاصہ ہے ۔ اور اسی میں ان کی فلاح مضمر ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ” اے ایمان والو ! صبر سے کام لو ‘ پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ ‘ حق کی خدمت کے لئے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘ امید ہے فلاح پاؤگے۔ “
Top