Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 191
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا١ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَذْكُرُوْنَ
: یاد کرتے ہیں
اللّٰهَ
: اللہ
قِيٰمًا
: کھڑے
وَّقُعُوْدًا
: اور بیٹھے
وَّعَلٰي
: اور پر
جُنُوْبِھِمْ
: اپنی کروٹیں
وَيَتَفَكَّرُوْنَ
: اور وہ غور کرتے ہیں
فِيْ خَلْقِ
: پیدائش میں
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
مَا
: نہیں
خَلَقْتَ
: تونے پیدا کیا
هٰذَا
: یہ
بَاطِلًا
: بےفائدہ
سُبْحٰنَكَ
: تو پاک ہے
فَقِنَا
: تو ہمیں بچا لے
عَذَابَ
: عذاب
النَّارِ
: آگ (دوزخ)
جو اٹھتے ‘ بیٹھتے اور لیٹتے ‘ ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی ساخت میں غور وفکر کرتے ہیں ۔ (وہ بےاختیار بول اٹھتے ہیں۔ ) پروردگار ! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بےمقصد نہیں بنایا ہے ۔ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے ۔ پس اے رب ‘ ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے
زمین و آسمان کی تخلیق میں ‘ اور رات اور دن کی گردش میں وہ کیا آیات اور نشانیاں ہیں ‘ اور جب یہ اولوالالباب آسمان اور زمین میں تفکر کرتے ہیں تو وہ کیا نشانیاں ہیں ؟ جب وہ رات اور ان کی گردش میں غور کرتے ہیں تو انہیں کیا نظر آتا ہے ؟ جبکہ پھر وہ اللہ کو یاد کرنے لگتے ہیں کھڑے ہوکر بھی ‘ بیٹھ کر بھی اور کروٹ لیتے ہوئے بھی ۔ اور پھر سوال یہ ہے کہ ان کے نتیجہ فکر کا تعلق اللہ کے ذکر کے ساتھ کیسے مربوط ہوجاتا ہے کہ وہ فوراً کھڑے ‘ بیٹھے اور کروٹ لیتے اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔ اور پھر وہ اس ذکر کو اس پر خشوع و خضوع اور پر سوز دعا پر کیسے ختم کرتے ہیں ؟ وہ کہتے ہیں ۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ……………(پروردگار ! یہ سب کچھ تونے فضول اور بےمقصد نہیں بنایا تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب ہمیں دوزخ کی آگ سے بچالے۔ ) قرآن کریم یہاں ان لوگوں کی ایک زندہ اور متحرک تصویر کشی کرتا ہے جو اس کائنات کے اندر صحت مند غور کرتے ہیں اور ان کو اس کائنات کے مثرات کا ادراک ہوتا ہے ۔ اور وہ پھر ان مدرکات اور موثرات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘ اور ان کی آنکھوں کے سامنے رات دن اس پوری کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کی طرف لبیک کہتے ہیں ۔ قرآن کریم انسانی فکر ونظر میں باربار دعوت نظارہ دیتا ہے اور بڑی تاکید سے حکم دیتا ہے کہ وہ اس کھلی کتاب کا مطالعہ کریں ۔ جس کے صفحات رات اور دن خود الٹتے پلٹتے رہتے ہیں ۔ ہر صفحے پر صانع قدرت کے نشانات میں سے ایک نشان نظر آتا ہے ۔ اور وہ فطعرت سلیمہ کے اندر ایک ایسی سچائی کے پہچاننے کا بےحد جوش پیدا کردیتا ہے ‘ جو سچائی اس کتاب کے صفحات کے اندر جمی ہوئی ہے ۔ اس کائنات کی اساس میں وہ سچائی موجود ہے ۔ اس کائنات کے خالق کے مطالبات کے تسلیم کرنے کی طرف یہ سچائی مائل کرتی ہے ۔ اور جس خالق نے اس کائنات میں یہ ناموس ودیعت کیا ہے ۔ اس کی طرف رجوع کی دعوت دی جاتی ہے ۔ دل میں خالق کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے ‘ اس کے ساتھ ساتھ اس کا خوف اور خشیت بھی پیدا ہوتی ہے …………پھر یہ اولوالالباب کون لوگ ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو صحیح الفکر ہیں ۔ جو آنکھیں کھول کر کتاب کائنات کی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ وہ آنکھوں پر پردے نہیں ڈالتے ۔ وہ اپنے غور وفکر اور تدبر کے دریچے بند نہیں کرتے ۔ اور اس طرح وہ اپنے دل کے حوالے سے ‘ اپنے قیام میں ‘ اپنے قعود میں اور کروٹ لیتے ہوئے اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ یوں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کے ذرائع ادراک کھل جاتے ہیں اور وہ اس ناموس اکبر اور حقیقت کائنات کا ادراک کرلیتے ہیں جو اللہ نے اس کائنات میں ودیعت کی ہے ۔ وہ اس کائنات کے مقصد وجود کو پالیتے ہیں ۔ اس ایجاد کرنے کے اصل اسباب ان کے علم میں آجاتے ہیں اور وہ کائنات کے فطرت کے اجزائے ترکیبی اور نظام قیام سے واقف ہوتے ہیں ۔ یہ تمام راز وہ اس الہام کے ذریعہ پاتے ہیں جو فطرت کے ان نوامیس اور انسانی دل کے درمیان رابطے کے ذریعے ہوتا ہے۔ زمین و آسمان کا مشہد ‘ رات اور دن کی تبدیلی کا منظر اور سیاروں کی گردش کے مناظر ایسے مناظر ہیں کہ اگر ہم اپنی آنکھیں کھول کردیکھیں ‘ ہمارے دل کام کررہے ہوں اور ہمارا ادراک اچھی طرح کام کرتا ہو اور ان کو اس نظر سے دیکھیں جس طرح ایک انسان کسی مشہد اور منظر کو پہلی مرتبہ دیکھتا ہے اور اگر ہم اپنے احساس سے ان مناظر کے عادی ہونے کے تصور کو دور کردیں ‘ اور اس تکرار کے اثرات سے اپنی حس کو پاک کردیں تو ہمارے احساس کے لئے یہ قابل ارتعاش ہوں ‘ ہمارے شعور کے اندر زلزلہ آجائے اور ہمیں اچھی طرح احساس ہوجائے کہ اس نظام کے اندر جس قدر دقت نظر سے ہم آہنگی پیدا کی گئی ہے وہ کسی حکیمانہ ہاتھ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس نظام کے پیچھے ایک مدبر عقل کام کررہی ہے ۔ اس نظام کے پیچھے ایک ناموس کام کررہا ہے ۔ جس کی خلاف ورزی ممکن نہیں ہے ۔ اور یہ سب کچھ دھوکہ اور فریب نہیں ہوسکتا ۔ نہ یہ کوئی بخت واتفاق ہوسکتا ہے اور نہ یہ نظام محض فریب نظر ہوسکتا ہے۔ اور یہ بات بھی ہمارے شعور کے لئے کوئی کم زلزلہ خیز نہیں ہے کہ یہ زمین سورج کے اردگرد اور اپنے محور پر گردش کررہی ہے ۔ اور اس سے رات اور دن کے دومناظر پیدا ہورہے ہیں ۔ یہ کہ ان اجرام فلکی کے اندر کشش کام آرہی ہے ۔ اور اس نے ہر ایک جرم کو اپنی جگہ ٹھہرایا ہوا ہے ۔ یا کوئی اور نظام ہے ۔ یہ تو ہمارے مقرر کردہ اصول موضوعہ میں کبھی درست ہوں گے کبھی غلط ہوں گے ۔ جو صورت بھی ہو لیکن ہر صورت میں کائنات کا یہ عجوبہ ‘ عجوبہ ہی رہتا ہے ۔ اور نظر آتا ہے کہ ایک عظیم نظام ہے جس نے ان دیوہیکل سیاروں اور اجرام کو تھام رکھا ہے ۔ نہایت دقت سے ‘ نہ ٹوٹتے ہیں نہ باہم متصادم ہوتے ہیں ‘ بنی نوع انسان میں ماہرین فلکیات چاہے اس کا جو بھی نام رکھیں ‘ بہرحال یہ نظام قدرت کا نشان ہے ‘ یہ سچائی کی برہان ہے ‘ اور سچائی گردش ایام اور دوران فلک سے عیاں ہے۔ قرآن کریم نے یہاں جو صاف منظر کشی کی ہے ‘ اسی میں آسمانوں اور اجرام فلکی کی گردش اور رات اور دن کے پیہم تبدیلی کے مناظر اولوالالباب اور صاحبان عقل و دانش کے شعور اور فکر پر جو اثرات چھوڑتے ہیں ‘ ان اثرات کے ایک ایک جزء کو بڑی دقت کے ساتھ قلم بند کردیا ہے ۔ یہ ایک قسم کی اثر انگیز تصویر ہے ۔ اسے دیکھ کر دل اس کائنات کے ساتھ باہم معاملہ کرتے وقت بہت ہی صحیح نظام اور طریقہ کا اختیار کرتا ہے ۔ یہ مناظر اپنی زبان میں بات کرتے ہیں اور یہ دل کائنات کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرتے ہیں ‘ اس کی حقیقت کے یکجا ہوجاتے ہیں ۔ اور کائنات کے اشارات اور اثرات کو قبول کرتے ہیں ۔ اس طرح کائنات کی یہ کتاب ایک مومن اور واصل باللہ انسان کے لئے کتاب علم ومعرفت بن جاتی ہے ۔ جسے اللہ نے تصنیف کیا ہے ۔ اس مطالعہ کائنات کا انسانی شعور پر پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی یاد اور اس کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ جو لوگ مطالعہ کرتے ہیں وہ کھڑے ہوکر ‘ بیٹھتے ہوئے اور کروٹ بدلتے ہوئے ہی اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔ جبکہ وہ زمین اور آسمانوں کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور جبکہ وہ رات اور دن کے اختلاف کا مطالعہ بھی کررہے ہوتے ہیں ۔ یہ غوروفکر پھر عبادت بن جاتے ہیں ۔ اور یوں یہ مشاہدات مشاہدات ذکر الٰہی بن جاتے ہیں ۔ اس طرح ‘ اس تصور انسان اور تصور کائنات کے مطابق دوحقائق ثابت ہوجاتے ہیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی تخلیق میں تدبر اور مشاہدہ کرنا اور اللہ کی اس کھلی کتاب کا مطالعہ کرنا اور اللہ کے تخلیقی ہاتھ کا مطالعہ کرنا بھی حرکت کائنات کا مطالعہ اور اس کائنات کے صفحات کو الٹنا پلٹنا ‘ درحقیقت اصلی اور بنیادی عبادت ہے ۔ اور یہ ایک ذکر الٰہی ہے جو نہایت ہی حقیقی ذکر الٰہی ہے ۔ اگر کائناتی علوم ‘ جن میں اس کائنات کی تنظیم اور تشکیل سے بحث ہوتی ہے ۔ اور اس کائنات کے اندر جاری وساری نوامیس وسنن کا مطالعہ اور ان قوتوں اور ذخائر کا مطالعہ جو اس کائنات کے اندر جمع شدہ ہیں اور اس کائنات کے اسرار و رموز کے علوم کو اگر اس کائنات کے خالق کے ذکر اور اس کی یاد کے ساتھ یکجا کردیا جائے اور اس مطالعے سے اللہ کی جلالت قدر کا شعور پیدا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا احساس اجاگر کیا جائے تو یہ تمام عمل اس کائنات کے خالق کی عبادت بن جاتا ہے ۔ اور نماز کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ اور ان علوم کے ذریعہ زندگی درست ہوکر راہ مستقیم پر استوار ہوسکتی ہے ۔ پوری انسانی آبادی اللہ کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے مادی اور کافرانہ رجحان نے اس کائنات اور خالق کائنات کے درمیان تصوراتی بعد پیدا کردیا ہے ۔ انہوں نے تکوینی قوانین اور ازلی ابدی حقیقت کے درمیان تضاد پیدا کردیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ علم جو انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کا خوبصورت ترین تحفہ تھا وہ خود انسان کے لئے ایک ایسی لعنت بن گیا ہے۔ جو انسان کا پیچھا کررہا ہے ۔ اور انسان کی زندگی کو جہنم میں تبدیل کررہا ہے ۔ اس کی زندگی قلق ‘ روحانی خلا ‘ اور عدم اطمینان کی صورت میں اس طرح بسر ہورہی ہے جس طرح انسان کا ایک قہار وجبار بھوت پیچھا کررہا ہے۔ اور دوسری حقیقت یہ ہے اس کائنات میں جو آیات الٰہی ہیں ‘ وہ اپنی الہامی صورت میں اسی شخص پر ظاہر ہوتی ہیں جس کا دل ذکر الٰہی اور عبادت الٰہیہ میں مشغول ہو ۔ اور جو لوگ اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوکر ‘ بیٹھ کر اور کروٹ لیتے ہوئے ‘ درحقیقت وہی لوگ ہیں جو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور رات اور دن کے پیہم آنے پر غور وفکر کرتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن پر عظیم حقائق کھلتے ہیں ۔ جو آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کے اندر اور اختلاف لیل ونہار کے نظام میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ ان رازوں کے رازدان ہونے والے ہی پھر اسلامی زندگی تک پہنچتے ہیں جو نجات اخروی ‘ فلاح دنیوی اور خیر وصلاح کا ضامن ہے ۔ رہے وہ لوگ جو صرف ظاہری دنیا کی زندگی ہی پر بس کرتے ہیں اور وہ اس کائنات کی بعض تکوینی چیزوں کو دریافت کرلیتے ہیں اور ان لوگوں کا کوئی ربط اسلامی نظام حیات سے نہیں ہوتا تو یہ لوگ تو پوری زندگی کی بربادی کی فکر کرتے ہیں ۔ وہ اپنی زندگی کو شکست وریخت سے دوچار کرتے ہیں اور ان تکوینی اسرار و رموز کو بربادی کے لئے استعمال میں لاتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنی زندگی کو ایک ناقابل برداشت جہنم بنا رہے ہیں ‘ وہ زندگی کے ایسے قلق سے دوچار کرتے ہیں جس میں سانس گھٹتی ہے ۔ اور آخرت میں وہ اللہ کے غضب اور اس کے عذاب کی طرف لوٹیں گے ۔ غرض یہ دونوں حقائق ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں ‘ ان دونوں کو اس سورت نے موضوع بحث بنایا ‘ جو اصحاب دانش کے لئے ان کے مطالعہ کائنات کے وقت اور تعلق باللہ کے قیام کی خاطر یہاں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور یہ ذکر وفکر کا وہ وقت ہوتا ہے ‘ جس میں دلی صفائی حاصل ہوتی ہے ‘ روح شفاف ہوجاتی ہے اور ادراک کے دروازے کھلتے ہیں ‘ ہدایت اخذ کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ہے ‘ اور اس میں انسان قبولیت ‘ تاثر اور اخذ کے لئے تیار ہوتا ہے۔ مطالعہ کائنات کا یہ وقت عبادت الٰہی کا وقت ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے یہ اللہ کی جانب سے استقبال اور بندے کی جانب سے اتصال کا وقت ہوتا ہے ۔ اس لئے اس وقت ادراک کائنات اور آیات کونیہ کی استعداد بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ اس وقت اس کائنات میں محض غور وفکر اور اس کے نظام گردش لیل ونہار اور نظام ارض وسما ہی انسان کے ذہن میں القا کرتا ہے کہ اس کائنات کے اندر ایک عظیم حقیقت پوشیدہ ہے اور یہ کہ یہ کائنات عبث نہیں ہے ۔ نہ یہ محض فریب نظر ہے ‘ یہی وقت اللہ کے ساتھ وصال کا وقت ہوتا ہے۔ اور براہ راست معرفت الٰہی کا رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا سُبْحَانَكَ……………” پروردگار ! یہ سب کچھ تونے فضول اور بےمقصد نہیں بنایا ‘ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے ۔ “ تونے اس کائنات کو فضول پیدا نہیں کیا ۔ بلکہ اس کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ حق ہو ‘ سچائی اس کے قیام کا سامان ہو ‘ سچائی اس کا قانون ہو ‘ سچائی میں اصل ہو۔ سچ یہ ہے کہ اس کائنات کی ایک حقیقت ہے وہ ” عدم “ نہیں ہے جس طرح بعض فلسفے یہ کہتے ہیں کہ یہ عدم محض ہے۔ یہ حقیقت ہونے کے بعد ایک ناموس کے مطابق چلتی ہے لہٰذا یہ انارکی کے مطابق نہیں چل رہی ہے ۔ وہ ایک مقصد کی طرف بڑھ رہی ہے اس لئے وہ بخت واتفاق کے مطابق نہیں چلتی ۔ غرض وہ اپنے وجود ‘ اپنی حرکت اور اپنے مقاصد کے حوالے سے ایک عظیم سچائی کے کنٹرول میں چلتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ کوئی باطل ملاوٹ نہیں کرسکتا۔ یہ پہلا ڈچ ہے ‘ جو اصحاب علم و دانش کے دلوں کو اس وقت دیا جاتا ہے ہے جب وہ نظام تخلیق ارض وسما اور نظام گردش لیل ونہار پر غور کرتے ہیں اور اس ڈچ سے انہیں عبادت الٰہی ‘ ذکر الٰہی اور اتصال ذات کا احساس دلایا جاتا ہے ۔ اس ڈچ سے ان کے پردہ احساس پر حقیقی سچائی کا ایک نقش پڑجاتا ہے جو اس کائنات کی نقشہ سازی میں کارفرما ہے ۔ جب یہ اصحاب دانش اس سچائی تک پہنچ جاتے ہیں تو معاً وہ اللہ کی تسبیح اور تنزیہہ کرنے لگتے ہیں اور ان کی اس تاویل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا…………… ” اے ہمارے رب ‘ تونے اس کائنات کو عبث نہیں پیدا کیا ۔ “ اس کے بعد یہ نفسیاتی سوچ ذرا اور آگے بڑھتی ہے ۔ کچھ مزید تکوینی احساسات اور الہامات سامنے آتے ہیں فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (191) رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ……………” ہمیں دوزخ کی آگ سے بچالے ‘ تونے جسے دوزخ میں ڈالاا سے درحقیقت بڑی ذلت اور رسوائی میں ڈال دیا ۔ اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ “………سوال یہ ہے کہ زمین و آسمان کے اندر جو سچائی ہے اور اختلاف گردش لیل ونہار کے اندر جو سچائی ہے ‘ اس کے ادراک اور اس دعائیہ ارتعاش شعور کے درمیان کیا منطقی ربط ہے ‘ کہ صاحب ادراک نہایت ہی اللہ ترسی ‘ نہایت ہی عاجزی اور نہایت ہی یکسوئی سے دعا کرنے لگتا ہے ؟ جب اصحاب دانش اس سچائی کا ادراک کرلیتے ہیں ‘ جو اس کائنات کی تہہ میں کام کرتی ہے تو ان کے نزدیک اس ادراک کا مفہوم یہ ہوتا کہ اس کائنات کے اندر ایک تقدیر ہے ‘ ایک تدبیر ہے ‘ اس کے اندر ایک حکمت کام کررہی ہے اور اس کا ایک مقصد تخلیق ہے ۔ یہ کہ لوگوں کی زندگی کے پس پشت ‘ ان ستاروں میں ایک سچائی اور عدل کام کررہا ہے ۔ اس لئے لوگ یہاں جو کچھ اعمال وافعال کرتے ہیں ‘ ان کا کسی دن حساب و کتاب ضروری ہے ۔ مکافات عمل ہونا چاہئے ‘ اور مکافات عمل کی بنیاد پر عدالت اور انصاف کے لئے لازماً ایک دوسراجہاں ہونا چاہئے ۔ جس میں سچائی ‘ عدل اور جزاوسزا متحقق ہو۔ غرض اصحاب دانش کی دعا کے اندر جو حقائق سامنے آئے وہ فطرت کی بدیہی منطق ہے۔ جس کی کڑیاں اس طرح سرعت کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتی چلی جاتی ہیں ۔ اور ان کا شعور ایک ہی جمپ میں آگ اور جہنم کا شعور حاصل کرلیتا ہے۔ اور معاً دست بدعا ہوتے ہیں کہ اللہ ! ہمیں اس سے بچا ‘ یہ وہ پہلی بات ہوتی ہے جوان کے دلوں میں آتی ہے ۔ اور یہ آمد اس ادراک کا منطقی نتیجہ ہے جو اس کائنات کے اندر پنہاں سچائی کے حوالے سے وہ کرلیتے ہیں ۔ کیفیت کے اعتبار سے یہ دعا نہایت ہی طویل ‘ خشوع و خضوع سے پر ‘ نہایت ہی مضطرب دل کے ساتھ نہایت ہی کانپتے ہوئے جسم کے ساتھ اور پوری یکسوئی کے ساتھ ‘ دل مومن سے اٹھتی ہے اور الفاظ کے اعتبار سے وہ ایک میٹھانغمہ ہے ۔ جس کی ضربات ہم آہنگ اور نغموں کی پرسوز حرارت اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ خوبصورت الفاظ میں ہے۔
Top