Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 62
اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ١ۚ وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَھُوَ : یہی الْقَصَصُ : بیان الْحَقُّ : سچا وَمَا : اور نہیں مِنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود اِلَّا اللّٰهُ : اللہ کے سوا وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَھُوَ : وہی الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
یہ بالکل صحیح واقعات ہیں ‘ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ اور وہ اللہ ہی کی ہستی ہے جس کی طاقت سب سے بالا اور جس کی حکمت نظام عالم میں کارفرما ہے ۔
ان آیات میں جن حقائق کا بیان ہوا اس سے قبل ان کا بیان ہوگیا ہے۔ یہاں دعوت مباہلہ اور وفد کی جانب سے اس کے انکار کے بعد بطور تاکید دوبارہ ذکر کیا جاتا ہے ۔ اس آیت میں البتہ نئی بات یہ ہے کہ جو اس سچائی کو قبول نہیں کرتے وہ درحقیقت مفسد ہیں اور خبردار کیا جاتا ہے کہ تم اللہ سے پوشیدہ نہیں ہو ‘ وہ انداز قد سے پہچانتا ہے۔ اور وہ فساد جو منکرین توحید ‘ توحید کا انکار کرکے پھیلاتے تھے وہ اللہ کے نزدیک ایک عظیم فساد تھا ۔ اور دنیا میں جس قدر فسادات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں وہ سب کے سب عقیدہ توحید سے انحراف کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور عقیدہ توحید کا اعتراف بھی محض زبانی اعتراف کافی نہیں ہے۔ اس لئے کہ محض زبانی اعتراف کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی ۔ نہ ہی ایسا دینی اعتراف جو خالص منفی اعتراف ہو ‘ اس لئے کہ محض قلبی اور زبانی اعتراف کے نتیجے میں وہ آثار ظاہر نہیں ہوتے جو انسانوں کی عملی زندگی میں نمودار ہونے ضروری ہیں ۔ دراصل دنیا نے عقیدہ توحید کے لازمی آثار ونتائج سے انکار کردیا ہے اور انسانی زندگی کے عقیدہ توحید کے آثار کو ختم کردیا ہے ۔ عقیدہ توحید کا پہلا لازمہ تو یہ ہے کہ ہمارا رب بھی ایک ہو ‘ پھر اس رب کی غلامی اور بندگی بھی ایک ہو ‘ اس لئے کہ بندگی صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے پھر اسی ایک رب کی اطاعت ہو ‘ پھر تمام ہدایات بھی اسی ایک رب سے اخذ کی جائیں یعنی اس کے سوا عبودیت نہ ہو ۔ اللہ کے سوا اطاعت نہ ہو اور اللہ کے سوا کوئی مرجع ہدایت نہ ہو ۔ ہدایات چاہے قانون سازی میں ہوں ‘ چاہے اقدار حیات اور فلسفہ حیات میں ہوں ‘ چاہے اخلاق وآداب میں ہوں ‘ غرض ان تمام امور میں جو اس کرہ ارض پر حیات انسانی سے تعلق رکھتے ہیں صرف اللہ سے ہدایت لی جائیں …………اگر ایسی صورت حال نہیں تو پھر شرک اور کفر کے سوا کوئی بات نہیں ہے ۔ چاہے زبان سے جو کچھ کہتے جائیں ۔ چ ہے قلب شعور میں مجرد عقائد جو بھی ہوں ۔ الا یہ کہ لوگوں کی روز مرہ زندگی میں ‘ تسلیم ورضا ‘ اطاعت و فرمانبرداری ‘ امر ونہی کی قبولیت کی فضا قائم ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس پوری کائنات کا نظام اس وقت تک درست طور پر چل ہی نہیں سکتا جب تک یہ تسلیم نہ کرلیاجائے کہ اس کا اللہ ایک ہی ہے ۔ جو اس کے تمام معاملات کی تدبیر اور انتظام کرتا ہے ۔ وَلَوکَانَ فِیھِمَا اٰلِھَةٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا……………” اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا کئی الٰہ ہوتے تو وہ بگڑجاتے ۔ “ اور انسان کے حوالے سے اللہ کی خدائی کا ممتاز ترین مظہر یہ ہے کہ تمام بندے اس کی بندگی کریں ۔ اور اللہ ان کے لئے نظام حیات تجویز کرے ‘ ان کے لئے حسن وقبح کے پیمانے وضع کرے ۔ لہٰذا جو شخص بھی یہ دعویٰ کرے کہ ان اشیاء میں سے کوئی چیز بھی اس کے لئے ہے ۔ تو وہ گویا اللہ تعالیٰ کے مخصوص ترین حقوق پر دست درازی کرتا ہے اور اس معنی میں آپ کو لوگوں کے الٰہ اور رب قرار دیتا ہے۔ اور اس معنی میں جب اس کرہ ارض پر بہت سے الٰہ پیدا ہوجاتے ہیں تو پھر اللہ کی یہ زمین فتنہ و فساد سے بھر جاتی ہے ۔ اور لوگ پھر لوگوں کی بندگی اور غلامی شروع کردیتے ۔ اس کے بعد پھر بندوں میں سے بعض بندے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ دوسرے لوگ ان کی ذاتی اطاعت کریں ۔ اور یہ کہ انہیں بذات خود لوگوں کے لئے قانون بنانے کا حق حاصل ہے ۔ اور یہ کہ وہ لوگوں کے بھلے برے کا فیصلہ از خود کرسکتا ہے ۔ یہ تمام دعوے دراصل الوہیت کے دعوے ہیں ۔ اگر ایسے لوگ فرعون کی طرح زبانی طور پر یہ نہ کہیں ۔ اَنَا رَبُّکُمُ الاَعلٰی……………” میں تمہارا بڑ ارب ہوں۔ “ اس لئے ایسے لوگوں کے لئے ایسے حقوق کا اقرار کرنا شرک اور کفر کا اقرار کرنا ہے ۔ اور یہ دنیا میں بدترین فتنہ اور فساد ہے۔
Top