Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 71
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَلْبِسُوْنَ : تم ملاتے ہو الْحَقَّ : سچ بِالْبَاطِلِ : جھوٹ وَتَكْتُمُوْنَ : اور تم چھپاتے ہو الْحَقَّ : حق وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ھو
اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو ؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو ؟
اس مقام پر اللہ تعالیٰ اہل کتاب کو سختی سے جھنجھوڑتا ہے کہ وہ اپنے اس مشکوک اور کمزور موقف پر ذرا نظر ثانی کریں۔ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ” اے اہل کتاب ! کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود ان کا مشاہدہ کررہے ہو ؟ اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو ؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو۔ “ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی اور آج بھی اہل کتاب حق اور سچائی کا مشاہدہ کررہے ہیں اور واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ یہ دین ‘ دین حق ہے ۔ ان میں سے بعض تو وہ تھے جو اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کی کتابوں میں رسول آخرالزمان ﷺ کی بابت بشارتیں اور اشارے موجود ہیں ‘ ان میں سے بعض ایسے تھے جو ان اشارات کے بارے میں بالصراحت بتلاتے تھے ۔ اور کچھ لوگ ایسے تھے کہ وہ ان بشارتوں کی بناء پر شہادت حق بھی دیتے تھے لیکن بعض دوسرے ایسے تھے کہ وہ اگرچہ اپنی کتابوں سے کچھ نہ جانتے تھے لیکن رسول اکرم ﷺ اور آپ کے دین کو دیکھ کر واضح طور یقین کئے ہوئے تھے کہ یہ دین ‘ دین حق ہے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ کفر پر کمربستہ تھے ۔ اس لئے نہیں کہ دلیل وبرہان میں کوئی کمی تھی بلکہ محض خواہشات نفسانیہ ‘ ذاتی مصلحتوں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر وہ کفر کررہے تھے ۔ قرآن کریم اہل کتاب کہہ کر انہیں کو پکارتا ہے ۔ اس لئے کہ ان کی اس صفت اہل کتاب کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ اللہ کی اس کتاب جدید کو سینہ سے لگائیں۔ ایک بار پھر اللہ انہیں پکارتے ہیں تاکہ انہیں ان کے اس فعل پر اچھا شرمندہ کریں کہ وہ حق پر باطل کا رنگ چڑھاتے ہیں ‘ حق کو چھپاتے ہیں ‘ حق کو ضائع کرتے ہیں ‘ اور وہ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے کرتے ہیں اور یہ ان کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے ۔ یہ ان کی نہایت ہی مکروہ اور قبیح حرکت …………اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے اہل کتاب پر جو تنقید فرمائی ہے ‘ اس پر وہ اس وقت سے لے کر آج تک قائم ہیں ۔ پوری اسلامی تاریخ میں ان کا کردار یہی رہا ہے۔ سب سے پہلے اس کا آغاز یہودیوں نے کیا اور یہودیوں کے بعد یہی منصب صلیبیوں نے سنبھال لیا ۔ اور اس پوری تاریخ میں انہوں نے اسلامی علوم میں بعض ایسے افکار شامل کردئیے کہ ان کی تنقیح صرف قرآن کریم کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔ انہوں نے تمام اسلامی علوم میں حق کے ساتھ باطل ملادیا ہے ۔ ہاں ان کی ان خفیہ سازشوں سے صرف قرآن کریم محفوظ رہا ہے اس لئے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ابدالابد تک وہ قرآن کریم کو محفوظ رکھے گا ۔ انہوں نے تاریخ اسلامی میں دسیسہ کاری کی ۔ اسلامی تاریخ کے واقعات میں ملاوٹ کی ۔ انہوں نے ذخیرہ احادیث کے اندر احادیث گھڑ کر جعلی احادیث ملانے کی کوشش کی ۔ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے اس کے مقابلے کے لئے بعض ایسے رجال پیدا کئے جنہوں نے اس میدان میں داد تحقیق دی اور ذخیرہ احادیث کو ان کی جعل سازیوں سے پاک کیا ۔ الا یہ کہ انسان کے محدود جدوجہد کی وجہ سے کوئی چیز بچ گئی ۔ لیکن وہ شاذ اور محدود ہوگئی ۔ انہوں نے قرآن کے ذخیرہ تفاسیر میں بھی ملمع کاری کی اور اسے ایک ایسا صحرائے بےآب وگیا بنادیا جس میں سے انسان کے لئے نشان راہ پانا مشکل ہوگیا ۔ انہوں نے اسلام کے بعض لیڈروں میں اپنے آدمی داخل کئے ۔ سینکڑوں لوگ ایسے تھے جو مسلمان بن کر اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے ۔ اور آج دیکھئے کہ مستشرقین اور مستشرقین کے شاگردوں کی شکل میں اور بیسیوں ایسے لیڈر ہیں جو یہودیوں اور صلیبیوں نے ہمارے لئے لیڈر بنائے تاکہ وہ اس نام نہاد عالم اسلام میں یہودیوں اور صلیبیوں کے مفادات کا تحفظ کریں ۔ اس لئے کہ اسلام کے یہ دشمن اگر کھل کر آئیں تو وہ یہ مفادات حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ سازشیں مسلسل روبعمل ہیں ۔ اور آج بھی اگر ہم ان میں سے کوئی جائے پناہ حاصل کرسکتے ہیں تو وہ صرف قرآن کے دامن میں حاصل کرسکتے ہیں ‘ جو محفوظ ترین کتاب ہے۔ اس قرآن کو اگر ہم اس تاریخی کشمکش میں اپنا مشیر بنالیں تو ہمیں محفوظ پناہ مل سکتی ہے ۔ قرآن کریم یہاں ان لوگوں کی بعض کوششوں کو بھی ریکارڈ پر لاتا ہے جو انہوں نے جماعت مسلمہ کو اپنے دین سے بدراہ کرنے کی خاطر کی تھیں ۔ اور یہ کام وہ حسب عادت نہایت ہی مکارانہ اور ذلیلانہ طریقہ کار کے مطابق کرتے تھے ۔ فرماتے ہیں۔
Top