Fi-Zilal-al-Quran - Faatir : 15
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اَنْتُمُ : تم الْفُقَرَآءُ : محتاج اِلَى اللّٰهِ ۚ : اللہ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : سزاوار حمد
لوگو ، تم ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو غنی وحمید ہے۔
درس نمبر 202 ایک نظر میں ایک بار پھر پکارا جاتا ہے کہ لوگو ! ذرا اپنی حقیقت پر غور کرو ، اور اپنے تعلق باللہ کا جائزہ لو ، ایک بار پھر حضور اکرم ﷺ کو تسلی دی جاتی ہے کہ آپ صبر کریں۔ یہ جو لوگ روگردانی کرتے ہیں یہ خود اپنا نقصان کرتے ہیں۔ اس سورة کے دوسرے سبق میں بھی حضور ﷺ کو ایسی ہی تسلی دی گئی تھی۔ البتہ یہاں ذرا اس بات کی وضاحت کردی جاتی ہے کہ ہدایت اور ضلالت کی حقیقت اور ماہیت ایک نہیں ہے ، دونوں کے درمیان اس طرح کا فرق و امتیاز ہے جس طرح اندھے اور بینا میں ہوتا ہے۔ جس طرح نور و تاریکی میں ہے ، جس طرح سائے اور کڑکتی دھوپ میں ہے۔ جس طرح موت وحیات میں ہے۔ پھر ہدایت ، بصیرت ، نور ، سائے اور زندگی اپنے اندر بذات خود ایک گہرا ربط اور مشابہت رکھتے ہیں اور اسی طرح اندھا پن ، تاریکی ، گرمی اور موت باہم مربوط اور مماثل ہیں۔ یہ سبق مکذبین کے انجام پر ختم ہوتا ہے۔ درس نمبر 202 تشریح آیات 15 ۔۔۔ تا۔۔۔ 26 یایھا الناس انتم ۔۔۔۔۔ علی اللہ بعزیز (15 – 17) ” “۔ لوگوں کو جب یہ دعوت دی جائے کہ وہ اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آنے کی جدوجہد کریں اور ضلالت کے بدلے ہدایت اختیار کریں تو اس وقت ان کو یہ حقیقت یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ فقراء ہیں اور اللہ کی طرف محتاج ہیں جب کہ اللہ ان کے مقابلے میں پوری طرح غنی ہے اور جب ان کو ایمان ، اللہ کی عبادت اور اللہ کی حمد و ثنا کی دعوت دی جاتی ہے تو اللہ ان کی عبادت اور حمد سے پوری طرح نے نیاز ہے۔ وہ تو بذات خود محمود ہے۔ اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔ یہ اللہ کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اگر اللہ چاہے تو ان کو ختم کرکے ان کی جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے اور ان کو اپنا خلیفہ بنا لے تو یہ اللہ کا کیا بگاڑ سکتے ہیں اور یہ کام اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو یہ حقیقت یاد دلائی جائے تاکہ ان کے ذہنوں سے یہ غرور نکل جائے کہ اللہ ان کی ہدایت کے لیے رسول بھیجتا ہے اور ان کی ہدایت کا سازوسامان کرتا ہے تو شاید اللہ کو ہماری ہدایت کی کوئی ضرورت ہے۔ اللہ رسول بھیجتا ہے اور وہ پوری انسانی تاریخ میں لوگوں کی ہدایت کے لیے جہدوجہد کرتے رہے ہیں ۔ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لاتے رہے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ مہربانی کرتا ہے ، ان پر رحمت کرتا اور ان پر فضل و کرم کرتا ہے یوں کہ ان کے پاس اپنے رسول بھیجتا ہے یہ رسول لوگوں کی نافرمانی اور لوگوں کی ایذا رسانی کی وجہ سے مصیبتیں برداشت کرتے ہیں اور ان روگردانیوں اور ایذا رسانیوں کے باوجود وہ دعوت پر جمے رہتے ہیں تو یہ اہتمام کرکے اللہ اپنے بندوں پر محض رحم و کرم کرتے ہیں کیونکہ وہ رحیم و کریم ہے۔ یہ اس کی ذاتی صفات ہیں ، اس لیے نہیں کہ لوگ اللہ کی حکومت میں پرکاہ کے برابر کوئی کوئی اضافہ کرسکتے ہیں یا اللہ کی حکومت میں ذرے کے برابر کسی چیز کا اضافہ کرسکتے ہیں۔ نیز اللہ کے مقابلے میں انسان کوئی بڑی طاقتور یا غالب مخلوق نہیں ہے کہ اللہ ان کو بدل نہیں سکتا۔ اس لیے اللہ ان کی غلطیوں کو برداشت کرتا ہے۔ کیا یہ انسان ایک ایسی مخلوق ہیں جن کو بدلا نہیں جاسکتا۔ ایسی صورت نہیں ہے۔ انسان جب اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کو دیکھتا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے کہ ایک طرف یہ انسان ، کمزور ، حقیر اور ناتواں ہے اور اس کے مقابلے میں ذات باری ہے ، جو بہت طاقتور ہے اور اس کی جانب سے انسانوں پر یہ مہربانیاں ہیں۔ انسان تو اس کائنات کے مکینوں میں سے ایک نہایت ہی چھوٹی سی مخلوق ہے اور یہ انسان سورج کے گرد چکر لگانے والے ذرات و کر ات میں سے ایک نہایت ہی چھوٹے سے کرے پر رہتا ہے۔ سورج بھی ان ستاروں میں سے ایک ستارہ ہے اور سورج جیسے ستاروں کی تعداد کا بھی ابھی تک انسان کو علم نہیں ہے۔ یہ دوسرے ستارے تو چھوٹے چھوٹے نکلتے ہیں حالا ن کہ اپنی جگہ نہایت دوریوں میں وہ بہت ہی عظیم الجنۃ ہیں اور یہ عظیم الجنۃ ستارے اس فضا میں حقیر ذروں کی طرح تیرتے پھرتے ہیں۔ یہ اللہ کی مخلوقات کا نہایت ہی مختصر حصہ ہیں۔ اس کے باوجود انسان اللہ کی جانب سے اس قدر عظیم فضل و کرم اور اس کے بیشمار فیوض کا وصول کنندہ ہے۔ اس پر اس قدر مہربانیاں ہیں جو اس کے لئے اس زمین میں رکھ دئیے گئے ہیں۔ اس کے جسم کے اندر ودیعت کر دئیے گئے ہیں اور اس کے لیے مسخر کر دئیے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ حقیر مخلوق گمراہ ہوکر اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتی ہے اور اللہ کو اس کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے رسول بھیجنے پڑے۔ ایک کے بعد دوسرا رسول آیا۔ رسولوں پر کتابیں بھیجی گئیں۔ رسولوں کو خوارق عادت معجزات دئیے گئے۔ اور اللہ کا یہ فضل و کرم اس مقام تک پہنچ گیا کہ اللہ نے اپنی آخری کتاب بھیج دی۔ اس میں تمام انبیاء کے قصص بھی ثبت کر دئیے۔ اسلاف کی تاریخ اس میں ثبت کردی۔ پھر انسان کو جو صلاحیتیں دی گئیں اور اس کے اندر جو کمزوریاں رکھ دی گئی تھیں وہ سب اس میں بیان کردی گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایک انسان کی مشکلات کا حل بتا دیا اور اس کی مشکلات کو دور کردیا۔ یہ عظیم کرم ایک طرف اور دوسری جانب یہ حقیقت کہ یہ انسان مکان زمین میں سے ایک حقیر اور کمزور مخلوق ہے۔ یہ زمین جس پر وہ رہتا ہے۔ یہ شمسی کہکشاں کا ایک حقیر تابع ستارہ ہے جو اس عظیم اور ہولناک عظیم الجنۃ کائنات کے اندر یوں ہے جسطرح زمین کی فضا میں تیرتا ہوا ایٹم اور اللہ سبحانہ اس پوری کائنات و سماوات کا پیدا کنندہ ہے۔ اس نے اس پوری کائنات اور مافیہا کو صرف ایک کلمہ سے پیدا کیا۔ صرف ارادہ متوجہ ہوا اور کن فیکون سے سب کچھ وجود میں آگیا اور یہ ایسا کرنے پر قدرت رکھتا ہے لوگوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں اور غور کریں کہ اللہ کا فضل و کرم کس قدر ہے اور وہ معلوم کرلیں کہ اگر وہ زندہ رہ رہے ہیں تو محض اللہ کے فضل و کرم کی وجہ سے زندہ رہ رہے ہیں اور اللہ کی عظیم رحمت کی وجہ سے زندہ رہ رہے ہیں اور یہ رحمت انسان کے انکار ، اعراض ، نافرمانیوں کے باوجود ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک نہایت ہی وجدانی نج ہے جبکہ یہ ایک حقیقت بھی ہے۔ قرآن کریم ایسے ہی حقائق انسانی قلوب پر القاء کرتا ہے ۔ کیونکہ جب حقیقت انسان کے دل پر روشن ہوتی ہے تو وہ انسان کے دل کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ قرآن حق ہے اور سچائی کے ساتھ یہ نازل ہو رہا ہے۔ لہٰذا قرآن کی تمام باتیں حق ہیں۔ وہ سچائی کے ساتھ لوگوں کو مطمئن کرتا ہے ، سچائی پیش کرتا ہے ۔ اس کے اشارات تمام کے تمام حق ہیں۔ اب ایک دوسرا نج۔ یہ کہ دنیا و آخرت میں ذمہ داری انفرادی ہے۔ ذمہ داری انفرادی ہوگی ، کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ نہ کوئی کسی کو فائدہ دے سکے گا۔ لہٰذا لوگ اگر ہدایت یافتہ ہوجائیں تو اس سے حضرت نبی ﷺ کی کوئی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ سے صرف ان کے اعمال اور فرائض کے بارے میں پوچھا جائے گا جب کہ دوسرے تمام افراد سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہر شخص اپنا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوگا۔ کوئی اس سے پوچھنے والا نہ ہوگا۔ اگر کوئی پاکیزہ زندگی اختیار کرتا ہے تو اپنے لیے کرتا ہے وہ اپنے لئے کرتا ہے۔ کسی اور کے لئے نہیں اور قیامت میں معاملات کا اختیار صرف اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔
Top