Fi-Zilal-al-Quran - Az-Zumar : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اَسْرَفُوْا : زیادتی کی عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں لَا تَقْنَطُوْا : مایوس نہ ہو تم مِنْ : سے رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی رحمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَغْفِرُ : بخش دیتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ (جمع) جَمِيْعًا ۭ : سب اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : مہربان
:”(اے نبی ﷺ کہہ دو کہ اے میرے بندو ، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے ، وہ تو غفور ورحیم ہے
درس نمبر 221 ایک نظر میں اس سے پہلے سبق میں بتایا گیا تھا کہ قیامت کے دن ظالمون کے حالات کیا ہوں گے۔ ولوان للذین۔۔۔۔۔۔ به یستھزءون (39: 47 تا 48) ” اگر ان ظالموں کے پاس زمین کی ساری دولت بھی ہو ، اور اتنی ہی اور بھی ، تو یہ روز قیامت کے برے عذاب سے بچنے کے لیے سب کچھ فدیے میں دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے ۔ وہاں اللہ کی طرف سے ان کے سامنے وہ کچھ آئے گا جس کا انہوں نے کبھی اندازہ ہی نہیں کیا ہے۔ وہاں اپنی کمائی کے سارے برے نتائج ان پر کھل جائیں گے جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں “۔ اس لیے اس سبق میں توبہ کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور کوئی کس قدر گناہوں کا مرتکب کیوں نہ ہوگیا ہو ، اسے دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہرگز نہ ہوں ، چاہے وہ میری راہوں پر بہت آگے نکل گئے ہوں۔ دعوت دی جاتی ہے کہ لوٹ آؤ، میرے در پر کوئی مایوسی نہیں ہے ، لیکن اگر اس عام معافی اور عام دعوت سے تم نے فائدہ نہ اٹھایا اور توبہ نہ کی تو پھر تمہارے لیے وہ عذاب ہے جس سے بچ نکلنے کی کوئی راہ نہ ہوگی ۔ اس فرصت سے فائدہ اٹھاو ، قبل اس کے کہ وقت چلا جائے۔ درس نمبر 221 تشریح آیات آیت نمبر 53 اللہ کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ وہ بڑی سے بڑی معصیت کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ، چاہے وہ جو بھی ہو۔ یہ توبہ اور واپس آجانے کی دعوت عام ہے۔ ان لوگوں کو دعوت ہے جو گمراہی ، فیق وفجور اور بدکاری کی راہوں میں بہت دور چلے گئے ہیں اور مایوس ہوگئے ہیں۔ ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں ، اللہ پر بھروسہ کریں اور اللہ کی رحمت کا دروازہ وسیع ہے اور عفو و درگزر کی چادر بہت کھلی ہے۔ وہ اپنے بندوں پر رحیم وکریم ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میرے بندے کس قدر کمزور اور ضعیف ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ ان کے طرز عمل پر داخلی اور خارجی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ اللہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ شیطان لعین گھات میں بیٹھا ہوا ہے اور دائیں بائیں ہر طرف سے وہ ان کے راستوں پر بیٹھا ہوا ہے اور ان کو گمراہ کرتا ہے۔ اور اپنی تمام سوار افواج اور پیدل افواج اس نے انسانوں پر حملہ آور کردی ہیں۔ اور وہ اپنے اس خبیث منصوبے میں بہت ہی سنجیدہ ہے۔ اور اللہ جانتا ہے کہ انسان کی ساخت بہت ہی کمزور ہے اور اس غریب کے ہاتھ سے جو نہی حبل متین چھوٹتی ہے یہ اپنے ذاتی میلانات ، نفسانی رجحانات ، نفسیاتی رجحانات سے برائی کی طرف مائل ہوجاتا ہے اور اس کا توازن ختم ہوجاتا ہے اور وہ انحراف کی راہوں پر چل نکلتا ہے اور اس کا توازن ختم ہوکروہ معصیت کی راہوں پر نکل پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی اس مخلوق کی ان سب کمزوریوں سے واقف ہے۔ اس لیے اللہ اس کی معاونت فرماتا ہے اس کے لیے دامن رحمت وسیع فرماتا ہے اور سزا صرف اس وقت دیتا ہے جب اسکی اصلاح کیلیے تمام وسائل کام میں لائے کہ وہ راہ راست پر آجائے اور جب وہ مصعیت کی راہوں پر دور نکل جائے ، گناہوں میں حد سے گزرجائے ، اور اسے یقین ہوجائے کہ وہ ثواب ہر مردود ومسترد ہوگیا ہے اور اس کیلیے نہ اب واپسی ممکن ہے اور نہ معافی ، اس قسم کی مایوسی اور قنوطیت کی حالت میں اللہ کی یہ پکار سنتا ہے۔ قل یٰعبادی۔۔۔۔ الرحیم (39: 53) ”(اے نبی ﷺ کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے ، وہ تو غفور ورحیم ہے “۔ یہ شخص معصیت میں حد سے گزر گیا ہے ، گناہوں میں ڈوب گیا ، محفوظ جگہ سے بھاگ گیا ہے اور راستے سے بےراہ ہوگیا ہے ، اب اس کے سایہ رحمت ، تروتازہ کرنے والی رحمت ، زندہ کرنے والی رحمت ، نرم ونازک رحمت کے درمیان صرف ایک ہی دروازہ رہ گیا ہے۔ یہ ہے توبہ کا دروازہ ، یہ دروازہ ہر وقت کھلا ہے ، اس پر کوئی دربان نہیں ہے۔ اس دروازے سے رحمت خدا وندی کے سایوں تک پہنچنے کے لیے کسی اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہے بس توبہ کرو اور لوٹ آؤ، صد بار توبہ شکستی باز آ۔
Top