Fi-Zilal-al-Quran - Az-Zumar : 54
وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ
وَاَنِيْبُوْٓا : اور رجوع کرو اِلٰى : طرف رَبِّكُمْ : اپنا رب وَاَسْلِمُوْا لَهٗ : اور فرمانبردار ہوجاؤ اس کے مِنْ قَبْلِ : اس سے قبل اَنْ : کہ يَّاْتِيَكُمُ : تم پر آئے الْعَذَابُ : عذاب ثُمَّ : پھر لَا تُنْصَرُوْنَ : تم مدد نہ کیے جاؤ گے
پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاؤ اسکے قبل اسکے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں تمہیں مدد نہ مل سکے
آیت نمبر 54 تا 55 انابت ، اسلام اور سرتسلیم خم کردینے کے دائرے میں لوٹ آنا ایک ہی مفہوم رکھتا ہے اور ایک ہی حقیقت ہے۔ اللہ کی اطاعت کے خطیرہ میں داخل ہونا ایک ایسا عمل ہے جس میں کوئی مراسم نہیں ، کوئی رکاوٹ نہیں ، کوئی واسطہ اور سفارش نہیں ، جو چاہے ، جس وقت چاہے ، اسلام کے سادہ سے نظام میں داخل ہوجائے۔ اسلام بندے اور رب کے درمیان بلاواسطہ دین ہے۔ یہ خالق اور مخلوق کے درمیان بلاواسطہ تعلق ہے۔ گناہ گاروں میں سے واپس ہونا چاہے ، گمراہوں میں سے جو چاہے لوٹ آئے ، جو لوگ بھی جس قدر نافرمانی کرتے رہے ہیں وہ سر تسلیم خم کردیں اور واپس آجائیں ، دوازہ کھلا ہے۔ سایہ دار پناہ گاہ موجود ہے۔ تروتازہ اور نرم ونازک فضا موجود ہے۔ اور یہ سب چیزیں ایک ایسے دروازے کے اندر ہیں جس کے لیے کوئی دربان نہیں ہے اور اس دروازے سے داخل ہونے کے لیے کوئی حساب و کتاب نہیں ہے۔ لوٹ آؤ، لوٹ آؤ، قبل اس کے آواز آجائے کہ فلاں نماند ! من قبل۔۔۔۔ تبصرون (39: 54) ” قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں سے تمہیں مددنہ مل سکے “۔ وہاں تو کوئی مددگار نہ ہوگا۔ اس لیے آؤ، وقت کے ختم ہونے میں دیر نہیں ہے۔ کسی بھی وقت آخری گھڑی کا فیصلہ ہوسکتا ہے اور دروازہ بند ہوسکتا ہے۔ رات اور دن کے کسی وقت میں مہلت کی گھڑیاں ختم ہوسکتی ہیں۔ واتبعوآ۔۔۔۔ ربکم (39: 55) ” اور پیروی اختیار کرو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی “۔ اس سے مراد قرآن کریم ہے جو تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ من قبل۔۔۔۔ تشعرون (39: 55) ” قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو “۔ لہٰذا باز آجاؤ قبل اس کے کہ فرصت ختم ہوجائے ، مہلت جاتی رہے اور تم نے اللہ کے حق میں کوتاہی کی ہو اور پھر تم پچھتاؤ کہ کیوں ہم اللہ کے وعدے کا مذاق اڑاتے تھے۔
Top