Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 59
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠ ۧ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْٓا
: ایمان لائے (ایمان والے)
اَطِيْعُوا
: اطاعت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَاَطِيْعُوا
: اور اطاعت کرو
الرَّسُوْلَ
: رسول
وَاُولِي الْاَمْرِ
: صاحب حکومت
مِنْكُمْ
: تم میں سے
فَاِنْ
: پھر اگر
تَنَازَعْتُمْ
: تم جھگڑ پڑو
فِيْ شَيْءٍ
: کسی بات میں
فَرُدُّوْهُ
: تو اس کو رجوع کرو
اِلَى اللّٰهِ
: اللہ کی طرف
وَالرَّسُوْلِ
: اور رسول
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ
: تم ایمان رکھتے ہو
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ
: اور روز
الْاٰخِرِ
: آخرت
ذٰلِكَ
: یہ
خَيْرٌ
: بہتر
وَّاَحْسَنُ
: اور بہت اچھا
تَاْوِيْلًا
: انجام
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول ﷺ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں ‘ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو ۔ اگر تم واقعی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے
(آیت) ” نمبر 59۔ اس مختصر آیت میں اللہ تعالیٰ ایمان کی شرط اور اسلام کی تعریف بیان کرتے ہیں ‘ اور اس میں امت مسلمہ کا اساسی دستور بھی آجاتا ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام میں حاکمیت اور اقتدار کا منبع کونسا ہے ۔ یہ سب کام اللہ سے شروع ہوتے ہیں اور اللہ کی ذات پر ہی ان کا اختتام ہوتا ہے ۔ اگر شریعت میں کسی حکم کے بارے میں تفصیلات نہ ہوں تو پھر اہل اسلام اس دستوری اصول کی طرف رجوع کرکے اپنے تمام جزئی مسائل میں جواب حاصل کرسکتے ہیں اور قیامت تک یہ اساسی دستوری اصول قائم ودائم ہے ۔ اس میں لوگوں کی آراء ار ان کی عقلی کاوشوں کے لئے اختلاف کی گنجائش بھی چھوڑی گئی ہے ۔ انسانوں کی زندگی پر حاکمیت کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے ‘ چاہے ظاہری امر ہو یا پوشیدہ ہو ‘ چاہے بڑا معاملہ ہو یا چھوٹا ۔ ان معاملات میں اللہ تعالیٰ نے شریعت کا حکم مقرر فرمایا ہے ۔ اور رسول خدا ﷺ کی سنت اس کے بارے میں موجود ہے اس لئے کہ حضور ﷺ نے محض ہوائی باتیں نہیں کیں ۔ آپ کی تمام باتیں وحی پر مبنی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے جو قانون بنائے وہ بھی اللہ کے قوانین ہیں ۔ اللہ واجب الاطاعت ہے ۔ اللہ کی الوہیت کا اہم خاصہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کے لئے شریعت بنائے ۔ اس لئے اس کی شریعت واجب النفاذ ہے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کریں ۔ اور پھر وہ رسول اللہ کی اطاعت کریں اس لئے کہ رسول جو کچھ کہتا ہے وہ بھی اللہ کے حکم سے کہتا ہے ۔ رسول کی اطاعت میں اللہ کی اطاعت ہے کیونکہ اللہ ہی نے رسول کو یہ شریعت دے کر بھیجا ہے ۔ اس نے اپنی سنت میں شریعت کو لوگوں کے لئے بیان کیا ہے اس لئے آپ کی سنت اور آپ کے فیصلے اس زاویے سے شریعت کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ لوگوں کے ایمان کا تعلق شریعت کے اس نفاذ سے ہے وجودا اور عدما اس لئے کہ اللہ کا حکم ہے کہ (آیت) ” ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر (4 : 59) (اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو) یہاں (آیت) ” (واولی الامر منکم) (یعنی تم میں جو صاحب امر ہوں) سے مراد بھی متعین کردی جاتی ہے ۔ یعنی وہ تم میں سے ہوں یعنی وہ لوگ جن کے اندر شرط ایمان اور اسلام کی تعریف (Definition) پائی جاتی ہو ۔ یعنی وہ لوگ جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں جو حق قانون سازی اور حق اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کو دیتے ہیں اور ان معاملات میں صرف اللہ تعالیٰ سے ہدایات اخذ کرتے ہوں ۔ ان حالات میں جن میں منصوص ہدایات آگئی ہیں نیز جن معاملات میں انسانوں کے فہم وادراک میں اختلاف رائے ہو اور جن میں کوئی نص وارد نہ ہوئی ہو ان میں بھی وہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کریں اور ان مسائل میں ان اصولی احکام کو منطبق کریں جو وارد ہیں اور منصوص ہیں ۔ اس نص میں بطور اصلیت اللہ کی اطاعت کو لازم کیا گیا ہے ‘ نیز اس میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو بھی اصل اطاعت قرار دیا گیا ہے ۔ اس حیثیت سے کہ یہ اللہ کی فرستادہ ہیں (آیت) ” (واولی الامر) کی اطاعت اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کے تابع اطاعت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ (آیت) ” (واولی الامر منکم) کے ساتھ لفظ (آیت) ” (اطیعوا) کو تیسری بار نہیں لایا گیا ۔ جیسا کہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لفظ (آیت) ” (اطیعوا) دہرایا گیا ہے ۔ یہ اس لئے کہ (آیت) ” (واولی الامر) کی اطاعت اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت سے ماخوذ ہے ۔ جبکہ (آیت) ” (واولی الامر) کے ساتھ (منکم) کے لفظ کے مطابق ان کا اہل ایمان میں سے ہونا ضروری ہے ۔ یہ اولی الامر کے لئے شرط ہے ۔ ان تمام تاکیدوں کے ساتھ ساتھ اولی الامر کی اطاعت ان اوامر میں سے ہے جو اللہ کی طرف سے منصوص اور مشروع ہوں اور حدود اللہ کے اندر ہوں اور ان اوامر کے خلاف کوئی نص وارد نہ ہو ۔ نیز یہ اوامر اور احکام اصول شریعت کی روشنی میں بھی شریعت کے خلاف نہ ہوں ۔ حضور ﷺ کی سنت میں علی وجہ الیقین ان حدود وقیود کا تعین کردیا گیا ہے جن کی مطابق اولی الامر کی اطاعت کی جاتی ہے ۔ صحیحین میں حضرت اعمش ؓ کی حدیث میں ہے (انما الطاعۃ فی معروف) (اطاعت صرف معروف طور پر جائز کاموں میں) ۔ صحیحین میں یحییٰ القطان کی حدیث ہے ۔ (السمع والطاعۃ علی المراء المسلم فیما احب اوکرہ مالم یومر معصیۃ واذا بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ) (سمع اور اطاعت ہر مسلم شخص پر لازم ہے ایسے امور میں بھی جو وہ پسند کرے اور ایسے امور میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے ‘ اس وقت تک جب تک اسے معصیت کا حکم نہ دیا گیا ہو ۔ اگر اسے معصیت کا حکم دیا گیا تو اس پر نہ سمع لازم ہے اور نہ اطاعت) مسلم نے ام الحصین کی حدیث نقل کی ہے ۔ (ولو استعمل علیکم عبد یقودکم بکتاب اللہ اسمعوا لہ واطیعوا) (اگر تم پر کوئی غلام مقررکر دیا جائے جو تمہاری قیادت کتاب اللہ کے مطابق کرے تو اس کی بات بھی سنو اور اطاعت بھی کرو) اس طرح اسلام نے ہر شخص کو اللہ کی شریعت اور سنت رسول اللہ ﷺ پر امین اور نگہبان بنا دیا ہے ۔ اس کے ایمان اور اس کے دین پر اسے نگران مقرر کردیا ہے ۔ اس کے نفس اور اس کی عقل کا اسے نگران مقرر کردیا ہے ۔ دنیا اور آخرت دونوں میں اس کے معاملات کا اسے نگران مقرر کردیا ہے ۔ اسلام نے انسان کو اس طرح نہیں چھوڑا ہے جس طرح کسی گلے میں ایک جانور ہوتا ہے کہ اسے یہاں سے روکا جائے اور وہاں سے روکا جائے اور وہ سمع و اطاعت نہ کرے اور ہر وقت اسے ہش کہنے کی ضرورت ہو ‘ اس لئے کہ اسلامی نظام واضح ہے ۔ اطاعت کی حدود واضع نصوص وارد نہیں ہیں ‘ اور مشکلات اور مسائل کی وجہ سے کوئی بالکل نیا معاملہ درپیش ہو ‘ بعد میں آنے والے ادوار میں حالات کے اختلاف میں اور سوسائٹیوں کے اختلاف میں اور بدلتے ہوئے حالات ہوں اور ان میں کوئی نص قطعی نہ ہو یا بالکل کوئی نص ہی نہ ہو ‘ جس میں مختلف لوگوں کے آراء اور اندازے مختلف ہوں اور ہر شخص اپنی عقل کے مطابق رائے رکھتا ہو تو ایسے مسائل کو بھی بالکل آزادانہ نہیں چھوڑ دیا گیا ‘ ان کو بھی بغیر کسی اصول اور قاعدے کے نہیں چھوڑا گیا ۔ نہ اس طرح چھوڑ دیا گیا کہ ان میں اجتہاد واستنباط کے لئے کوئی ضابطہ نہیں ہے بلکہ اس مختصر نص میں اس کے لئے ایک شاندار منہاج رکھ دیا گیا ہے اور اس کے لئے بھی حدود مقرر کردیئے گئے ہیں اور یہ آیت وہ اصول بتا دیتی ہے جس کے مطابق اجتہاد ہو سکتا ہے ۔ (آیت) ” فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول (4 : 59) (پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو ) یعنی ان کو ان نصوص کی طرف لوٹا دو ‘ جن پر یہ نصوص ضمنا منطبق ہوتی ہیں ۔ اگر ایسی نصوص نہ ملیں جن کا انطباق ان مسائل پر ہوتا ہو تو اسلامی شریعت میں جو بنیادی اصول اور عام قواعد ہیں ۔ ان کی روشنی میں ان کا حل نکالو ‘ ان مسائل کو افراتفری کے عالم میں بےلگام نہیں چھوڑ دیا گیا ‘ اور نہ یہ مسائل ان نامعلوم امور کی طرح ہیں جن میں انسانی عقول سرگردان رہتی ہیں جیسا کہ بعض دھوکہ باز اس طرح سمجھانے کی سعی کرتے ہیں ۔ اسلامی نظام میں بعض اساسی اور بنیادی اصول ہیں اور یہ اصول بالکل واضح اور منقح ہیں ۔ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہیں ۔ یہ اصول زندگی کے لئے ایسی باڑ اور ایسا دائرہ تجویز کرتے ہیں جن کے اندر رہ کر ہر وہ شخص جس کا ضمیر مسلم ہو سچائی تک بڑی سہولت کے ساتھ پہنچ سکتا ہے ۔ (آیت) ” (ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر (4 : 59) (اگر تم واقعی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو) ۔ یہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہے ۔ یہ اولی الامر کی اطاعت ہے جو مومن ہوں اور اللہ کی شریعت پر قائم ہوں اور سنت رسول کے مطابق کام کر رہے ہوں ۔ یہ متنازع امور کا اللہ اور رسول اللہ کی طرف رد کرنا ‘ یہ تمام امور شرائط ایمان باللہ اور یوم آخرت میں سے ہیں اور یہ سب امور ایمان باللہ اور ایمان بالاخرت کا تقاضا بھی ہیں ۔ اگر یہ شرائط مفقود ہوں تو سرے سے ایمان ہی نہ ہوگا اسی طرح ایمان اس صورت میں بھی موجود نہ ہوگا اگر ایمان کے لازمی تقاضے پورے نہ ہوں ۔ جب اس آیت نے اس مسئلے کو اس طرح قانونی انداز میں ہمارے سامنے رکھ دیا تو اس کے بعد پھر اسے بطور وعظ ونصیحت بھی دوبارہ لایا جاتا ہے اور محبت کے انداز میں انہیں آمادہ کیا جاتا ہے ‘ جب طرح امانت اور عدالت کے احکام کے ذکر کے بعد یہی رویہ اختیار کیا گیا تھا ۔ (آیت) ” ذلک خیر واحسن تاویلا (4 : 59) (یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے) ۔ یہ طریق کار اور دستور العمل تمہارے لئے بہت ہی اچھا ہے ۔ دنیا میں بھی خیر ہے اور آخرت میں بھی خیر ہے ۔ دنیا میں بھی اس کا انجام اچھا ہوگا اور آخرت میں بھی اس کی جزاء اچھی ہوگی ۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ اس دستور العمل پر عمل کرنے کی وجہ سے اللہ راضی ہوگا اور آخرت میں ثواب ملے گا ۔ اگرچہ یہ بھی ایک عظیم اور اہم بات ہے لیکن اس کے علاوہ اس دستور العمل کو اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میں بھی بہتری ہے ۔ ایک فرد کی ‘ ایک سوسائٹی کی اور اس پوری دنیاوی زندگی کی بھی اس میں بہتری ہے ۔ اسلامی نظام حیات ایک ایسا نظام ہے کہ اس کے زیر سایہ جن لوگوں کو زندگی بسر کرنے کا موقعہ ملتا ہے وہ خوش وخرم زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جسے اس اللہ نے بنایا ہے ۔ وہ صانع ‘ حکیم ‘ علیم ‘ خبیر اور بصیر ہے ۔ یہ ایسا نظام ہے جو انسان کی جہالتوں سے پاک ہے ‘ جو انسان کی خواہشات سے پاک ہے ‘ جو انسان کے نقائص سے پاک ہے ۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں کسی فرد کے ساتھ کوئی خصوصی برتاؤ نہیں کیا گیا نہ کسی طبقے ‘ نہ کسی قوم نہ کسی نسل اور نہ کسی خاص قبیلے کی رو رعایت اس میں ملحوظ رکھی گئی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کے رب ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی کی محبت میں مبتلا نہیں ہوتے کسی طبقے ‘ نہ کسی رنگ ونسل اور نہ کسی قوم قبیلے کی محبت ہیں ۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا بنانے والا پوری کائنات کو بنانے والا ہے جو انسان کی فطرت کی ماہیت سے واقف ہے ۔ وہ انسان کے نفس کے رجحانات ومیلانات سے بھی واقف ہے ۔ انسان کے ذرائع خطاب اور اس کے طریقہ اصلاح سے بھی واقف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے کسی معاملے میں غلطی صادر نہیں ہو سکتی ۔ نہ اسے یہ ضرورت ہے کہ وہ کسی نظام کا تجربہ کرکے اس کی غلطیوں کو دور کرے اور نہ وہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ لوگوں پر نظاموں کے تجربے کر کے انہیں مشکلات سے دو چار کرے اور وہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں اور پریشان ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانونی اور اخلاقی نظام دے کر مادی ایجادات کا ایک وسیع میدان انکے لئے چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس میں تجربے کرتے رہیں ۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو انسانی عقل کی جولانیوں کے لئے بہت ہی کافی ہے ۔ عقل کے لئے بس یہی کافی ہے کہ وہ اس نظام کو نافذ اور مسائل پر منطبق کرنے کا کام جاری رکھے اور اس میں جہاں جہاں قیاس اور اجتہاد کی ضرورت ہے وہاں کام کرتی رہے ۔ پھر اسلامی نظام کی واضع وہی ذات ہے جو اس کائنات کی خالق ہے اس لئے اس نے انسان کو ایک ایسا منہاج دیا ہے جو اس کائنات کے نوامیس فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔ یہ نظام فطرت کے ساتھ معرکہ آراء نہیں ہوتا بلکہ وہ فطرت کی ساتھ ہم نوا ہوتا ہے ‘ اس کو مانتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ یہ نظام اس کی راہنمائی بھی کرتا ہے اور اس کو بچاتا بھی ہے ۔ اس نظام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ انسانیت کی ہدایت اور حمایت کے ساتھ ساتھ یہ اس کا اکرام اور احترام بھی کرتا ہے ۔ اس نظام میں عقل انسانی کے لئے ایک وسیع دائرہ کار رکھا گیا ہے ۔ اور اس میں قرآن و سنت کی نصوص وہدایات کے اندر تشریح و اجتہاد کی گنجائش موجود ہے ۔ پھر وہ معاملات جن میں واضح نصوص وارد نہیں ہیں ان کو اصول عامہ کے مطابق حل کرنے کی سعی کی گنجائش ہے ۔ اس کے علاوہ وہ اصل میدان کار بھی ہے جو اس نظام نے عقل کی بہترین کے لئے کھلا رکھا ہے ‘ جس پر اس کا مکمل کنٹرول ہے یعنی علمی تحقیقات اور سائنس کے میدان میں اکتشافات اور مادی ایجادات ۔ (آیت) ” ذلک خیر واحسن تاویلا (4 : 59) (یہ بہتر ہے اور اچھا طریقہ کار ہے) اس سبق میں اس قاعدہ کلیہ کے بیان کے بعد ایمان کی شرط اور اسلام کی تعریف کرنے کے بعد ‘ امت کا دستور اساسی (GrundNorm) وسیع کرنے کے بعد ‘ امت کے لئے طریقہ قانون سازی اور اس کی اصل بتانے کے بعد ‘ اب روئے سخن ان لوگوں کی طرف پھرجاتا ہے جو اس دستوری اساس سے انحراف کرتے ہیں اور پھر بھی وہ یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ مومن ہیں حالانکہ وہ ایمان کی شرط اور اسلام کی تعریف (Definition) کے خلاف جار رہے ہیں وہ اپنی عدالتوں میں فیصلے ایسے قانون کے مطابق کرتے ہیں جو اللہ کی شریعت کے مطابق نہیں ہے ۔ (آیت) ” ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ) (وہ اپنے فیصلے طاغوتی قانون کے مطابق کراتے ہیں حالانکہ ان کو حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ اس کا انکار کریں۔ ) روئے سخن اس طرف پھیرتے ہی ایسے لوگوں پر سخت تعجب کیا جاتا ہے ‘ ان لوگوں پر سخت تعجب کیا جاتا ہے ‘ ان لوگوں کو سخت ڈرایا جاتا ہے کہ وہ ذرا سوچیں کہ شیطان انہیں کس طرف لے جارہا ہے ۔ یہاں ایسے لوگوں کا حال بتایا جاتا ہے کہ جب انہیں اسلامی قانون کو نافذ کرنے اور اس کے مطابق فیصلے کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ نہایت ہی منافقانہ روش کے مطابق اسے روکنے کی سعی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی روش نفاق بتاتے ہیں ۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ شیطانی قانون کے مطابق فیصلے کرانے کا ارادہ کرتے ہی انسان ایمان سے فارغ ہوجاتا ہے بلکہ یہ لوگ ابتداء ایمان میں داخل ہی تصور نہیں ہوتے یہاں یہ بھی بتادیا جاتا ہے کہ ان کے عذرات کس قدر بورے ہیں اور کس قدر واہیات اور جھوٹے ہیں اور ان کا یہ منصوبہ نہایت ہی قابل نکیر ومذمت ہے اور اس کے نتیجے میں ان پر وبال آنے ہی والا ہے ۔ اس کے باوجود حضور ﷺ کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ آپ دعور وموعظت جاری رکھیں پھر بات کو اس پر ختم کیا جاتا ہے کہ رسولوں کو بھیجا ہی اس لئے گیا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے ۔ اس کے بعد صریح اور قطعی الفاظ میں ‘ ایک بار پھر ایمان کی شرط اور اسلام کی تعریف (Definition) بیان کی جاتی ہے ۔
Top