Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 60
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖ١ؕ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَزْعُمُوْنَ : دعویٰ کرتے ہیں اَنَّھُمْ : کہ وہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے بِمَآ اُنْزِلَ : اس پر جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف وَمَآ اُنْزِلَ : اور جو نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَحَاكَمُوْٓا : مقدمہ لے جائیں اِلَى : طرف (پاس) الطَّاغُوْتِ : طاغوت (سرکش) وَقَدْ اُمِرُوْٓا : حالانکہ انہیں حکم ہوچکا اَنْ : کہ يَّكْفُرُوْا : وہ نہ مانیں بِهٖ : اس کو وَيُرِيْدُ : اور چاہتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَنْ : کہ يُّضِلَّھُمْ : انہیں بہکادے ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
” اے نبی ﷺ تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لئے طاغوت کی طرف رجوع کریں ‘ حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا ‘ شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے
(آیت) ” نمبر 60 تا 65۔ بعض لوگوں کی یہ تصویر جو ان آیات میں کھینچی گئی ہے ‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات ہجرت کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئی تھیں ۔ اس دور میں جس میں نفاق کا بہت زور تھا اور یہودی منافقین کے ساھت ملک کر ایک زور آور قوت تھے۔ یہ لوگ جو یہ ارادہ رکھتے تھے کہ قانونی فیصلے طاغوت کے مطابق ہوں ‘ یہ لوگ منافقین تھے جیسا کہ آیات کے اس مجموعے کی دوسری آیت میں اس کی تصریح بھی کردی گئی ہے ۔ ان سے مراد یہودی بھی ہو سکتے ہیں اس لئے کہ جب ان کو یہ دعوت دی جاتی تھی کہ وہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کرانا تسلیم کریں تو وہ انکار کردیتے تھے اور اس بات کی خواہش رکھتے تھے کہ اس قانون کے مطابق فیصلے کرائیں جو دور جاہلیت میں رائج تھا ۔ (اس لئے کہ یہودیوں کے آپس کے فیصلے تورات کے مطابق ہوتے تھے ۔ یہاں کتاب سے تورات مراد ہوگا اور بعض اوقات یہودیوں کے فیصلے بھی رسول اللہ ﷺ کرتے جیسا کہ بعض فیصلوں سے معلوم ہوتا ہے) لیکن یہاں صرف پہلی صورت ہی مراد ہے یعنی کتاب اللہ سے مراد قرآن کریم ہے کیونکہ آیت ۔ ” یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک (4 : 60) (جن کا زعم یہ ہے کہ وہ ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی ہے) لہذا یہاں مراد منافقین ہی ہو سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ یہودیوں نے کبھی اپنے اس زعم کا اظہار نہیں کیا کہ وہ رسول خدا ﷺ پر نازل کردہ کلام کو مانتے ہیں ۔ یہ اظہار منافقین ہی کرتے تھے کہ وہ نبی ﷺ اور آپ سے پہلے نازل ہوئے والی تمام کتابوں پر ایمان لائے ہیں ۔ یعنی ایسا ایمان جیسا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہم رسل پر ایمان لاتے ہیں ۔ اور یہ بات صرف ہجرت کے ابتدائی ایام ہی میں ہو سکتی ہے ۔ اس سے پہلے کہ بنی قریظہ اور خیبر میں یہودیوں کی قوت کو توڑ دیا جائے اور قبل اس کے کہ یہودیوں کی قوت توڑنے سے خود منافقین کی قوت بھی ٹوٹ جائے ۔ بہرحال ان آیات میں ہمیں شرائط ایمان کی ایک قطعی ‘ مکمل اور جامع مانع شرط اور اسلام کی مکمل تعریف مل جاتی ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ شہادت مل جاتی ہے کہ جو لوگ طاغوت کے مطابق فیصلہ کرنے کا ارادہ بھی کریں ‘ وہ مومن نہیں ہیں ‘ اس لئے کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں ۔ (آیت) ” (وقد امروا ان یکفروا بہ) اس کے علاوہ اللہ کی جانب سے اس مجموعہ آیات میں ہمیں ایک خلفیہ بیان ملتا ہے اور ذات بار خود اپنی ذات کی قسم کھاتے ہیں کہ یہ لوگ اس وقت تک ایمان میں داخل نہیں ہو سکتے اور اس وقت تک مومن شمار نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے مقدمات کے اندر حکم نہ بنائیں اور پھر آپ ﷺ کے حکم کی اطاعت نہ کریں آپ کے فیصلے کو نافذ نہ کریں اور یہ اطاعت کامل تسلیم ورضا کے ساتھ نہ ہو اور دل کی خوشی کے ساتھ نہ ہو یعنی ایسی حالت میں تسلیم کرنا کہ اس میں عجز واضطرار نہ ہو بلکہ مکمل اطمینان ورضا ہو۔ (آیت) ” الم ترالی الذین یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک یرویدن ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ ویرید الشیطن ان یظلھم ضللا بعیدا “۔ (4 : 60) ” اے نبی تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ‘ اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ‘ مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لئے طاغوت کی طرف رجوع کریں ۔ حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ شیطان تمہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے) کیا آپ نے ایسی عجیب و غریب قوم کے لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا زعم یہ ہے کہ وہ مومن ہیں اور پھر وہ آن واحد میں اپنے اس زعم کو باطل قرار دیتے ہیں ۔ یہ لوگ (آیت) ” یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک (4 : 60) (یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب پر بھی ایمان لائے ہیں جو تیری طرف نازل ہوئی ہے اور اس پر بھی جو تجھ سے پہلے نازل ہوئی ہے ۔ اس دعوی ایمان کے بعد وہ اپنے فیصلے اس کتاب کے مطابق نہیں کراتے جو آپ پر نازل ہوئی ہے ‘ نہ وہ اس کتاب کے مطابق فیصلے کراتے ہیں جو تم سے پہلے نازل ہوئی اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی اور چیز کے مطابق فیصلے کرائیں ‘ کسی اور نظام کے مطابق فیصلے کرائیں ۔ کسی اور حکم کے مطابق فیصلے کرائیں ۔ بلکہ وہ یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ طاغوت کے مطابق فیصلے کرائیں اور طاغوت وہ ہے جو اس کتاب سے ماخوذ نہ ہو جو آپ کی طرف نازل ہوئی یا اس کتاب سے ماخوذ نہ ہو جو آپ سے پہلے نازل ہوئی اور اس کا ضابطہ اور معیار تم پر نازل کردہ کتاب یا کتب سابقہ سے اخذ نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ طاغوت ‘ طاغوت ہے اور طاغوت اس لئے ہے کہ وہ اللہ کی خاصہ حاکمیت اور تشریع کا دعوی کرتا ہے اور وہ طاغوت اس لئے ہے کہ وہ کسی مستقل میعار پر قائم نہیں ہے ۔ یہ لوگ محض جہالت کی وجہ سے یہ حرکت نہیں کرتے نہ کسی شبہ کی بنا پر کرتے ہیں ۔ وہ اچھی طرح جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں حالانکہ اس طاغوت کے پاس اپنے فیصلے لے جانا حرام ہے ۔ (آیت) ” وقد امروا ان یکفروا بہ “۔ (4 : 60) ان کو حکم تو یہ دیا گیا ہے کہ وہ اس کا انکار کردیں ۔ یہ لوگ جہالت یا شبہ کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے ۔ بلکہ یہ لوگ قصدا ایسا کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ گمان درست نہیں ہے ‘ یہ زعم درست نہیں ہے کہ وہ اس کتاب پر بھی ایمان لائے ہیں اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں پر بھی ایمان لائے ہیں یہ تو شیطان ہے جو ان کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ۔ اس طرح کہ وہ اس سے باز نہ آسکیں ۔ (آیت) ” ویرید الشیطن ان یضلھم ضللا بعیدا “۔ (4 : 60) (اور شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے) یہ وہ خفیہ سبب ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ طاغوت کے مطابق فیصلہ کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہی وہ داعیہ ہے جو ان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ایمان کی حدود اور ایمان کی شرائط سے نکل جائیں اور ارادہ کرلیں کہ وہ طاغوت کے مطابق فیصلے کرائیں گے ۔ یہی وہ سبب ہے جس کا اللہ تعالیٰ انکشاف فرماتے ہیں تاکہ وہ اپنے اس ارادے سے باز آجائیں ۔ اور جماعت مسلمہ کو بھی بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی پشت پر کون ہے ؟ اور اس کا اصل محرک کیا ہے ؟ اب آگے کے مضمون میں وہ حالات بتائے جاتے ہیں جب ایسے لوگوں کو اس طرف بلایا جاتا ہے کہ آؤ اس قانون کی طرف جو اللہ نے حضرت محمد ﷺ کی طرف نازل کیا ہے یا اس قانون کی طرف جو آپ ﷺ سے پہلے نازل ہوا ہے ‘ تو یہ لوگ جو زعم ایمان رکھتے ہیں ‘ کہتے ہیں ۔ (آیت) ” واذا قیل لھم تعالوا الی ما انزل اللہ والی الرسول رایت المنفقین یصدون عنک صدودا “۔ (4 : 61) ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں ۔ “ سبحان اللہ ‘ نفاق خود اپنے آپ کو آشکارا کر رہا ہے ۔ وہ اس بات پر تلا ہوا ہے کہ فطری سوچ کی واضح ترین باتوں کا بھی انکار کر دے ۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ نفاق کی صورت حال نہ ہوتی ۔ ایمان کا فطری اور واضح تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان اس قانون کے مطابق اپنے فیصلے کرے جس پر اس کا ایمان ہے اور اپنے فیصلے اس عدالت میں لے جائے جس پر وہ ایمان لایا ہو۔ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لایا ہے اور جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر بھی ایمان لایا ہے ‘ رسول پر ایمان لایا ہے اور جو کچھ اس پر نازل ہوا ہے اس پر بھی ایمان لایا ہے ‘ پھر ایسے شخص کو اگر بلایا جاتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے اس حکم اور قانون کے مطابق کرائے جس پر وہ ایمان لایا ہے تو اس دعوت کا بدیہی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ اس کو تسلیم کرے اور یہی تقاضائے فطرت ہے ۔ لیکن اگر وہ انکار کرتا ہے اور اس راہ پر آنے سے لوگوں کو روکتا ہے تو وہ بالکل ایک واضح فطری اور بدیہی امر سے انکار کرتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ منافق ہے اور اس نے جو دعوائے ایمان کیا ہے ‘ وہ جھوٹا ہے ۔ یہی وہ فطری اور بدیہی صورت حال ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ چناچہ یہ آیت انہی لوگوں کے بارے میں ہے جو دعوائے ایمان کرتے ہیں اور پھر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے بلکہ ان کو کوئی بلائے بھی تو اس طرح فیصلے کرانے سے کتراتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے طرز عمل سے ایک اور منافقانہ چال کو ظاہر کیا جاتا ہے ‘ کہ جب ایسے لوگ کسی مشکل میں پڑتے ہیں یا ان کی غلط پالیسی کی وجہ سے کوئی حادثہ ہوجاتا ہے (اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی حاکمیت کی طرف نہیں آتے یا اس وجہ سے کہ وہ طاغوت کے مطابق کوئی فیصلہ کرانا چاہتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی پوزیشن خراب ہوجاتی ہے) تو پھر یہ لوگ اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لئے عذر ہائے لنگ سے کام لیتے ہیں ۔ (آیت) ” فکیف اذا اصابتھم مصیبتۃ بما قدمت ایدیھم ثم جاء وک یحلفون باللہ ان اردنا الا احسانا وتوفیقا “۔ (4 : 62) ” پھر اس وقت کیا ہوتا ہے جب ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوئی مصیبت ان پر آپڑتی ہے ؟ اس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم تو صرف بھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہوجائے ۔ یہ لوگ مصیبت میں یوں پڑجاتے تھے کہ بہت سے لوگوں کے مجمع میں انکا راز کھل جاتا تھا ۔ اور اسلامی معاشرہ میں ان کا مقاطعہ ہوجاتا تھا ‘ یا اسلامی معاشرے میں ان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ اس طرح یہ لوگ بڑی مشکل میں پھنس جاتے تھے اس لئے کہ اسلامی معاشرہ ایسے لوگوں کو دیکھ ہی نہ سکتا تھا جو دعوی تو یہ کرتے ہوں کہ وہ اللہ اور اس کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ اور اس پر نازل شدہ کلام پر ایمان لائے ہیں اور پھر وہ اللہ کے قانون کے سوا کسی اور قانون پر فیصلے کراتے ہوں ۔ ایسے لوگوں کو ان معاشروں میں قبولیت حاصل ہوتی ہے جو نہ مومن ہوتے ہیں اور نہ مسلم ۔ اور جو اس قسم کے لوگوں کی طرح نام نہاد مسلمان ہوتے ہیں اور ان کا اسلام اور ایمان صرف دعوے اور نام تک محدود ہوتا ہے ۔ بعض اوقات وہ مصیبت میں یوں پڑتے ہیں کہ وہ طاغوتی عدالت میں جاتے ہیں اور ان پر ظلم ہوجاتا ہے اس لئے کہ وہاں اللہ کے قانون کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلے کردیئے جاتے ہیں ۔ اب انہیں شرمندگی ہوتی ہے اور افسوس کے ساتھ لوٹتے ہیں کہ کیوں وہ طاغوت کی عدالت میں گئے اور ان پر ظلم ہوا ۔ اگر وہ اپنا مقدمہ اسلامی عدالت میں لاتے تو انصاف ہوتا ۔ بعض اوقات ان پر یہ مصیبت اللہ کی جانب سے بطور ابتلاء آتی ہے تاکہ وہ غور وفکر کرکے ہدایت قبول کرلیں ۔ بہرحال جو صورت بھی ہو ‘ قرآن کریم استفہام انکاری کی صورت میں سوال کرتا ہے کہ اس وقت ان کا حال کیا ہوتا ہے کہ یہ لوگ پھر لوٹ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے ہیں۔ (آیت) ” یحلفون باللہ ان اردنا الا احسانا وتوفیقا “۔ (4 : 62) ” خدا کی قسم ہم تو صرف بھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہوجائے ۔ “ یہ نہایت ہی شرمناک صورت حال ہے ۔ وہ لوٹتے ہیں اور ان کو شعور ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت ہی برا راستہ اختیار کیا ۔ ان کی حالت شرمندگی سے ایسی ہوتی ہے کہ حضور ﷺ کا سامنا نہیں کرسکتے ۔ لیکن قسمیں کھا کر اپنے اندرونی جھوٹے ارادوں کو چھپاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ درحقیقت طاغوت کی عدلت میں تو جانا نہیں چاہتے تھے مگر رواج کے مطابق فیصلے کرا کے فریقین کے درمیان صلح صفائی چاہتے تھے ۔ یہ ان تمام لوگوں کا دعوی ہوتا ہے جو اسلامی نظام حیات سے پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگ کہتے ہیں کہ وہ مشکلات سے بچنا چاہتے ہیں ۔ اگر شریعت کے قانون کو نافذ کردیا گیا تو ایک مصیبت آجائے گی ۔ لوگوں کے درمیان مخالفت پیدا ہوجائے گی حالانکہ یہ لوگ تمام طبقات کے درمیان توازن چاہتے ہیں۔ یہ حیلے بہانے ان لوگوں کے ہوتے ہیں جو دعوائے ایمان تو کرتے ہیں لیکن مومن نہیں ہوتے ۔ اس قسم کے دلائل تو منافقین کے ہوتے ہیں اور ہر دور میں منافقین نے یہی کہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے اوپر سے ان کو چھپانے والی اس چادر کو اتار پھینکتے ہیں اور حضرت نبی کریم ﷺ کو اطلاع فرماتے ہیں کہ اللہ ان جیسے لوگوں کی حقیقت قلبی اور انکے اندرون سے واقف ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ کا حکم یہی ہے کہ ان جیسے لوگوں کے ساتھ سختی نہ برتی جائے بلکہ ان کو نصیحت کی جائے کہ وہ اس قسم کے ہیر پھیر سے باز آجائیں ۔
Top