Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 77
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَیْدِیَكُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَةً١ۚ وَ قَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ١ۚ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍ١ؕ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ١ۚ وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى١۫ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قِيْلَ : کہا گیا لَھُمْ : ان کو كُفُّوْٓا : روک لو اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ وَاَقِيْمُوا : اور قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتُوا : اور ادا کرو الزَّكٰوةَ : زکوۃ فَلَمَّا : پھر جب كُتِبَ عَلَيْهِمُ : ان پر فرض ہوا الْقِتَالُ : لڑنا (جہاد) اِذَا : ناگہاں (تو) فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان میں سے يَخْشَوْنَ : ڈرتے ہیں النَّاسَ : لوگ كَخَشْيَةِ : جیسے ڈر اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَشَدَّ : زیادہ خَشْيَةً : ڈر وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب لِمَ كَتَبْتَ : تونے کیوں لکھا عَلَيْنَا : ہم پر الْقِتَالَ : لڑنا (جہاد) لَوْ : کیوں لَآ اَخَّرْتَنَآ : نہ ہمیں ڈھیل دی اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : مدت قَرِيْبٍ : تھوڑی قُلْ : کہ دیں مَتَاعُ : فائدہ الدُّنْيَا : دنیا قَلِيْلٌ : تھوڑا وَالْاٰخِرَةُ : اور آخرت خَيْرٌ : بہتر لِّمَنِ اتَّقٰى : پرہیزگار کے لیے وَ : اور لَا تُظْلَمُوْنَ : نہ تم پر ظلم ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
’ تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو ؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر ‘ کہتے ہیں خدایا ‘ یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی ؟ ان سے کہو ‘ دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے ‘ اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لئے زیادہ بہتر ہے ‘ اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا
(آیت) ” نمبر 77 تا 83۔ آیات کے ان چار پیروں میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں نشاندہی کی گئی ہے اور ممکن ہے کہ یہ وہی لوگ ہوں جن کے بارے میں اس سبق کے سابقہ پیراگراف میں یہ کہا گیا تھا ۔ (آیت) ” وان منکم لمن لیبطئن “۔ (4 : 72) اور یہ لوگ مناق تھے اور ممکن ہے کہ یہ تمام ریمارکس ان منافقین کے بارے میں ہوں ‘ جن سے یہ افعال سرزد ہوتے تھے اور وہ ایسی باتیں بھی کیا کرتے تھے ۔ ہم اسی تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں ‘ اس لئے کہ ان آیات میں جن لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ ان میں نفاق کے خدوخال زیادہ نظر آتے ہیں ۔ مسلمانوں کی صفوں میں منافق موجود تھے اور ایسے افعال اور اس قسم کے اقوال صرف منافقین ہی سے صادر ہونا تو قریب الفہم ہے جو انکے مزاج اور سابقہ کردار کے مطابق ہے ۔ اگرچہ ان پیراگرافوں کے انداز بیان باہم دگر گڈمڈ ہے ۔۔۔۔۔ تاہم ان میں سے پہلا پیرا گراف جس میں کہا گیا ہے ۔ (آیت) ” قیل لھم کفوا ایدیکم واقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ فلما کتب علیھم القتال “۔ (4 : 77) ہمیں تردد میں ڈال دیتا ہے کہ آیا یہ تمام پیرا گراف صرف منافقین کے بارے میں ہیں ۔ اگرچہ منافقین کے اندر بھی یہ صفات موجود تھیں اور اس کے باوجود کہ یہ آیات دوسری آیات سے ملی جلی ہیں اور طرز ادا بھی ایک ہی نظر آتا ہے ۔ تاہم میرا میلان اس طرف ہے کہ یہ پیراگراف مہاجرین کے ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو منافق تو نہ تھا مگر ضعیف الایمان تھا ۔ اور ضعف ایمانی کا آخری درجہ بہرحال نفاق کے قریب ہوجاتا ہے ۔ رہے دوسرے تین پیراگراف تو غالب یہی ہے کہ ان میں منافقین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ یہ لوگ اسلامی صفوں کے اندر گھسے ہوئے تھے ‘ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تمام پیراگراف منافقین ہی کے بارے میں ہوں جو ایسے کام اور ایسی باتیں کیا کرتے تھے ۔ ہم نے یہ موقف کیوں اختیار کیا ہے کہ ان آیات کے پہلے پیراگراف سے مراد یا تو ضعیف الایمان مہاجرین ہیں اور یا ایسے لوگ ہیں جو ایمان کے اعتبار سے پختہ کار نہ تھے اور انکے دلوں کے اندر ایمان کے نشانات اچھی طرح واضح اور پختہ نہ ہوئے تھے ؟ اور ان کی ایمانی فکر مضبوط نہ ہوئی تھی ؟ اس موقف کی وجہ یہ ہے کہ مہاجرین کے بعض گروہ مکہ مکرمہ میں لڑنے کے لئے نہایت ہی پر جوش تھے اور اس وقت لڑائی کی اجازت نہ تھی اور حکم یہ تھا ۔ (آیت) ” کفوا ایدیکم واقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ “۔ (4 : 77) بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر جن 27 افرد نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔ انہوں نے حضور ﷺ کو پیش کش کردی تھی کہ اگر آپ چاہیں تو ہم آج میں منی میں موجود کفار پر ٹوٹ پڑیں ۔ اس پر حضور اکرم ﷺ نے ان کی جواب دیا تھا کہ : ” مجھے ابھی تک جنگ کی اجازت نہیں دی گئی ۔ “ اس واقعہ کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو پھر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہلے پیراگراف سے جو لوگ مراد ہیں وہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اگلے تین پیرا گراف آتے ہیں یعنی منافقین ۔ کیا یہ بیت عقبہ ثانیہ والے لوگ ضعیف الاایمان ہو سکتے ہیں ‘ جیسا کہ پہلا پیرا بیان کر رہا ہے ؟ ہر گز نہیں اس لئے کہ ان سابقین انصار سے بھی اسلامی تاریخ میں کسی کمزوری کا صدور منقول نہیں ہے ۔ نہ کمزوری ‘ نہ نفاق اس لئے کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا تھا ۔ اس لئے اقرب الی الذہن یہی ہے کہ اس پہلے مجموعہ سے مراد ضعیف مہاجرین ہی ہیں ۔ یہ لوگ مدینہ جا کر پرامن زندگی کے خوگر ہوگئے تھے ۔ ان سے مشکلات دور ہوگئی تھیں اور جب جہاد و قتال فرض ہوگئے تو وہ ان مشکلات کے برداشت میں کمزوری دکھانے لگے ۔ اور یہ بات بھی اقرب الی لذہن ہے کہ دوسرے تین پیراگرافوں کے اندر بیان کردہ اوصاف ان کمزور اہل ایمان مہاجرین کے نہ ہوں بلکہ وہ منافقین کے اوصاف ہوں ۔ اس لئے کہ اگرچہ انسان بشری کمزوریوں سے پاک نہیں ہوتا پھر بھی ہمارے لئے یہ مشکل ہے کہ ہم کسی مہاجر مومن کی طرف یہ بات منسوب کریں کہ وہ اگر مشکلات سے دو چار ہوں تو ان کو حضرت نبی اکرم ﷺ کی جانب منسوب کرے اور بھلائی آپ ﷺ کی طرف منسوب نہ کرے اور یہ کہ کوئی مہاجر مومن منہ پر حضور ﷺ کی اطاعت کا دم بھرے اور گھر جاکر سازشیں کرے ۔ ہاں اگرچہ یہ ممکن تھا کہ کوئی نافہمی کی وجہ سے اچھی اور بری خبر کو پھیلا دے لیکن اس سے بھی اس بات کا اظہار ہوگا کہ یہ لوگ نظام جماعت کو اچھی طرح نہیں سمجھے ‘ لیکن اشاعت پر بھی کسی کو منافق نہیں کہا جاسکتا ۔ بہرحال ان آیات پر غور کرنے سے حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان آیات کی تفسیر میں جو روایات وارد ہیں ان میں بھی کوئی حتمی بات نہیں کہی گئی حتی کہ پہلے پیراگراف کے بارے میں بھی کوئی حتمی رائے وارد نہیں ہے ۔ بعض روایات میں ہے کہ اس سے مہاجرین کا ایک گروہ مراد ہے ۔ اور بعض میں ہے کہ اس سے مراد بھی منافقین تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان کے بارے میں محتاط موقف اختیار کرتے ہیں اس لئے کہ ہم مہاجرین کو جنگ میں پہلو تہی کرنے اور مسلمانوں کو پہنچنے والے مصائب سے دامن بچانے کے اوصاف سے متصف نہیں کرسکتے جس طرح ان پیراگرافوں سے سابق آیات میں آیا ہے ۔ نیزہم ان پر یہ الزام بھی عائد نہیں کرسکتے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف برائی کی نسبت کرسکتے ہیں ‘ اور بھلائی کی نسبت وہ اللہ کی طرف کرتے ہیں اور یہ کہ وہ رات کو حضور ﷺ کے خلاف کوئی مشورہ کرسکتے ہیں ‘ اگرچہ سیاق کلام اور قرآن کریم کے عمومی انداز بیان سے کسی واقف شخص کے لئے ان پیراگرافوں کا انداز سے تجزیہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ یہ تجزیہ وہی شخص کرسکتا ہے جس کے ایک عرصے تک قرآن کریم پر غور وخوص کیا ہو ۔ اور قرآن کریم کے اسلوب بیان سے خوب واقف ہو۔ (آیت) ” الم ترالی الذین قیل لھم کفوا ایدیکم واقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ فلما کتب علیھم القتال اذا فریق منھم یخشون الناس کخشیۃ اللہ اواشد خشیۃ وقالوا ربنا لم کتبت علینا القتال لولا اخرتنا الی اجل قریب قل متاع الدنیا قلیل والاخرۃ خیر لمن اتقی ولا تظلمون فتیلا (77) این ما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ (4 : 77۔ 78) ” تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو ؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر ‘ کہتے ہیں خدایا ‘ یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی ؟ ان سے کہو ‘ دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے ‘ اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لئے زیادہ بہتر ہے ‘ اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا ۔ رہی موت تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔ “ ان لوگوں کے حال پر اللہ تعالیٰ تعجب کا اظہار فرماتے ہیں ۔ یہ لوگ جب مکہ میں تھے تو لڑنے کے لئے پرجوش تھے ‘ وہ بہت جلد جہاد شروع کرنے والے تھے ۔ اس وقت مشرکین کی طرف سے ان کے خلاف مظالم ڈھائے جا رہے تھے ‘ وہ فتنوں میں گھرے ہوئے تھے اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے انکو انکی مصلحت کی خاطر جہاد کی اجازت نہ دی تھی ۔ لیکن جب مناسب وقت آگیا ‘ جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر کیا ہوا تھا اور حالات سازگار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر جہاد فرض کردیا ۔ (اور جہ جہاد فی سبیل اللہ تھا) تو ان میں سے ایک فریق جزع وفزع کرنے لگا اور یہ فریق ان لوگوں سے ڈرنے لگا جن کے ساتھ انہیں لڑنے کا حکم دیا گیا تھا ‘ حالانکہ وہ لوگ بھی انہی جیسے انسان تھے اور یہ ڈر اس قدر شدید تھا جس طرح اللہ تعالیٰ کا ڈر شدید ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید ڈر تھا ‘ حالانکہ اللہ جیسا شدید عذاب کوئی نہیں دے سکتا ۔ اور نہ اللہ کی پکڑ جیسی اور کسی کی پکڑ ہو سکتی ہے ۔ ایسے لوگ نہایت ہی حسرت آمیز الفاظ میں اور سخت جزع وفزع کی حالت میں یہ کہتے ہیں ۔ (آیت) ” ربنا لم کتبت علینا القتال “۔ (4 : 77) (اے ہمارے رب تو نے ہم پر قتال کیوں فرض کردیا ؟ ) ایک مومن کی جانب سے یہ سوال عجیب و غریب لگ رہا ہے ۔ اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فریق کے نقطہ نظر میں اس دین کے فرائض وواجبات کی نوعیت پوری طرح واضح نہ تھی اور یہ فریق اس سوال کے بعد جس خواہش کا اظہار کرتا ہے وہ نہایت ہی حقیر اور فقیرانہ خواہش ہے ۔ (آیت) ” لولا اخرتنا الی اجل قریب “۔ (4 : 77) (کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی) ہمیں تھوڑا سا وقت اور مل جاتا ۔ اور ہم اس خوفناک اور بھاری فریضہ سے دوچار نہ ہوتے ۔ بعض اوقات اس طرح ہوتا ہے کہ بہادری اور تہور اور تیزی سے کسی معاملے کے اندر گھس جانے والے لوگ نہایت تیزی سے جزع وفزع اور خوف وہراس میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ ان کی یہ حالت اس وقت ہوجاتی ہے جب وہ واقعات کے اندر گھس جاتے ہیں اور معاملہ اپنی حقیقی شکل میں سامنے آتا ہے بلکہ یہ صورت حال عموما قاعدہ کلیہ کی شکل میں پیش آتی رہتی ہے ۔ اور یہ اس وجہ سے کہ یہ جوش اور جرات اور تہور اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ ایسے شخص نے مصیبتوں اور مشکلات کا حقیقی اندازہ نہیں لگایا ہوتا ۔ یہ جوش و خروش حقیقی بہادری ‘ مشکلات کے انگیز کرنے اور ثابت قدمی کی وجہ سے نہیں ہوتا ۔ کبھی یہ اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ مشکلات تنگی اور تکالیف کے واقع ہونے کے احتمالات کم ہوتے ہیں اور ایسے شخص کو شکست اور ہزیمت نظر نہیں آتی ۔ اس وجہ سے ایسے لوگوں کے اندر جوش و خروش زیادہ ہوجاتا ہے اور وہ آگے بڑھتے ہیں ‘ جلدی حرکت میں آتے ہیں اور ہر قیمت پر فتح حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنی اس حرکت ‘ اقدام اور فتح کی راہ میں حائل مشکلات کا اچھی طرح اندازہ نہیں لگایا ہوتا ۔ چناچہ جب ان کا سامنا ان تکالیف سے ہوتا ہے تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ان کے اندازوں سے زیادہ مشکل ہیں۔ وہ ان کے تصور سے زیادہ شدید ہوتی ہیں تو وہ الٹے پاؤں پھر نے والوں اور جزع وفزع کرنے والوں کی پہلی صف میں ہوتے ہیں وہ ان مشکلات کے لئے قبل از وقت تیاری کرتے ہیں ۔ حرکت اور اقدام کی مشکلات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ان کے نفوس ان مشکلات کو کہاں تک برداشت کرسکتے ہیں ۔ یہ لوگ صبر وثبات سے کام لیتے ہیں اور کسی معرکے میں تیاری کے بعد کودتے ہیں یہ پرجوش ‘ سرتیز اور آگے بڑھنے والے ایسے لوگوں کو کمزور سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کی سنجیدگی اور متوازن شخصیت ان کو متاثر نہیں کرتی لیکن حقیقی معرکے کے وقت یہ بات نظر آتی ہے کہ ان میں سے کون زیادہ مشکلات کو انگیز کرسکتا ہے اور کون ہے جس کی نظر دور رس ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ ان آیات میں جس کا فریق کا ذکر ہے ‘ وہ اس قسم لوگوں پر مشتمل تھا ‘ کہ جن کو مکہ میں مشکلات اور اذیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ یہ لوگ ان مشکلات پر صبر نہ کرسکتے تھے اور یہ لوگ اپنی توہین بھی برداشت نہ کرسکتے تھے ‘ اس لئے کہ یہ شریف لوگ تھے ‘ اس وجہ سے وہاں یہ لوگ جوش میں آکر حضور ﷺ سے یہ اجازت طلب کرتے تھے کہ آپ ان کو ان اذیتوں پر مدافعت کرنے کی اجازت دیں تاکہ وہ اپنی عزت وآبرو کے بچانے کے لئے کوئی اقدام کریں ۔ اور حضور ﷺ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ان لوگوں کو مشورہ دیتے تھے کہ وہ ذرا انتظار کریں ‘ ہر کام اپنے وقت پر ہوگا ۔ ہر کام کے لئے تربیت اور تیاری کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر اقدام وقت پر کیا جاتا ہے اور وقت آنے کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ اس قسم کے لوگ مدینہ میں امن وامان سے رہنے لگے ‘ نہ وہاں ان کی تذلیل ہوتی اور نہ ہی وہاں اذیت ہوتی اور یہ حالت ان ذاتی اور شخصی نیش زینوں کے بعد انہیں نصیب ہوئی تھی جو مکہ میں معمول تھا ‘ اس لئے ایسے لوگ جنگ میں دلچسپی نہ رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی جواز پاتے تھے ‘ یا کم از کم یہ لوگ چاہتے تھے کہ اس بارے میں کسی شتابی کی ضرورت نہیں ہے ۔ (آیت) ” فلما کتب علیھم القتال اذا فریق منھم یخشون الناس کخشیۃ اللہ اواشد خشیۃ وقالوا ربنا لم کتبت علینا القتال لولا اخرتنا الی اجل قریب “۔ (4 : 77) ” اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر ‘ کہتے ہیں خدایا ‘ یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی ؟ ۔ یہ فریق غالبا مومنین تھے ۔ اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ یہ لوگ نہایت ہی عاجزی سے اور غمگین انداز میں اللہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں ۔ ان کی اس عاجزی اور غم اندوز لہجے کو ہمیں مدنظر رکھنا چاہئے ۔ لیکن ان لوگوں کا ایمان ابھی پختہ معلوم نہیں ہوتا ۔ اور ان کے تصور حیات کے نشانات ابھی تک واضح نہ تھے ۔ یہ مقاصد چند لوگوں کی ذات کو بچانے یا کسی قوم کو بچانے اور یا کسی وطن کو بچانے سے زیادہ بڑے اور اونچے تھے ۔ اسلامی نظام حیات کے مقاصد کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اس پورے کرہ ارض پر اسلامی نظام حیات کو قائم اور غالب کیا جائے اس کا بنیادی مقصد اس پورے کرہ ارض پر ایک عادلانہ نظام کا قیام اور ایک ایسی سلطنت کا قیام ہے جو پوری قوت سے ان رکاوٹوں کو دور کرسکتی ہو ‘ جو دعوت اسلامی کے پھیلاؤ کی را ہمیں کھڑی ہیں اور جو لوگوں کو اس بات سے روکتی ہیں کہ دعوت اسلامی کی طرف کان دھریں ۔ یہ حکومت اپنے اندر اتنی طاقت بھی رکھتی ہو کہ دنیا میں اگر کوئی اپنی خوشی اور اپنے اختیار سے کوئی عقیدہ اپنا لے تو ہو اسے ہر قسم کے تشدد اور دباؤ سے بچا سکے ۔ چاہے یہ تشدد کسی قسم کا بھی ہو ۔ مثلا یہ کہ کسی کو محنت و مزدوری سے نہ محروم کیا جائے اور معاشرے کے اندر اپنی مرضی کی تگ ودو سے محروم نہ کیا جائے ۔ غرض یہ وہ اونچے مقاصد ہیں جو کسی کو ذاتی اور شخصی طور پر اذیت پہنچانے یا نہ پہنچانے کے مقابلے میں بہت زیادہ اہم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ میں نصیب ہونے والا امن و سکون (اگر فرض کرلیا جائے کہ وہ کسی وقت تھا) اس قدر اہم نہ تھا کہ مسلمانوں کو اس مہم اور تحریک جہاد سے مزید کچھ عرصے کے لئے محروم رکھا جاتا ۔ ابھی تک اس فریق کا ایمان اس قدر پختہ نہ ہوا تھا کہ وہ اپنی ذات کو بیچ میں سے نکال دیں ۔ وہ اللہ کے احکام کو سنیں اور انہی احکام کو علت ومعلول اور اسباب واثرات قرار دیں ۔ ان کو قول فیصل قرار دیں ‘ چاہے کوئی اور گہری حکمت ان کی سمجھ میں نہ آئے ‘ لیکن ابھی تک اس فریق کا تصور دین اس قدر پختہ نہ ہوا تھا کہ یہ لوگ اس دین کی اصل مہم اور مقصد کو سمجھ سکتے ۔ مومن بحیثیت مومن اللہ کا دست قدرت ہے اور اللہ تعالیٰ اس دنیا کے انسانوں کی زندگی میں اس کے ذریعے جو رسم و رواج چاہتا ہے ‘ نافذ کرا دیتا ہے ۔ چناچہ سیاق کلام سے ایسے لوگوں کے موقف کی تصویر کشی کی جاتی ہے اور ان کے اس موقف پر تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے اور اسے ناپسند کیا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ میں اہل اسلام کو ‘ ان پر ہونے والے مظالم کے انتقام کی اجازت کیوں نہ دی ؟ انہوں نے اس دست درازی کو کیوں برداشت کیا اور قوت کے استعمال کی وجہ سے انہوں نے ان نیش زنیوں کا علاج کیوں نہ کیا حالانکہ مسلمانوں میں سے اکثر لوگ ایسا کرسکتے تھے ۔ کیونکہ تمام لوگ نہ تو کمزور تھے اور نہ بزدل ۔ وہ تو اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے تھے اور نہ مسلمان مکہ میں قلت قلیلہ تھے ۔ وہ اس انتقام سے باز رہنے اور صرف اقامت صلوۃ ‘ ادائیگی زکوۃ اور صبر و برداشت پر اکتفاء کیوں کرتے تھے ۔ حالانکہ بعض مسلمانوں پر ایسا تشدد ہو رہا تھا جو ناقابل برداشت تھا ۔ بعض ایسے تھے جو برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے اپنے دین کے بارے میں فتنے میں پڑجاتے تھے ۔ اور بعض ایسے بھی تھے جو ان تکالیف کی وجہ سے جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔ اس کی کیا حکمت تھی ؟ تو حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہم کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتے کیونکہ جو حکمت ہم بیان کریں گے اسے گویا ہم اللہ کی طرف منسوب کریں گے جبکہ اللہ نے خود وہ حکمت بیان نہیں کی ۔ اس طرح ہم اللہ کے احکام وفرائض کے وہ اسباب وعلل بھی بیان کرسکتے ہیں جو درحقیقت ان احکام کے اسباب نہیں ہیں ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے بیان کردہ اسباب بھی وہی ہوں لیکن ان کے علاوہ اور اسباب اور حکمتیں بھی ہوں ‘ جن کا علم اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہیں دیا ۔ اسی میں ہمارے لئے خیر اور بھلائی تھی کہ ہمیں اس کا علم نہ ہو ۔ یہ ہے ایک مومنانہ موقف جو کوئی اللہ کے احکام اور شریعت کے قوانین کے سامنے اختیار کرسکتا ہے ‘ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے متعین اور مخصوص حکمت اور علت خود حتمی طور پر بیان نہیں کی ‘ چاہے ہمارے ہمارے ذہن میں اس کی جو علت بھی آئے اور جو حکمت بھی ظاہری طور پر نظر آئے ۔ چاہے کسی حکم کی جو کیفیت تنقیذ بھی ہمارے ذہن میں آئے یا اس فرض کی ادائیگی کا جو طریقہ بھی ہمارے فہم میں آئے جہاں تک عقل اس کا ادراک کرسکتی ہو ‘ لیکن اچھا موقف یہی ہے کہ انسان مختلف احتمالات میں سے اسے ایک احتمال ہی سمجھے اور بالجزم یہ نہ کہے کہ یہی ہے وہ حکمت جو اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھی اور اس کے سوا کوئی اور حکمت نہیں ہے ۔ اگرچہ کسی کو اپنے علم و خرد پر پورا پورا اعتماد ہو اور اگرچہ اس نے احکام الہی میں نہایت ہی گہرا غور وخوض کیا ہو ‘ اس لئے کہ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہونے والی حکمتوں کا احاطہ کرلیا ہے ۔ یہ محتاط انداز جس کو ہم تجویز کر رہے ہیں بارگاہ ایزدی کے آداب سے زیادہ قریب ہے ۔ اور احتیاط کا بھی تقاضا ہے کہ اللہ کے علم اور انسان کے علم کے درمیان طبیعت اور حقیقت کا امتیاز رہے ۔ بارگاہ ایزدی کے ان آداب کا خیال رکھتے ہوئے ‘ میں اس موضوع پر اب بات کرتا ہوں کہ مکہ مکرمہ میں جہاد کیوں فرض نہ ہوا اور مدینہ میں جا کر کیوں فرض ہوا ؟ اس موضوع پر میں وہ باتیں بیان کروں گا جو ہمیں نظر آتی ہیں کہ شاید یہی سبب اور حکمت ہو ‘ لیکن یہ سبب و حکمت دونوں بطور احتمال بیان کئے جارہے ہیں اور اصل حقیقت کیا ہے اسے ہم اللہ پر چھوڑتے ہیں ۔ ہم اپنی جانب سے اللہ کی احکام کے لئے اسباب اور حکمتیں فرض نہیں کرتے ۔ اصل حقیقت کا علم صرف اللہ جل شانہ کو ہے اور اس نے نص صریح کے ذریعے اس کی اطلاع ہمیں نہیں دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اسباب جو ہم بیان کر رہے ہیں محض اجتہادی ہیں ‘ ان میں صحت کا بھی احتمال ہے ‘ اور غلطی کا بھی ۔ زیادہ بھی ہو سکتے ہیں اور ان میں کمی بھی ہو سکتی ہے ۔ یہاں ان اسباب کے ذکر سے صرف یہ مقصد ہے کہ ہم اللہ کی آیات میں تدبر کریں اور یہ سمجھیں کہ ہمارے دور میں غور وفکر کے بعد ہم پر یہ اسباب واضح ہوئے ۔ (الف) یہ سبب بھی ہو سکتا ہے کہ مکہ زمانہ تربیت اور تیاری کا زمانہ تھا ۔ یہ تیاری ایک متعین خاندان میں ‘ ایک مخصوص قوم میں اور متعین ظروف واحوال میں ہو رہی تھی ۔ اس تربیت اور تیاری کے اہداف یہ تھے کہ ایک عرب کی شخصیت کو ایسے حالات میں صبر کرنے پر تیار کیا جائے جن میں وہ کبھی صبر نہ کرسکتا تھا ۔ مثلا یہ کہ اس کی ذات یا اس کے زیر کفالت لوگوں پر زد پڑے اور وہ اس پر صبر کرے ۔ تاکہ وہ عرب شخصیت اپنی قبائلی شناخت اور اپنی ـذات کو بھول جائے اور اس کی زندگی کا محور اس کی ذات اور اس کے زیر کفالت لوگ ہی نہ ہوں اور وہ اپنی زندگی صرف اپنی ذات کے لئے متحرک نہ کرے ۔ نیز ایک عرب مزاج کو یہ تربیت دینا مقصود تھا کہ وہ اپنے اعصاب پر قابو پاسکے ۔ یہ نہ ہو کہ پہلے تاثر پر ہی وہ جوش میں آجائے اور پہلی ہیجان انگیز حرکت پر ہی آپے سے باہر نہ ہوجائے اس کی حرکت اور اس کے مزاج کے اندر اعتدال پیدا ہوجائے ۔ اس کو یہ تربیت بھی دینا مقصود تھا کہ وہ ایک منظم سوسائٹی کا فرد ہو اور اس کی ایک قیادت ہو جس کی طرف وہ اپنی زندگی کے تمام امور میں رجوع کرنے کا عادی ہوجائے اور وہ کوئی کام بھی نہ کرے مگر اس قیادت کے اشارے کے مطابق اگرچہ یہ اوامر اس کی عادی زندگی کے خلاف اور متضاد ہوں ۔ ایک عرب شخصیت کی تربیت کے باب میں یہ نہایت ہی بنیادی باتیں تھیں ۔ اس سے ایک اسلامی سوسائٹی کی تشکیل مقصود تھی جو ایک قیادت کے تابع ہو جو ترقی پذیر اور مہذب سوسائٹی ہو اور قبائلی اور غیر مہذب (BArbAriAn) سوسائٹی نہ ہو ۔ (ب) اس کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قریش کے ماحول میں پرامن دعوت زیادہ موثر ہو سکتی تھی ‘ اس لئے کہ یہ سوسائٹی شرفاء کی سوسائٹی تھی اور اگر سوسائٹی کے اندر مسلمان جنگ شروع کردیتے تو اس کی وجہ سے یہ لوگ بغض وعناد میں اور تیز ہوجاتے ۔ ایسے حالات میں جو مکہ میں اس وقت تھے ‘ خونریز لڑائیاں شروع ہوجاتیں اور جنگ داحس ‘ جنگ بسوس ‘ اور جنگ غبراء کی طرح قتل ومقاتلے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ۔ یہ جنگیں عربوں کی مشہور جنگیں تھیں اور سالہا سال تک مسلسل لڑی جاتی رہی ۔ اس جدید جنگ کا تعلق اسلام سے ہوتا اور تمام واقعات اسلام کے حوالے سے یاد کئے جاتے ۔ ان جنگوں کا کبھی خاتمہ نہ ہوتا اور اسلام بجائے اس کے کہ ایک دعوت ہوتی ‘ وہ جنگ وجدال کی طویل داستان ہوتا اور ان داستانوں کے نتیجے میں اسلام کی اصل دعوت پس منظر میں چلی جاتی ۔ اس دعوت کا یہ حال ابتدائی مرحلے ہی میں ہوجاتا اور کچھ عرصے کے بعد یہ ختم ہی ہوجاتی ۔ (ج) یہ اس لئے بھی تھا کہ اگر مکہ میں جہاد کی اجازت دی جاتی تو گھر گھر میں جنگ شروع ہوجاتی ۔ اس لئے کہ مکہ مکرمہ کے اندر کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی جو لوگوں پر کنٹرول کرسکتی ۔ نیز وہاں کوئی ایسی حکومت نہ تھی جو مسلمانوں کو تکلیفات دیتی تھی ‘ بلکہ مسلمانوں کو جو اذیتیں دی جاتی تھیں وہ ہر مسلمان کے اپنے رشتہ داروں ہی کے ذریعے دی جاتی تھیں ، خود رشتہ دار ہی مسلمان ہونے والے لوگوں پر تشدد کرتے ‘ انہیں اذیت دیتے اور اپنے خیال کے مطابق ان کی تربیت کرتے ۔ اگر مکہ میں جنگ کی اجازت دے دی جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ گھر گھر میں جنگ شروع ہوجاتی اور لوگ کہتے دیکھو یہ ہے اسلام ‘ حالانکہ اسلام پر فتنہ ڈالنے کا الزام اس وقت بھی لگایا گیا تھا جب مسلمانوں کو حکم یہ تھا کہ ہاتھ روکے رکھو ۔ لیکن قریش حج اور عمرہ کے لئے آنے والوں اور تجارتی بازاروں کے اندر اسلام کے خلاف یہی پروپیگنڈا تو کرتے رہتے تھے ۔ وہ کہتے کہ محمد باپ بیٹے کے درمیان اور ایک شخص اور اس کے قبیلے کے درمیان عداوت ڈال دیتے ہیں ۔ اگر اسلام لڑکوں اور غلاموں کو یہ اجازت دے دیتا کہ وہ والدین کو اور اپنے آقاؤں اور اپنے سرپرستوں کو قتل کردیں اور ہر گھر اور محلہ میں یہ جنگ شروع ہوجاتی تو قریش کے پروپیگنڈے کا عالم کیا ہوتا ؟ (د) اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو لوگ اپنی اولاد پر بوجہ اسلام مظالم ڈھا رہے تھے ‘ جو لوگ اپنے غلاموں کو اذیت دیتے تھے اور جو لوگ اپنے زیر سرپرستی لوگوں پر تشدد کرتے تھے ‘ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ یہ لوگ آگے جاکر اسلام کے حق میں عظیم خدمات سرانجام دینے والے ہیں ‘ یہ اسلام کے سپاہی ہوں گے ‘ مخلصین اور قائدین بنیں گے ۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ حضرت عمر ؓ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھے ۔ (ھ) ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عربوں کی خودداری اور شرافت کا تقاضہ تھا کہ یہ لوگ ہمیشہ مظلوم کے حق میں آواز اٹھاتے تھے ۔ ایسا مظلوم جس پر ناحق تشدد کیا جا رہا ہو لیکن وہ اپنی بات کا اس قدر پکا ہو کہ وہ کسی قیمت پر بھی باز نہ آرہا ہو ۔ خصوصا اس صورت میں جبکہ نہایت ہی شریف لوگوں تشدد ہو رہا ہو اور ایسے کئی واقعات ہوئے جن سے اس نظریے کی صحت کا ثبوت ملتا ہیں ۔ ابن الدغنہ اس کے لئے تیار نہ ہوئے کہ وہ حضرت ابوبکر ؓ کا ساتھ چھوڑ دیں اور وہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کریں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات عربوں کے لئے نہایت ہی شرم کی بات ہے ۔ انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کو پیشکش کی کہ وہ ان کی حمایت کریں گے ۔ اس کی ایک دوسری مثال شعب ابی طالب میں بنی ہاشم کا محاصرہ ہے ۔ یہ محاصرہ اس قدر طویل ہوگیا کہ لوگ بھوک سے مرنے لگے اور ان پر سخت مصائب ٹوٹ پڑے ۔ اگر قدیم زمانوں کی اور سوسائٹیوں میں یہ واقعہ ہوا ہوتا تو لوگ مظلوموں کو حقیر سمجھتے اور ان کے ساتھ مذاق کرتے اور ظالموں کو عزت اور وقار کی نظروں سے دیکھا جاتا (لیکن وہاں جو کچھ ہو اوہ تاریخ عرب کی زریں مثال ہے) (و) اس کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مکہ میں مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم تھی ‘ اور وہ مکہ مکرمہ ہی میں زندہ رہ سکتے تھے ۔ اس لئے کہ جزیرۃ العرب کے دوسرے علاقوں تک دعوت پہنچی ہی نہ تھی ۔ اگر پہنچی تھی تو اس کے بارے میں کچی پکی خبریں ہی جا بجا پہنچی تھیں ۔ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ تحریک اسلامی اور قریش کے اندر بعض لوگوں کے درمیان داخلی اختلافات ہیں اور اگر جنگ شروع ہوگئی ہوتی تو وہ غیر جانبدار ہوتے اور دیکھتے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ ایسے حالات میں ممکن تھا کہ یہ معرکہ مسلمانوں کی اس قلیل تعداد کے مارے جانے کے بعد ختم ہی ہوجاتا ۔ اگرچہ یہ قلیل تعداد اپنے مقابلے میں دوگنا کفار کو قتل کردیتی ‘ لیکن ان کے ختم ہونے کے بعد شرک اپنی جگہ مزید مضبوط ہوجاتا اور اسلام کی یہ مختصر فوج صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ۔ اسلامی نظام حیات دنیا میں حقیقی روپ اختیار نہ کرسکتا حالانکہ اسلام ایک ایسا دین تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ دنیا میں بطور نظام زندگی قائم ہو اور عملا لوگوں کی زندگیوں میں نافذ ہو۔ (ز) ان تمام امور کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مکی دور میں اس بات کی حقیقی ضرورت تھی ہی نہیں کہ مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی جائے کہ وہ مقاتلہ کرکے تشدد کی مدافعت کریں ۔ اس لئے کہ دعوت اسلامی کا بنیادی کام ہو رہا تھا اور دعوت مسلسل جارہی تھی ۔ حضرت محمد ﷺ کی ذات بابرکات موجود تھی اور بنی ہاشم کی تلواریں آپ کی حفاظت کے لئے ہر وقت بےنیام تھیں اگر کوئی شخص آپ پر ہاتھ اٹھاتا تو اسے یہ خطرہ لاحق تھا کہ اس کا ہاتھ کٹ جائے گا اور اس وقت کا قبائلی نظام موجود تھا جس میں ہر قبیلہ اس بات سے ڈرتا تھا کہ کہیں وہ خواہ مخواہ بنی ہاشم کے ساتھ لڑائی میں الجھ نہ جائے اور یہ خطرہ ہر اس صورت میں بالکل موجود تھا اگر کسی قبیلے کا کوئی فرد حضور ﷺ پر ہاتھ اٹھاتا ۔ چونکہ داعی کی شخصیت محفوظ تھی اور اس کی حفاظت ہو رہی تھی ‘ اور داعی بنی ہاشم کی امداد سے اور اس وقت کے موجودہ قبائلی نظام کے رسم و رواج کے مطابق شب وروز دعوت دے رہا تھا ۔ داعی نہ دعوت کو خفیہ رکھ رہا تھا اور نہ اپنی بات کسی سے چھپاتا تھا مکہ میں کسی شخص میں یہ جرات نہ تھی کہ وہ آپ کی دعوت پھیلانے سے روک سکے ۔ آپ قریش کی مجالس میں ‘ خانہ کعبہ میں ‘ جبل صفا پر اور عمومی اجتماعات میں دعوت اسلامی کا کام کر رہے تھے اور کسی شخص کی یہ جرات نہ تھی کہ وہ آپ ﷺ کے منہ پر ہاتھ رکھ سکے ۔ کوئی شخص یہ جرات نہ کرسکتا تھا کہ آپ کو اغواء کرسکے ‘ آپ کو قید کرسکے ‘ اور آپ کو قتل کرسکے ‘ اور کوئی آپ کو اس کی مرضی کی بات کہنے پر مجبور نہ کرسکتا تھا کہ آپ اپنے دین کی بعض باتیں کہہ سکتے اور بعض باتوں پر خاموش رہتے ۔ ایک بار جب انہوں نے آپ کو یہ پیشکش کی کہ وہ ان کے خداؤں اور الہوں کو برا بھلا نہ کہیں اور ان کی بدگوئی نہ کریں تو آپ نے انکی اس پیشکش کو مسترد کردیا ۔ نیز جب انہوں نے یہ پیشکش کی کہ کچھ نرمی وہ کریں اور کچھ نرمی قریش کریں گے تو آپ نے اس کو بھی رد کردیا ۔ یعنی کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اپنانے سے انکار کردیا ۔ پیشکش یہ تھی کہ بعض باتیں حضور ﷺ ان کی مان لیں اور بعض باتیں وہ اسلام کی مان لیں گے تو حضور ﷺ نے اس کا بھی انکار کردیا ۔ غرض دولت اسلامی کا وجود قائم تھا ۔ حضور اکرم ﷺ موجود تھے اور بنی ہاشم بطور محافظ کام کر رہے تھے اور حضور ﷺ ہر شکل و صورت میں اور تمام ذرائع سے اپنی دعوت پھیلانے میں آزاد تھے ۔ ایسے حالات میں جنگ اور جہاد کی فلا الواقعہ کوئی حقیقی ضرورت بھی نہ تھی کہ قبل از وقت جہاد و قتال شروع کردیا جائے اور سب سے اہم وجہ یہی تھی کہ قریش کا خاندان اس دعوت کے لئے ساز گار تھا اور اس کے اچھے نتائج نکلنے والے تھے ۔ یہ تمام پہلو ‘ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں ‘ اس حکمت کے بعض پہلو ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے مکہ میں جہاد و قتال کا آغاز نہ ہوا اور وہاں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہاتھ روکے رکھیں ‘ نماز قائم کریں ‘ زکوۃ ادا کریں ۔ ان کاموں کی وجہ سے ان کی تیاری اور تربیت مکمل ہوجائے گی اور دعوت اسلامی کا مکہ منصوبہ بھی اپنے اختتام تک پہنچ جائے گا ۔ مسلمان اپنی قیادت کے احکام کا انتظار کریں گے اور جب وقت آئے گا تو اپنے آپ کو اس فریضہ سے عہدہ برآ کرسکیں گے اس لئے کہ اس فرض کی ادائیگی میں اب ان کی کوئی ذاتی غرض وغایت نہ ہوگی اور ان کا جہاد و قتال اب صرف اللہ کے لئے ہوگا فی سبیل اللہ ہوگا اور فی الوقت دعوت اپنی رفتار سے بہرحال جاری تھی ‘ اس کی حمایت ہو رہی تھی ۔ اور اس سے محبت کرنے والے موجود تھے اور نگہبان تھے ۔ اس منصوبے کی جو حکمت بھی ہو بہرحال اس وقت ایسے پرجوش لوگ موجود تھے جو بظاہر اس گھڑی کا بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے کہ انہیں جنگ کی اجازت دی جائے ۔ (آیت) ” فلما کتب علیھم القتال اذا فریق منھم یخشون الناس کخشیۃ اللہ اواشد خشیۃ وقالوا ربنا لم کتبت علینا القتال لولا اخرتنا الی اجل قریب “۔ (4 : 77) ” اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر ‘ کہتے ہیں خدایا ‘ یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی ؟ ۔ اسلامی صفوں میں ایک ایسے گروہ کی موجودگی جو جہاد و قتال سے کتراتا ہو ‘ ایک قسم کی بےچینی پیدا کرتی تھی اس طرح اسلامی صفوف میں ایک طرف یہ گروہ تھا جو جزع وفزع کرتا تھا ۔ دوسری طرف سچے اور کامل مومنین تھے جو پورے طور پر ثابت قدم تھے اور اپنے نصب العین پر مطمئن تھے اور راہ حق میں آنے والی بےچینیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے اور اس راہ کی مشقتوں کو برداشت کرتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان دو گروہوں کے اندر ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکتی تھی ۔ اس فریق مومن کے اندر بھی سچائی کے لئے جوش و خروش پایا جاتا تھا ‘ یہ عزم اور ارادے والے تھے ‘ انہیں یقین وثبات حاصل تھا ‘ مگر یہ لوگ ہر جذبے کا اظہار اپنی جگہ کیا کرتے تھے ۔ اس لئے کہ جب جنگ شروع ہی نہ ہوئی ہو اور اس کے احکامات ہی نہ دیئے گئے ہو تو وہ محض تہور اور خالی نعرہ بازی ہوگی اور جب حقیقی خطرکا سامنا ہو تو یہ بخار ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے ۔ ایسی صورت حال کا علاج قرآن کریم نے اپنے انداز میں کیا : (آیت) ” قل متاع الدنیا قلیل والاخرۃ خیر لمن اتقی ولا تظلمون فتیلا (77) این ما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ (78) (4 : 77۔ 78) ” کہو دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے ‘ اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لئے زیادہ بہتر ہے ‘ اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا ۔ رہی موت تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔ یہ لوگ موت سے ڈرتے ہیں ‘ اور زندگی چاہتے ہیں اور نہایت ہی عاجزانہ حسرت کے انداز میں تمنا کرتے ہیں کہ انہیں کچھ مزید مہلت مل جاتی اور ان کے سرمایہ میں کچھ مزید اضافہ ہوجاتا ۔ قرآن کریم کا کمال یہ ہے کہ ایسے جذبات جہاں سے پیدا ہوتے ہیں ‘ وہیں سے ان کی جڑ کاٹ دیتا ہے اور موت اور زندگی کی حقیقت واضح کردیتا ہے ۔ (آیت) ” قل متاع الدنیا قلیل “۔ (4 : 77) (کہہ دو زندگی کا سرمایہ تو بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے) زندگی کا تمام سروسامان ‘ بلکہ پوری زندگی کی حقیقت کیا ہے ‘ چند دن ‘ چند ہفتے ‘ چند مہینے یا چند سال ؟ اگر قدرے مہلت مل بھی جائے تو اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اگر پوری زندگی ہی ایک مختصر وقت ہے تو اس مختصر وقت میں وہ کیا سازوسامان جمع کریں گے ۔ اس لئے کہ زندگی تو دونوں ‘ ہفتوں اور مہینوں اور سالوں ہی کے اندر محدود ہے ۔ اس لئے اس مختصر زندگی کا طول بھی مختصر ہے ۔ (آیت) ” والاخرۃ خیرلمن اتقی “۔ (4 : 77) (اور آخرت ہی ایک خدا ترس انسان کے لئے بہتر ہے) ایک تو اس لئے کہ معاملہ دنیا ہی میں ختم نہیں ہوجاتا ۔ یہ دنیا اس انسانی سفر کی آخری منزل نہیں ہے ۔ یہ تو ایک مرحلہ ہے اس مرحلے کے بعد آخرت ہے اور سرمایہ وہی ہے جو آخرت کے لئے جمع ہو ۔ پھر یہ کہ آخرت کا دور طویل ہے اور لاانتہا ہے ‘ اور اس کا سرمایہ خیر ہے اور بہتر ہے ۔ جو لوگ خدا ترس ہوں وہ اسے بہتر سمجھتے ہیں ۔ یہاں بات خوف اور ڈر کی ہو رہی تھی ۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے تقوی کا ذکر کیا جو اگرچہ ڈر ہی ہے لیکن خدا کا ڈر ۔ یعنی اگر کوئی ڈرتا ہے تو اسے اللہ سے ڈرنا چاہئے ‘ انسان سے کیا ڈرنا ؟ لیکن ایک گروہ مسلمانوں کے اندر ایسا موجود ہے جو لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہئے ۔ ہاں جو خدا سے ڈرتا ہے تو پھر وہ لوگوں سے نہیں ڈرتا ۔ جس کے دل میں خوف خدا بس جائے پھر اس دل میں کسی اور کے خوف کے لئے جگہ ہی نہیں رہتی ۔ اس لئے کہ اگر اللہ نہ چاہے تو اس کا کوئی بھی کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتا ۔ (آیت) ” ولا تظلمون فتیلا “۔ (4 : 77) (اور تم پر شمہ برابر بھی ظلم نہ کیا جائے گا) تمہارے اجر میں کوئی غبن نہ ہوگا ‘ کوئی نقصان نہ ہوگا اور کوئی کمی نہ کی جائے گی ۔ اگر دنیا میں ان سے کوئی چیز رہ گئی تو دار آخرت تو آنے ہی والا ہے وہاں وہ کمی پوری کردی جائے گی جہاں کوئی ظلم نہ ہوگا اور حساب و کتاب میں کوئی کمی نہ ہوگی اور دنیا وآخرت کا فائنل بل مل جائے گا ۔ اس حقائق کے باوجود بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے نفوس کے اندر یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کو اسی زمین پر کچھ دن اور مہلت مل جائے اس کے باوجود کہ یہ لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور آخرت میں جزائے خیر کے بھی امیداوار ہیں ‘ تاہم وہ ایسی خواہش دل میں رکھتے ہیں ‘ خصاصا وہ لوگ جو ایمان کے ایسے درجے میں ہوں جس میں یہ فریق زیر بحث تھا ۔ یہاں اب بات کو ایک آخری جھلکی میں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے اور ایک ہی فقرے میں غلط تصور اور غلط سوچ کو درست کردیا جاتا ہے ۔ موت وحیات اور تقدیر اور اجل کے بارے میں سوچ کر درست کردیا جاتا ہے ، نیز جہاد و قتال کے زوایے سے موت وحیات کو ایک ٹچ دیا جاتا ہے ۔ اس فریق کا یہ جزع وفزع اسی لئے تو تھا کہ یہ سمجھتے تھے کہ موت قتال کے نتیجے میں آتی ہے حالانکہ (آیت) ” این ما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ (4 : 78) (موت تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو) ۔ موت تو ایک مقرر وقت پر آتی ہے ۔ اس کا تعلق قتال اور امن سے نہیں ہے ۔ اس کا تعلق جائے رہائش کی پختگی اور ناپختگی سے بھی نہیں ہے ۔ نیز کوئی فریضہ جنگ سے پہلو تہی کرے تو بھی موت مؤخر نہیں ہو سکتی اور نہ فرائض جنگ اور جہاد کی وجہ سے موت وقت سے پہلے آتی ہے ۔ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور یہ معاملات اس سے بالکل جدا ہیں ۔ ان کے درمیان کوئی تعلق سبب ومسبب نہیں ہے ۔ بلکہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور جب وہ وقت پہنچ جائے تو سبب کوئی بھی فراہم ہوجاتا ہے ۔ وقت کے سوا اور کوئی سبب مرگ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ یہ کہ یہ تمنا کرنا کہ قتال کا فرض ہونا اگر قدرے مؤخر ہوجاتا ایک لغو تمنا ہے ۔ نیز قتال اور غیر قتال کے حالات میں اللہ کے سوا کسی اور سے ڈرنے کے بھی کچھ معانی نہیں ہیں ۔ قرآن کریم ایک لطیف ٹچ کے ساتھ دل کی بدل دیتا ہے ۔ موت وحیات کے بارے میں ایک انسان کی سوچ ہی بدل جاتی ہے ۔ اور انسان کی سوچ اور شعور میں جو خوف وہراس ہوتا ہے وہ یک لخت دور ہوجاتا ہے ۔ لیکن اس کے معنی یہ بھی نہیں ہیں کہ انسان احتیاطی تدابیر اختیار ہی نہ کرے اور اس کے دائرہ اختیار میں بچاؤ اور نگہداشت کے لئے جو تدابیر ہیں ۔ انہیں کام میں نہ لائے ۔ ابھی ابھی یہ بات گزری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ۔ (آیت) ” خذوا حذرکم “۔ تم بہت ہی محتاط رہو ۔ اور صلوۃ الخوف کے مسائل کے بیان کے موقعہ پر بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ۔ ایک دوسری جگہ (آیت) ” واعدوا “۔ کا حکم دیا گیا کہ خوب تیاریاں کرو۔ یہ تمام احکام اپنی جگہ درست ہیں ‘ البتہ ان تیاریوں کے ساتھ موت وحیات کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ احتیاطی تدابیر اور جنگی سازوسامان کی فراہمی کی اپنی جگہ پر ایک حکمت ہے اور ان احکام کی پیروی ضروری ہے ۔ یہ اللہ کی تدابیر ہیں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے ۔ لیکن موت بہرحال اپنے مقررہ وقت پر آتی ہے اور یہ بالکل ایک دوسرا عقیدہ اور حکم ہے اور اس پر یقین رکھنا بھی فرض ہے ۔ اگرچہ احتیاطی تدابیر بھی فرض ہیں اور جنگی تیاریوں کی بھی ظاہری اور باطنی حکمتیں ہیں لہذا دونوں احکام کی پیروی ضروری ہے ‘ پورے توازن اور پورے اعتدال کے ساتھ ۔ تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ یہ ہیں اسلام کی ہدایات اور صحیح اسلامی پالیسیاں ۔ افراد اور جماعت کی تربیت کا یہ اسلامی منہاج ہے ۔ غالبا یہاں آکر مہاجرین کے اس گروہ کی بات ختم ہوجاتی ہے اور اب اسلامی صفوں میں پھیلے ہوئے ایک دوسرے عنصر کی بات شروع ہوتی ہے ۔ اس دور میں اسلامی سوسائٹی کا دوسرا عناصر کے ساتھ یہ بھی ایک موجود عنصر ترکیبی تھا ۔ اگرچہ سابقہ بات کے اندر انقطاع اور نئی بات کا آغاز یہاں نظر نہیں آتا نہ کوئی فصل ہے ‘ نہ کوئی وقف ہے ‘ جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ آنے والی بات ایک دوسرے عنصر کے بارے میں ہے ۔ الا یہ کہ پہلے فریق کی بات ختم ہوگئی ہے لیکن اس بارے میں اس سے قبل ہم جو نکات بیان کر آئے ہیں اور ہمارے پیش نظر ہیں ۔
Top