Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 95
لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجٰهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةً١ؕ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى١ؕ وَ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاۙ
لَا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْقٰعِدُوْنَ : بیٹھ رہنے والے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (مسلمان) غَيْرُ : بغیر اُولِي الضَّرَرِ : عذر والے (معذور) وَ : اور الْمُجٰهِدُوْنَ : مجاہد (جمع) فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فَضَّلَ اللّٰهُ : اللہ نے فضیلت دی الْمُجٰهِدِيْنَ : جہاد کرنے والے بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں عَلَي : پر الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھ رہنے والے دَرَجَةً : درجے وَكُلًّا : اور ہر ایک وَّعَدَ : وعدہ دیا اللّٰهُ : اللہ الْحُسْنٰي : اچھا وَ : اور فَضَّلَ : فضیلت دی اللّٰهُ : اللہ الْمُجٰهِدِيْنَ : مجاہدین عَلَي : پر الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھ رہنے والے اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
(مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرتے ہیں دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے ۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان ومال سے جاہد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے
درس نمبر 38 ایک نظر میں : یہ سبق درس سابق اور اس سین بھی پہلے ایک سبق کے ساتھ گہری وابستگی رکھتا ہے اور اسی کے ساتھ پیوستہ ہے ۔ گویا یہ ان دونوں اسباق کا تکملہ ہے ۔ اگر بین الاقوامی معاملات اور قانون بین الاقوام کا پہلو پیش نظر نہ ہوتا ‘ جس طرح اسلام نے پہلی بار اس شعبے میں قانون سازی کی تو ہم ان تینوں درسوں کو ایک درس شمار کرتے ۔ کیونکہ ان کا موضوع اور مضمون ایک ہی ہے ۔ اس سبق کا اساسی مضمون یہ ہے کہ تمام مسلمان ہجرت کرکے دارالاسلام میں جمع ہوجائیں ۔ ابھی تک جو لوگ دارالحرب اور دارالکفر میں رہ گئے ہیں وہ فورا ہجرت کریں اور دارالاسلام میں پہنچ کر جان ومال سے جہاد کریں اور مکہ میں انہیں نسبتا جو آرام ہے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہتے ہیں اور وہاں انہیں جو سہولتیں حاصل ہیں ‘ انہیں چھوڑ دیں ۔ اور یہی مقصد اس سبق کے افتتاحی کلمات میں ہے جن میں کہا گیا ہے : (آیت) ” (لایستوی القعدون من المومنین غیر اولی الضرر والمجھدون فی سبیل اللہ باموالھم وانفسھم فضل اللہ المجھدین باموالھم وانفسھم علی القعدین درجۃ وکلا وعداللہ الحسنی وفضل المجھدین علی القعدین اجرا عظیما “۔ (95) (مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی را ہمیں جان ومال سے جہاد کرتے ہیں دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے ۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان ومال سے جاہد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے ‘ اگرچہ ہر ایک کے لئے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے ‘ مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے) مدینہ میں تو کوئی بیٹھنے والا نہ تھا ۔ مدینہ میں جہاد سے رکھنے والے یا تو منافقین تھے یا وہ لوگ تھے جو روڑے اٹکاتے تھے اور دونوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے درس سابق میں بات کی ہے ۔ ہاں اس آیت کے متصلا بعد دوسری آیت میں ان لوگوں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے جو ابھی تک دارالکفر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ ہجرت کرکے مدینہ منتقل ہونے کی پوری پوری قدرت رکھتے ہیں اور ایسے ہی حالات میں وہ فوت ہوجاتے ہیں ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت ہی بری جگہ ہے ۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ضمانت دیتا ہے جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرتے ہیں اور یہ اسی وقت سے شروع ہوجاتی ہے جب وہ گھر سے نکل پڑتے ہیں بشرطیکہ وہ یہ ہجرت خالصۃ اللہ کے لئے کرتے ہوں ۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے انکے وہ تمام خدشات دور کردیئے ہیں جو یہ اقدام کرنے سے پہلے انکو لاحق ہوتے ہیں ‘ نیز اس وقت جو خطرات درپیش تھے اور جو خوفناک حالات تھے ان حالات میں ہمت کرنا مشکل اور تشویش کا باعث تھا ۔ ہجرت اور جہاد پر بات مزید آگے بڑھتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ دارالہجرت میں مسلمانوں کا باہم معاملہ کیا ہوگا اور دارالہجرت سے باہر دوسرے لوگوں کے ساتھ کیا تعلق ہوگا ۔ خصوصا ان مسلمانوں کا انجام کیا ہوگا جو ہجرت نہیں کرتے ۔ اس سبق میں حالت خوف میں نماز کی کیفیات کا بھی ذکر ہے ۔ مثلاہجرت کے سفر کے دوران نماز اور میدان جنگ میں نماز ‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی اسلام میں کس قدر اہمیت ہے کہ ایسے خطرناک حالات میں بھی اس کی معافی نہیں ہے ۔ نیز مسلمانوں کے اندر ایسی حالت پیدا کی جاتی ہے کہ وہ ذہنی طور پر ہر وقت جنگ کے لئے تیار رہیں کیونکہ حالات ایسے ہیں کہ معمولی غفلت اور لاپرواہی سے دشمن سخت فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ آخر میں یہ سبق نہایت ہی موثر ٹچ دیتا ہے اور مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے ابھارتا ہے کہ ٹھیک ہے کہ تم کو نہایت ہی المناک مصائب کا سامنا ہے لیکن دشمنوں کی حالت بھی کوئی اچھی نہیں ہے اور ان کے نصب العین اور تمہارے نصب العین اور ان کی امیدوں اور تمہاری امیدوں میں فرق ہے ۔ (آیت) ” (ولا تھنوا فی ابتغاء القوم ان تکونوا تالمون فانھم یالمون کما تالمون وترجون من اللہ مالا یرجون “۔ (4 : 104) (اس گروہ کے تعاقب میں کمزورینہ دکھاؤ اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں اور تم اللہ سے اس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں) اس تصویر کشی کے ساتھ ہی دونوں گروہوں کے راستے علیحدہ ہوجاتے ہیں ۔ دونوں کے منہاج علیحدہ ہوجاتے ہیں ۔ ہر دکھ اور ہر تکلیف مسلمانوں کے لئے آسان ہوجاتی ہے ۔ مسلمانوں کے دلوں سے سستی اور تھکاوٹ کا احساس ہی ختم ہوجاتا ہے اس لئے کہ آخر مخالف کیمپ کو بھی تو مشکلات کا سامنا ہے جبکہ ان کو اللہ کی جانب سے وہ امید نہیں ہے جو مسلمانوں کو ہے ۔ اس سبق میں جن موضوعات پر بات ہوئی ہے اور جو اسلوب تربیت اپنایا گیا ہے اس کے اندر یہ بتایا گیا ہے کہ جماعت مسلمہ کی تکوین وتشکیل کے اندر جو تغیرات ہو رہے تھے اور جماعت کی عملی تشکیل میں جو مشکلات پیش آرہی تھیں اور جو نظریاتی اور عملی رکاوٹیں تھیں ان سے تحریک اسلامی کس طرح نمٹ رہی تھی ۔ لوگوں کے ذہنوں میں جو خدشات پیدا ہو رہے تھے اور جس طرح وہ کمزوری کا باعث بن رہے تھے یا سوسائٹی اور افراد جماعت کے نفوس کے اندر جاہلیت کے جو آثار باقی تھے اور وہ جس طرح مشکلات کا باعث بن رہے تھے نیز تحریک اسلامی کی راہ میں آنے والی نئی نئی مشکلات اور مصیبتوں کے باعث ذات انسانی کے قدرتی طور پر متاثر ہوجانے کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہو رہے تھے اور ان مشکلات کے باوجود جو لوگ وفاداری بشرط استواری پر اپنے آپ کو قائم رکھے ہوئے تھے ‘ ایسے تمام مناظر ومشاہد کی تصویر کشی اس سبق میں کی گئی ہے ۔ ان تمام مسائل کو قرآن کے حکیمانہ منہاج نے لیا ہے اور انسانی ضمیر کو آمادہ کیا ہے اور جوش دلایا ہے کہ وہ ان مشکلات سے عہدہ بر آ ہو ۔ یہ تمام باتیں اصل صورت حال کا صحیح نقشہ کھینچ کر بتائی گئی ہیں اور ان کا اظہار حوصلہ افزائی اور جوش دلانے کے موثر انداز سے بھی ہوتا ہے اور اس علاج سے بھی ہوتا ہے جو فطری خدشات اور عملی مشکلات کے حل کے طور پر تجویز کیا گیا ہے ۔ نیز عین میدان کار زار میں نماز پر جم جانے کے عمل سے بھی اس کا اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے جبکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عین نماز کے وقت بھی وہ دشمن پر نظررکھیں پھر مہاجرین کو ثواب دراین کی ضمانت دی گئی ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں ان کیلئے اجر اور کافروں کے لئے سخت درد ناک عذاب کے اعلان کے ذریعے ان تمام آلام ومشکلات کی تصویر سامنے آتی ہے ۔ اس سبق سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی نفس کے ساتھ اس کی کمزوری کی حالت میں اور اس کی قوت کی حالت میں سک طرح برتاؤ فرماتا ہے ۔ نیز ایک انسانی جماعت کی تشکیل اور تربیت کس طرح کی جاتی ہے اور اس اسٹیج پر اس کے ساتھ معاملہ کس طرح کیا جاتا ہے ، اس سلسلے میں ایک ہی آیت میں متعدد خطوط سامنے آتے ہیں ۔ چند لفظوں میں جماعت کے دلوں کے اندر اس کی قوت اور برتری کا احساس اور شعور بھر دیا جاتا ہے اور اس کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ اسے اپنا دشمن حقیر نظر آنے لگتا ہے اور ساتھ ساتھ اسے خطرے کے مقابلے میں احتیاط ‘ بیداری اور ہر وقت تیاری کا حکم بھی دیا جاتا ہے جبکہ اسی آیت میں ان مقامات کی نشاندہی بھی کردی جاتی ہے جہاں کمزوری ہے ۔ اور مقامات کمزوری کے بارے میں شدید اور نہایت ہی سخت ہدایات بھی دی جاتی ہیں ۔ یہ ایک عجیب منہاج ہے ‘ نہایت ہی مکمل اور انسانی نفسیات کے عین مناسب ۔ نفس انسانی کی لوح پر نئے خطوط کھینچے جاتے ہیں اور مختلف نقاط کے درمیان نئے وتر قائم ہوتے ہیں اور یہ تمام تاریں زمزمہ آرا ہیں اور ہر تارمضراب ربانی کی ضرب پر فورا حرکت میں آتی ہے ۔ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تمام موجودہ سوسائٹیوں سے مدینہ کی اسلامی سوسائٹی اپنے منہاج تربیت کے اعتبار سے اور اپنی اجتماعی تنظیم کے اعتبار سے بہت بڑی فوقیت رکھتی ہے اور اس تفوق کا مشاہدہ اس وقت کی پوری انسانیت بچشم سر کر رہی تھی اور یہ دیکھ رہی تھی کہ یہ نوخیز سوسائٹی ان مشکل حالات میں ایک طرف تو اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا علاج کر رہی ہے اور دوسری جانب اپنے اردگرپھیلی ہوئی جاہلی سوسائٹیوں کو کھاتی چلی جاتی ہے ۔ وہ بتدریج ان پر غالب ہوتی جارہی ہے اور یہ غلبہ محض جنگی غلبہ نہیں بلکہ یہ ایک تہذیبی غلبہ ہے جس طرح جو ان تہذیب بوڑھی اور ازکار رفتہ تہذیبوں کو کھاتی چلی جاتی ہے ۔ ایک نیا نظام ہے جو پرانے نظاموں پر غالب ہو رہا ہے ۔ زندگی کا ایک نیا ماڈل دنیا کے سامنے شو روم میں سجایا گیا ہے ایک جدید دور اور ایک جدید انسان پیدا ہو رہا ہے ۔ اس قدر تبصرے کے بعد اب آیات ونصوص کا سامنا کریں۔
Top