Fi-Zilal-al-Quran - Al-Fath : 4
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ١ؕ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہی وہ جس نے اَنْزَلَ : اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھائے اِيْمَانًا : ایمان مَّعَ : ساتھ اِيْمَانِهِمْ ۭ : ان کے ایمان کے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے جُنُوْدُ : لشکر (جمع) السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلِيْمًا : جاننے و الا حَكِيْمًا : حکمت والا
وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تا کہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں۔ زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے ۔
سکینہ کا لفظ ایک معنوی تعبیر اور تصویر اور پرتو پر دلالت کرتا ہے۔ جب کسی قلب پر سکینہ نازل ہو تو وہ مطمین ، خوش ، اور پروقار ہوتا ہے۔ اسے یقین ، بھروسہ اور ثبات حاصل ہوتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں وہ سر تسلیم خم کردیتا ہے۔ اور اللہ کے ہر حکم پر راضی ہوتا ہے۔ اور ایسا شخص پھر نہایت باوقار ہوتا ہے۔ اس واقعہ پر مسلمانوں کے دل کئی وجوہات سے جوش میں آجاتے تھے اور ان پر مختلف قسم کے تاثرات کا دباؤ تھا۔ ایک تو لوگوں نے نبی ﷺ کے خواب کی تعبیر یہ کر رکھی تھی کہ آپ مسجد حرام میں اسی سال داخل ہوں گے۔ پھر یہ کہ قریش نے یہ شرط رکھ دی کہ آپ ﷺ اس سال واپس ہوجائیں اور اگلے سال عمرہ کریں اور حضور ﷺ نے اس شرط کو قبول کرلیا۔ حالانکہ انہوں نے احرام باندھ لیا تھا اور ہدی کے جانوروں کے گلے میں شعار باندھ لیا تھا۔ اور یہ امور ایسے تھے جو بعض جذباتی لوگوں کے لئے ناقابل برداشت تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر ؓ ، حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور وہ اس وقت سخت جوش میں تھے کہ آیا ہمیں یہ نہ بتایا گیا تھا کہ ہم بیت اللہ کو جائیں گے اور طواف کریں گے۔ ابوبکر ؓ جن کا دل حضور اکرم ﷺ کے ساتھ دھڑکتا تھا ، نے فرمایا کیا آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ اسی سال تم عمرہ کرو گے ؟ تو انہوں نے کہا اس سال کا تو نہیں کہا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : ” پس تم آؤ گے اور طواف کرو گے “۔ چناچہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کو چھوڑا اور حضور اکرم ﷺ کے پاس پہنچے اور حضور ﷺ سے کہا : ” کیا آپ نے نہ بتایا تھا کہ ہم بیت اللہ کو جائیں گے اور طواف کریں گے ؟ “ حضور ﷺ نے فرمایا ” درست ، لیکن کیا میں نے یہ کہا تھا کہ تم اسی سال عمرہ کرو گے ؟ “ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا ” نہیں “۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” بیشک تم آؤ گے اور طواف کرو گے “۔ یہ باتیں تھیں جو دلوں میں لاوے کی طرح ابل رہی تھیں۔ پھر مومنین قریش کی شرائط پر بھی سخت برہم تھے۔ یہ کہ اگر کوئی مسلمان اپنے ولی کی اجازت سے محمد ﷺ کے پاس آجاتا ہے تو اسے واپس کردیا جائے گا لیکن اگر کوئی مسلمان ، مسلمانوں کی اجازت کے بغیر مکہ چلا جاتا ہے تو اسے واپس نہ کیا جائے گا۔ پھر انہوں نے اپنی جاہلیت کی وجہ سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا نام کٹوا کر بسمک اللھم کردیا۔ پھر انہوں نے ، آپ کے نام سے رسول اللہ کا لفظ کٹوا دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت علی ؓ نے سہیل کے کہنے کے مطابق (رسول اللہ) کا لفظ کاٹنے سے انکار کردیا۔ رسول اللہ نے نے اسے خود محو کردیا اور کہا ” اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں رسول ہوں “۔ مسلمانوں کی بہادری ، دینی حمیت اور جذبہ جہاد اور مشرکین کے ساتھ لڑنے کا جذبہ تو اس اجتماعی بیعت سے ظاہر ہے جو انہوں نے کی۔ لیکن معاملہ چونکہ اچانک صلح ، امن اور واپسی پر منتج ہوگیا اس لیے مسلمان اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرسکتے تھے۔ اس لیے ان کی طرف سے جذبات کا اظہار ہوا۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے باوجود انہوں نے قربانیاں نہ کیں ، سر نہ منڈوائے ، باوجود اس کے کہ حضور ﷺ نے تین مرتبہ احکام صادر فرمائے۔ حالانکہ وہ حضور ﷺ کے احکام پر مر مٹنے والے تھے۔ عروہ ابن مسعود ثقفی نے قریش کو جو رپورٹ دی اس سے مسلمانوں کی حالت ظاہر تھی اور اب حالت یہ ہے کہ جب حضور ﷺ نے قربانی ذبح کردی اور سر منڈوا لیا تب جا کر انہوں نے جانور ذبح کئے اور سر منڈوائے۔ غرض ان کو اس واقعہ نے سخت ہلا مارا تھا۔ اب جب کہ وہ اطاعت کی طرف آگئے تو پھر بھی دہشت زدہ تھے۔ یہ لوگ مدینہ سے عمرہ کی نیت سے نکلے تھے۔ جنگ لڑنے کا تو ارادہ ہی نہ تھے۔ نہ نفسیاتی لحاظ سے اور نہ مادی لحاظ سے وہ جنگ کے لئے تیار تھے۔ لیکن جب قریش نے سخت موقف اختیار کیا ، پھر یہ خبر آئی کہ حضرت عثمان ؓ قتل کر دئیے گئے ہیں ۔ پھر قریش نے کچھ لوگ بھیجے جنہوں نے مسلمانوں کے لشکر پر تیر اور پتھر پھینکے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے جنگ پر بیعت چاہی تو وہ تہہ دل سے تیار ہوگئے۔ لیکن اس بیعت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمانوں کے اندر جنگی حالت اچانک نہ آئی تھی۔ یہ جنگی حالت بالکل اچانک تھی یہ لوگ جنگ کے لئے نکلے نہ تھے۔ اس وجہ سے بھی مسلمانوں کے دلوں کے اندر جوش و خروش پیدا ہوگیا تھا۔ یہ چودہ سو تھے۔ اور قریش اپنے گھروں میں تھے اور ان کے ساتھ اطراف مکہ کے مشرکین بھی معاون و مدد گار تھے۔ جب انسان ان تمام حالات کو پیش نظر رکھ کر اس آیت پر غور کرتا ہے۔ ھو الذی انزل السکینۃ فی قلوب المومنین (48 : 4) ” وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر سکینت نازل کی “ تو انسان لفظ اور مفہوم دونوں کی خوبصورتی اور مٹھاس کو محسوس کرتا ہے اور اس وقت جو صورت حالات تھی وہ بھی پوری طرح ذہن میں بیٹھ جاتی ہے اور اچھی طرح محسوس ہوتی ہے کہ اس کی سکینت کی ٹھنڈک نے کس طرح جلنے والے دلوں کو فوراً سکون بخشا ہوگا اور کس طرح ان کو بحال کردیا ہوگا۔ چونکہ اللہ کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کے دلوں کی حالت کیا ہے ؟ اور کیوں ہے ؟ جو جوش ہے وہ جوش ایمان ہے ، جو محبت اور غیرت ہے وہ حمیت اسلامی اور غیرت ایمانی ہے۔ کسی مفاد یا جاہلیت کے لئے نہیں ہے۔ اس لیے اللہ نے یہ سکینت نازل کی۔ لیزدادوا ایمانا مع ایمانھم (48 : 4) ” تا کہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں “۔ طمانیت وہ درجہ ہے جو ایمان کے جوش و خروش کے بعد آتا ہے۔ اس میں بھر پور اعتماد ہوتا ہے۔ کوئی بےچینی نہیں ہوتی ، ایسی رضا مندی ہوتی ہے جو اعتماد و یقین پر مبنی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کو نمایاں کیا جاتا ہے کہ نصرت اور غلبہ نہ تو ناممکن ہے۔ اور نہ ہی مشکل ہے۔ اگر اللہ کی حکمت کا تقاضا ہوتا تو یہ اللہ کے لئے بہت ہی آسان ہے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے ، یہی اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے۔ اللہ کی افواج لاتعداد ہیں ، ان پر کوئی قوت غالب نہیں آسکتی۔ لیکن اللہ نے غلبے کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وللہ جنود السموت والارض وکان اللہ علیما حکیما (48 : 4) ” زمین اور آسمانوں کے لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے “۔ یہ اللہ کی حکمت ہے اور اس کا علم ہے جو معاملات کو اپنی مرضی سے چلاتے ہیں۔ اور اس علم اور حکمت ہی کا تقاضا تھا کہ۔ انزل السکینۃ فی قلوب المومنین (48 : 4) لیزدادو ایمانا مع ایمانھم (48 : 4) ” جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل کی تا کہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں “۔ تا کہ ان کے لئے اللہ نے جو بڑی کامیابی مقدر رکھی ہے ، وہ پوری ہوجائے۔ لیدخل المومنین ۔۔۔۔۔ فوزا عظیما (48 : 5) ” تا کہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لئے ایسی جنتوں میں داخل فرنائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور ان کی برائیاں ان سے دور کر دے۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے “۔ اگر اس بات کو اللہ فوز عظیم قرار دیتا ہے تو یہ فی الواقع فوز عظیم ہے۔ اپنی حقیقت میں فوز عظیم ہے۔ یہ ایک عظیم کامیابی ہے ، ان لوگوں کے خیال میں جن کو وہ ملی ہے ، اللہ کی تقدیر کے مطابق اور اللہ کے پیمانوں کے مطابق۔ اس وقت مسلمان بہت خوش تھے ان فتوحات پر جو اللہ نے ان کے لئے لکھ دی تھیں۔ جب انہوں نے اس سورت کا یہ آغاز سنا تو وہ ان فتوحات کی امید کرتے تھے۔ ان کے انتظار میں تھے اور ان کو علم ہوگیا تھا کہ اللہ رسول اللہ ﷺ پر کیا کیا مہربانیاں کرنے والا ہے۔ اور اس میں ان کو جو حصہ ہے اس کے لئے وہ انتظار میں تھے۔ اور آپ سے پوچھتے رہتے تھے اور جب انہوں نے سنا اور جانا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
Top