Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - At-Tahrim : 10
وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ١ؕ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَعِنْدَهٗ
: اور اس کے پاس
مَفَاتِحُ
: کنجیاں
الْغَيْبِ
: غیب
لَا
: نہیں
يَعْلَمُهَآ
: ان کو جانتا
اِلَّا
: سوا
هُوَ
: وہ
وَيَعْلَمُ
: اور جانتا ہے
مَا
: جو
فِي الْبَرِّ
: خشکی میں
وَالْبَحْرِ
: اور تری
وَمَا
: اور نہیں
تَسْقُطُ
: گرتا
مِنْ
: کوئی
وَّرَقَةٍ
: کوئی پتا
اِلَّا
: مگر
يَعْلَمُهَا
: وہ اس کو جانتا ہے
وَلَا حَبَّةٍ
: اور نہ کوئی دانہ
فِيْ
: میں
ظُلُمٰتِ
: اندھیرے
الْاَرْضِ
: زمین
وَلَا رَطْبٍ
: اور نہ کوئی تر
وَّلَا
: اور نہ
يَابِسٍ
: خشک
اِلَّا
: مگر
فِيْ
: میں
كِتٰبٍ
: کتاب
مُّبِيْنٍ
: روشن
اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ بحروبر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے ‘ درخت سے گرنے والا کوئی پتا ایسا نہیں ہے جس کا اسے علم نہ ہو ‘ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو ‘ خشک وتر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔
(آیت) ” نمبر 59۔ اللہ کے کامل اور محیط علم کی یہ نہایت خوبصورت تصویر ہے ۔ یہ علم اس قدر محیط ہے کہ زمان ومکان کا ایک ذرہ بھی اس سے باہر نہیں ہے ۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کے علم میں ہے ۔ بروبحر کے تمام موجودات اس کے علم کے دائرے کے اندر ہیں ۔ فضاؤں اور زمین کی گہرائیوں میں پائے جانے والے تمام ذرات بھی اس کے دائرہ علم کے اندر ہیں ۔ خشک وتر اور زندہ و مردہ ہر چیز اس کے علم میں ہے ۔ ہمارے اس بیان اور آیت زیر بحث کے اسلوب بیان میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ قرآن کا انداز نہایت ہی منفرد ‘ شامل وکامل ‘ گہرا وعمیق اور نہایت ہی موثر اور معنی آفریں ہے ۔ ہمارا را ہوار خیال اس مختصر آیت کے پیچھے سرپٹ بھاگتا ہے ۔ ہمارا خیال عالم معلومات اور عالم مجہولات میں گھوڑے دوڑاتا ہے ۔ انسان عالم غیب وعالم شہادت پر غور وفکر کرتا ہے تو اس کا وجدان اور مشاہدہ کانپ اٹھتا ہے کہ ہر وادی میں اور ہر طرف اسے مشاہدات ومظاہر کی نئی نئی شکلیں نظر آتی ہیں ۔ انسان کی جدوجہد بڑی تیزی سے اپنی تلاش نامعلوم کے لئے جاری ہے ۔ وہ غیب کے پردوں کو پھاڑ کر سب کچھ عیاں کرنا چاہتا ہے ۔ وہ ماضی اور مستقبل کے تمام پردے ہٹانا چاہتا ہے ۔ زمان ومکان کے آفاق اور گہرائیوں میں وہ دور تک جھانکنا چاہتا ہے لیکن وہ جس سمت سے آگے بڑھتا ہے اسے نظر آتا ہے کہ غیب کی چابیاں تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں ۔ ایک حد پر جاکر اس کو علم واکتشافات کے دروازے مقفل نظرآتے ہیں اور آگے کی چابیاں اللہ کے پاس ہیں ۔ غرض انسان کا وجدان کائنات کی تاریک وادیوں اور سمندر کی گہرائیوں میں دوڑتا ہے ۔ یہ سب جگہیں اللہ کے علم کے زاویے سے عیاں ہیں ۔ پھر ہمارا شعور دنیا کے ہر خزاں میں گرنے والے پتوں کی طرف جاتا ہے ‘ جن کی تعداد سے انسان بیخبر ہیں لیکن اللہ کی آنکھ ایک ایک کو دیکھ رہی ہے کہ کس طرح وہ امر ربی سے گرتا ہے اور اس پوری کائنات میں یہ علم ان پتوں تک وسیع ہے ۔ اس کائنات میں اگنے والے بیشمار پودوں سے نکلنے والے چھوٹے چھوٹے بیج اور ان کا ایک ایک دانہ جو ظلمات ارض میں کہیں پڑا ہے وہ بھی اللہ کی نظر میں ہے ۔ اس وسیع و عریض کائنات کا ہر خشک وتر اللہ کی نظروں میں ہے اور کوئی بھی چیز علم الہی سے باہر نہیں ہے ۔ غرض یہ تصور سر کو چکرا دیتا ہے اور اس سے عقل مبہوت ہوجاتی ہے ۔ یہ تصور اور شعور ہمیں تاریخ اور زمانوں کی طوالتوں میں لے جاتا ہے ۔ یہ آفاق کائنات کی دوریوں کا تصور دلاتا ہے ۔ عالم معلوم اور مشاہد اور عالم غیب اور مجہول کا تصور انسان کرتا ہے تو اس میں ہر طرف وسعت ہی وسعت نظر آتی ہے ۔ را ہوار خیال تھک کر چور چور ہوجا تا ہے لیکن قرآن کریم کے چند کلمات ان وسعتوں اور دوریوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں ۔ یہ ہے قرآن کا اعجاز ‘ اعجاز عبارت اور اعجاز خیال جس پہلو سے بھی ہم اس مختصر آیت پر نگاہ ڈالیں یہ معجز ہے اور یہ اعجاز ہمیں واضح طور پر اس طرف لے جاتا ہے کہ اس عظیم کلام کا مصدر اور منبع کیا ہے ؟ قرآن کریم جو اسلامی تصور حیات کا مصدر اور سرچشمہ ہے اور جس سے اسلامی ذہنیت پیدا ہوتی ہے ‘ وہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اس کائنات کے دو جہان ہیں ‘ ایک عالم غیب ہے اور دوسرا عالم مشاہدہ یا عالم شہادت ۔ لہذا انسان جس جہان میں رہتا ہے اس کے تمام حقائق غیبی نہیں ہیں اور نہ اس کا واسطہ عالم مجہولاتا سے ہے بلکہ یہاں عالم شہادت بھی ہے ۔ اس کائنات کے اندر بعض ناقابل تغیر قوانین اور سنن ہیں اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ سنن کائنات میں سے ضروری کا علم حاصل کرسکتا ہے ۔ اپنی اس صلاحیت اور ضرورت کے مطابق اسے یہ صلاحیت اس لئے دی گئی ہے کہ وہ یہاں خلافت ارضی کے منصب سے وابستہ فرائض ادا کرسکے اور اپنی زندگی کو سنن کائنات کے ساتھ ہم آہنگ کرسکے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس قدر صلاحیت دی ہے جس قدر اسے منصب خلافت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے درکار ہے ، تاکہ انسان کائناتی قوتوں کو مسخر کر کے اس زمین کو آباد کرسکے ‘ یہاں زندگی کو ترقی دے سکے اور انسانی زندگی کی بہتری کے لئے اللہ نے اس کائنات کے اندر جو ذخائر ودیعت کئے ہیں انہیں کام میں لا سکے ۔ لیکن ان قوانین قدرت کے ساتھ ساتھ مشیت الہی بھی بطور ایک حقیقت کے موجود ہے ۔ اگرچہ یہ تمام قوانین قدرت مشیت ایزدی کا نتیجہ ہیں لیکن یہ قوانین قدرت مشیت الہیہ کے بجائے تقدیر الہی کے مطابق کام کرتے ہیں ۔ یہ تمام قوانین قدرت الہیہ کے تحت چلتے ہیں ۔ یہ کوئی خود مختار یا کنٹرول سے باہر مشینری نہیں ہے ۔ اللہ کی قدرت اور اس کی تقدیر ان قوانین پر پوری طرح محیط ہے ۔ اس کائنات کی ہر حرکت اس کے دائرہ قدرت میں ہے ۔ اگرچہ بظاہر یہ کائنات ایک ناموس کے مطابق رواں دواں ہے لیکن یہ ناموس اللہ کا پیدا کردہ ہے ۔ اللہ کا نظام قضا وقدر ان قوانین قدرت کو نافذ کرتا ہے ۔ نظام قضا وقدر عالم غیب کا حصہ ہے اور اس کے بارے میں علم صرف اللہ کو ہوتا ہے ۔ لوگوں نے جو سائنسی اصول وضع کر رکھے ہیں وہ بھی ظنی اور احتمالی ہوتے ہیں اور آج تک انسان نے اس کائنات کے جو راز معلوم کئے ہیں اور ان کے بھی یہ اعتراف موجود ہے ۔ ذرا انسان کے اس مختصر وجود پر غور کیجئے ۔ اس کے اندر ہر لحظہ لاکھوں ذرات سرگرداں ہیں ۔ ہی سب تصرفات انسانی نقطہ نظر سے غیب ہیں ۔ اگرچہ یہ تمام حرکات اور مؤثرات خود اس کے وجود کے اندر روبعمل رہتے ہیں ۔ پھر اس عظیم کائنات کے اندر جو مؤثرات کام کر رہے ہیں وہ تو لاتعدد الا تحصی ہیں۔ انسان ان میں سے کچھ بھی نہیں جانتا ۔ عالم غیب انسان کے ماضی پر بھی محیط ہے اور اس کائنات کے ماضی پر بھی محیط ہے ۔ انسان اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی اس کائنات اور اس کی موجودہ حالت پر بھی عالم غیب محیط ہے ۔ نیز ان کے مستقبل پر بھی عالم غیب محیط ہے ۔ یہ سب امور سنن الہیہ کے مطابق روبعمل ہیں جن میں سے نہایت ہی قلیل مقدار کا علم ابھی تک انسان کو ہوسکا ہے ۔ انسان ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور انہیں منظم اور مربوط طریقے سے فریضہ خلافت کی ادائیگی میں استعمال کر رہا ہے ۔ انسان اس کائنات میں اپنی خواہش کے مطابق نہیں آتا ۔ نہ اسے یہ علم ہوتا ہے کہ اب وہ اس جہان میں وارد ہوگا ۔ جب وہ اس جہان سے رخصت ہوتا ہے تب بھی اس رخصتی میں اس کی خواہش شامل نہیں ہوتی اور نہ اسے علم ہوتا ہے کہ کب اسے جانا ہے یہی صورت حال ہر زندہ مخلوق کی ہے ۔ انسان جس قدر علم بھی حاصل کرلے اور اس کی معرفت اور آگاہی کا دائرہ کتنا ہی وسیع تر کیوں نہ ہوجائے وہ اس صورت حالات میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا ۔ اسلامی ذہنیت اور اسلامی ماہیت کے اعتبار سے ” غیبی علمی “ نوعیت رکھتی ہے ۔ اس لئے کہ غیب اور عدم علم اسائنسی اعتبار سے بھی بھی حقیقی علم ہے ۔ جو لوگ غیب کا انکار کرتے ہیں وہ جاہل ہیں حالانکہ وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ بہت کچھ جاننے والے ہیں ۔ اسلامی فکر کی اساس یہ ہے کہ ایک مسلمان ایسے غیبی حقائق کے وجود کا اقرار کرتا ہے جس کا حقیقی علم صرف اللہ کو ہے ۔ اس علم کی کنجیاں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ پھر اسلامی فکر یہ بھی یقین رکھتی ہے کہ یہ کائنات سنن الہیہ کے مطابق چل رہی ہے ۔ اور ان سنن الہیہ میں سے بعض ایسے ہیں جن کا علم فریضہ خلافت فی الارض کے لئے ضروری ہے ۔ ان اصولوں کے ساتھ مضبوط اساسوں پر ہم آہنگی اختیار کرنا بھی ضروری ہے ۔ چناچہ اسلامی ذہنیت اور اسلامی فکر کی وجہ سے انسان نہ علم ومعرفت سے محروم ہوتا ہے اور نہ حقیقت واقعیہ کے ادراک سے محروم ہوتا ہے ۔ اس عالم شہادت سے آگے ایک عالم غیب ہے اور اس عالم مغیبات کا علم صرف اللہ کو ہے اور اپنے بندوں میں سے اگر اللہ چاہے تو کسی قدر علم کسی کو عطا کر دے ۔ ایمان بالغیب وہ دشوار گزار گھاٹی ہے جس کو انسان نے ضرور عبور کرنا ہے ۔ جب تک وہ اس مقام پر فائز نہیں ہوتا وہ حیوانی مقام سے بلند ہو کر انسانی مقام تک پہنچ ہی نہیں سکتا ۔ کیونکہ حیوان صرف ان امور کا ادراک کرسکتا ہے جو اس کے حواس کے دائرے میں آتے ہیں ۔ اس حقیقت کا ادراک صرف انسان ہی کرسکتا ہے کہ یہ کائنات صرف اسی قدر محدود نہیں ہے جو اس کے حواس میں آتی ہے یہ بہت ہی وسیع ہے بلکہ اس سے بھی وسیع تر ہے جو بذریعہ آلات اس کے ترقی دادہ حواس کے دائرہ ادراک میں آرہی ہے ۔ یہ اسلامی تصور اس کائنات کے تصور سے کہیں وسیع تر تصور ہے بلکہ اس کائنات کے بارے میں انسان سوچ کے اندر یہ ایک دور رس تبدیلی ہے ۔ یہ انسانی شخصیت کے بارے میں بھی انسانی سوچ میں ایک دور رس تبدیلی ہے ۔ انسانی شخصیت کے اندر جو قوتیں کار فرما ہیں ان کے بارے میں بھی انقلابی سوچ ہے ۔ اس سوچ کے تحت ایک انسان کے اندر اس کائنات کے بارے میں اور اس کے پیچھے کام کرنے والی قوتوں کے بارے میں ایک نیا احساس پیدا ہوتا ہے ۔ اس تصور کے اثرات اس کرہ ارض پر انسان کی عملی زندگی پر بھی پڑتے ہیں اس لئے کہ وہ انسان جو صرف ماحول کا اپنے حواس کے ساتھ ایک محدود مشاہدہ کرتا ہے اس انسان کے مساوی نہیں ہو سکتا جو اپنی بصیرت اور اپنے نظریات کی وجہ سے اس کائنات کے بارے میں وسیع تر سوچ رکھتا ہے ۔ یہ عقلمند انسان فطرت کائنات کی آواز کو اپنی شخصیت کے نہاں خانے سے سنتا ہے اور اپنے دل کی گہرائیوں سے اشارات پاتا ہے ۔ وہ یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کا دائرہ کار زمان ومکان کی قید سے زیادہ وسیع ہے ۔ اور اس کی شخصیت اس سے کہیں وسیع ہے جو وہ سمجھتا ہے یا اپنی عمر کے ایک مختصر عرصے میں وہ سمجھ سکتا ہے ۔ وہ اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ اس ظاہری اور پوشیدہ کائنات کے پس پست ایک عظیم حقیقت ہے اور یہ حقیقت اس کائنات سے بڑی اور اس کی خالق ہے ۔ اس عظیم حقیقت کے وجود ہی سے تمام کائنات کا وجود مستعاد ہے ۔ یہ ہے حقیقت باری تعالیٰ جسے آنکھیں نہیں پا سکتیں اور جو انسانی کی عقل کے احاطے میں نہیں آسکتی ۔ ایمان بالغیب وہ یونٹ ہے جہاں سے انسان اور حیوان کے راستے جدا ہوتے ہیں اور انسان عالم حیوانیت سے بلند ہوتا ہے ۔ لیکن ہر زمانے کی طرح ہمارے دور کے مادہ پرست بھی یہ چاہتے ہیں کہ انسان کو انسانیت کے مقام بلند سے گرا کر عالم حیوانیت کی طرف لوٹا کرلے آئیں جہاں وہی چیز حقیقت سمجھی جاتی ہے جو حواس کے دائرے میں آتی ہے ۔ یہ مادیت پسند اس بات کو ترقی پسندی کہتے ہیں حالانکہ یہ دراصل رجعت پسندی اور ناکامی ہے جس سے اللہ نے مسلمانوں کو ابھی تک بچایا ہے ۔ لہذا ان کی امتیازی صفت ہی یہ قرار دی گئی کہ یومنون بالغیب (جو غیب پر ایمان لاتے ہیں) اور یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ جس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ یہ نکتہ گرنے والوں اور منہ موڑنے والوں کے لئے ہلکات اور تباہی کا مقام ہے ۔ جو لوگ غیب اور سائنس کا باہم تقابل کرکے بحث کرتے ہیں وہ تاریخی واقعات کی فیصلہ کن تعبیر کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک گویا مستقبل ان کے سامنے یقینی صورت میں موجود ہے حالانکہ جدید ترین سائنسی انکشافات یہ ہیں کہ مستقبل کا دارومدار محض احتمالات پر ہے ۔ مستقبل کے بارے میں انسان کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتا ۔ مارکس کی یہ عادت تھی کہ وہ تاریخی اسباب کی روشنی میں مستقبل کے لئے قطعی فیصلے کرتا تھا ۔ لیکن آج کا انسان بچشم سردیکھ سکتا ہے کہ مارکس کی ان تمام پیشین گوئیوں کا حشر کیا ہوا ؟ مارکس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ سب سے پہلے انگلستان میں کمیونزم نافذ ہوگا کیونکہ انگلستان صنفی اعتبار سے چوٹی پر پہنچ چکا ہے ۔ وہاں ایک طرف سرمایہ دار عروج پر ہے اور دوسری جانب جانب مزدور فقر وفاقے کے اعتبار سے اپنی آخری منزل تک پہنچ چکا ہے ۔ لیکن بعد کے ادوار میں ہم نے دیکھا کہ نہایت ہی پسماندہ اقوام کے اندر کمیونزم کامیاب ہوا ‘ مثلا روس اور چین میں اور صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہممالک میں سے کسی ایک میں بھی کمیونسٹ انقلاب برپا نہ ہوا۔ لینن اور اسٹالن نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ سوشلسٹ دنیا اور سرمایہ دار دنیا کے درمیان کسی وقت بھی عالمگیر جنگ ہوگی ‘ لیکن ان دونوں کے خلیفہ خرد شیف باہم سلامتی اور دیانت کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ ۔۔ میرا خیال ہے کہ ان لوگوں کی پیشین گوئیوں پر مزید بحث کرکے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ان لوگوں کی یہ یقینی پیشین گویاں اس لائق نہیں کہ ان پر کوئی سنجیدہ بحث کی جائے ۔ یقینی حقیقت اگر کوئی ہے تو یہی غیبی حقیقت ہے اور اس کے سوا تمام باتیں محض احتمالات ہیں ۔ اگر کوئی حتمی بات ہے تو وہی ہے جس کا فیصلہ اللہ کی قضا وقدر نے کردیا ہے اور مستقبل کے بارے میں اللہ نے کیا فیصلہ کیا ہے ‘ اس کا کسی کو علم نہیں ہے سوائے اللہ کے ۔ ہاں تقدیر الہی کے اٹل حقیقت ہونے کے باوجود اس کائنات کے بارے میں کچھ سنن الہیہ ایسی بھی ہیں جو اٹل ہیں اور جو تقدیر الہیہ کا حصہ ہیں ۔ ان میں سے بعض سنن الہیہ تک انسان کی رسائی بھی ممکن ہے اور ان تک رسائی حاصل کرکے انسان اپنے منصب خلافت الہیہ کے فرائض کو بہت ہی اچھی طرح ادا کرسکتا ہے ۔ لیکن ان وسائل کے باوجود اللہ کا فیصلہ اور اس کی تقدیر سپریم ہے اور تقدیر الہی نامعلوم ہے ۔ یہ اس کائنات کی اصل حقیقت ہے اور (ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم) (17 : 9) یہ قرآن کریم اس بات کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو نہایت ہی سیدھی ہے ۔ اب روئے سخن غیب کے علوم کی کنجیوں سے اس کائنات کے ایک خاص پہلو کی طرف مر جاتا ہے ۔ یعنی ذات انسانی کی طرف جو اس کائنات ہی کا ایک حصہ ہے اور اللہ کی قدرت کے کرشموں میں سے اہم کرشمہ ہے جس سے اللہ کے علم محیط کا بہت ہی اچھی طرح اظہار ہوتا ہے ۔
Top