Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 102
وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ١ۚ وَ اِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِیْنَ
وَ : اور مَا وَجَدْنَا : ہم نے نہ پایا لِاَكْثَرِهِمْ : ان کے اکثر میں مِّنْ عَهْدٍ : عہد کا پاس وَاِنْ : اور درحقیقت وَّجَدْنَآ : ہم نے پائے اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَفٰسِقِيْنَ : نافرمان۔ بدکردار
ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاس عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا
یہاں جس عہد کا ذکر ہے وہ فطرت انسانی کا عہد بھی ہوسکتا ہے جس کا ذکر اس سورة کے آخر میں ہوا ہے (واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظہورہم ذریتہم واشہدہم علی انفسہم الست بربکم قالوا بلی شہدنا) " اے نبی لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی ادم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا : " کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ " انہوں نے کہا : " ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ " ہم اس پر گواہی دیتے ہیں "۔ اس عہد سے وہ عہد بھی مراد ہوسکتا ہے جو ان لوگوں کے اسلاف نے اپنے رسولوں سے کیا تھا کہ وہ ایمان لائیں گے مگر بعد میں آنے والے لوگ اس سے منحرف ہوگئے جیسا کہ ہر جاہلیت میں یہی ہوتا رہا ہے کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اہل ایمان جاہلیت کی طرف بڑھتے رہتے ہیں اور آخر کار پوری طرح جاہلیت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بہرحال عہد سے مراد جو بھی ہو ، لیکن ہلاک ہونے والوں کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ کسی عہد و پیمان کے پابند نہ تھے ، نہ وہ کسی بات پر قائم رہتے تھے۔ یہ لوگ اپنی ذاتی خواہشات کے ساتھ بدلتے رہتے تھے۔ ان کا مزاج بھی ایسا ہوگیا تھا کہ وہ اپنی بات پر جمتے نہ تھے اور نہ سچا طرز عمل اختیار کرتے تھے۔ بلکہ اکثر کو فاسق پایا گیا یعنی اپنے دین سے منحرف پایا گیا۔ اور یہ اس لئے کہ وہ ہر وقت بدلتے رہتے تھے اور کسی عہد کا پاس نہ رکھتے تھے بلکہ وہ اغراض کے بندے ہوگئے تھے جو قوم اللہ کے ساتھ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی اور اپنے دین اور راہ ہدایت پر قائم نہیں رہتی اور اللہ سے ہدایت اخذ نہیں کرتی تو ظاہر ہے کہ ایسی قوم تتر بتر ہوجاتی ہے۔ راہ حق سے منحرف ہوجاتی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ فاسق بن جاتی ہے چناچہ ان بستیوں والوں کی یہی حالت ہوگئی تھی اس لئے ان کا یہ انجام ہوا۔
Top