Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 13
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ
قَالَ : فرمایا فَاهْبِطْ : پس تو اتر جا مِنْهَا : اس سے فَمَا : تو نہیں يَكُوْنُ : ہے لَكَ : تیرے لیے اَنْ : کہ تَتَكَبَّرَ : تو تکبر کرے فِيْهَا : اس میں (یہاں) فَاخْرُجْ : پس نکل جا اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الصّٰغِرِيْنَ : ذلیل (جمع)
فرمایا : ” تو یہاں سے نیچے اتر تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے ۔ نکل جا کہ درحقیقت تو ان لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں ۔
آیت ” قَالَ فَاہْبِطْ مِنْہَا فَمَا یَکُونُ لَکَ أَن تَتَکَبَّرَ فِیْہَا فَاخْرُجْ إِنَّکَ مِنَ الصَّاغِرِیْنَ (13) ” فرمایا : ” اچھا “ تو یہاں سے نیچے اتر تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے ۔ نکل جا کہ درحقیقت تو ان لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں ۔ “ یہاں اب اس کا علم اس کے لئے نفع بخش نہیں رہا ‘ وہ اللہ کی ذات وصفات سے خوف واقف ہے ۔ لیکن یہ علم اس کے لئے نفع بخش نہیں ہے ۔ یہی حال ہر اس شخص کا ہوگا جس تک اللہ کا حکم پہنچ جاتا ہے اور اس کے بعد وہ پھر اپنی فکر ونظر کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور خود فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اسے قبول کرے یا نہ کرے ۔ ایک مسئلہ اس کے سامنے ہے جس کا فیصلہ اللہ کی عدالت سے ہوگیا ہے لیکن وہ اسے نہیں مانتا ‘ وہ اپنا فیصلہ خود کرتا ہے اور اس کے ذریعہ اللہ کے فیصلے کو رد کرتا ہے ۔ پس یہ جان بوجھ کر اور اچھی طرح سمجھ کر کفر کا ارتکاب ہے ۔ ابلیس کے پاس علم ومعرفت کی کمی نہ تھی ‘ اس کا اعتقاد متزلزل نہ تھا۔ چناچہ وہ جنت سے بھگایا گیا ‘ اللہ کی رحمت سے محروم ہوگیا اور اس پر لعنت لکھ دی گئی ۔ اس کے اوپر ذلت مسلت کردی گئی ۔ لیکن یہ شدید فطرت اس بات کو سمجھنے کی سعی ہی نہیں کرتی کہ اس آدم کی وجہ سے وہ راندہ درگاہ ہوا ۔ چناچہ اب وہ توبہ کرنے بجائے انتقام پر اتر اتا ہے ۔ اب وہ اپنے سر پر وہ ذمہ داریاں لیتا ہے جو اس شر کے ساتھ مناسب ہیں جس میں وہ مبتلا ہوگیا ہے ۔
Top