Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 146
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ وَ اِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَا١ۚ وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًا١ۚ وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًا١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ
سَاَصْرِفُ : میں عنقریب پھیر دوں گا عَنْ : سے اٰيٰتِيَ : اپنی آیات الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَكَبَّرُوْنَ : تکبر کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا : وہ دیکھ لیں كُلَّ اٰيَةٍ : ہر نشانی لَّا يُؤْمِنُوْا : نہ ایمان لائیں بِهَا : اس پر وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا : دیکھ لیں سَبِيْلَ : راستہ الرُّشْدِ : ہدایت لَا يَتَّخِذُوْهُ : نہ پکڑیں (اختیار کریں) سَبِيْلًا : راستہ وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا : دیکھ لیں سَبِيْلَ : راستہ الْغَيِّ : گمراہی يَتَّخِذُوْهُ : اختیار کرلیں اسے سَبِيْلًا : راستہ ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ انہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو وَكَانُوْا : اور تھے عَنْهَا : اس سے غٰفِلِيْنَ :غافل (جمع)
میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں ، وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لائیں گے ، اگر سیدھا راستہ ان کے سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے ، اس لیے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بےپروائی کرتے رہے
اب اس منظر کے آخر میں اور موسیٰ اور رب موسیٰ کے مکالمے کے اختتام پر ان لوگوں کے انجام کے بارے میں بتایا جاتا ہے جو متکبر ہیں ، جو اللہ کے معجزات و ہدایات سے منہ موڑتے ہیں۔ اور بتایا جاتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں اور ان لوگوں کی تصویر کشی بڑے واضح رنگ اور قرآن کریم کے انداز تصویر کشی کے عین مطابق۔ اللہ تعالیٰ یہاں ان لوگوں کے بارے میں اپنی مشیت کا اعلان فرماتے ہیں جو اس زمین میں بغیر جواز کے تکبر کرتے ہیں اور بڑے بنتے ہیں۔ یہ لوگ کس قسم کے ہوتے ہیں ؟ ایسے کہ چاہے جو معجزانہ استدلال ان کے سامنے پیش کیا جائے وہ ماننے والے نہیں ہیں۔ ان کو کسی اچھے کام کی دعوت دی جائے تو اس پر لبیک نہیں کہتے ، اگر وہ برائی کا کوئی کام بھی دیکھیں اس کی طرف لپکیں لہذا ایسے لوگوں کا صحیح علاج یہ ہے کہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور ایسے لوگوں پر کام کیا جائے جو مانتے ہیں ، یہ تو ماننے والے نہیں ، آیات و دلائل جو اس کائنات میں ظاہر و باہر ہیں اور وہ آیات و دلائل جو اللہ کی کتابوں میں ہیں ، اس لیے کہ انہوں نے پہلے سے تکذیب کا فیصلہ کرلیا ہے اور اعراض کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے ہوں گے ان کی حرکات اور ان کی صفات یہ ہیں : الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۔ جو بغیر کسی حق کے زمین پر بڑے بنتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کے بندوں میں سے کسی بندے کا حق نہیں ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر خود بڑا بنے۔ بڑائی تو اللہ کی صفت ہے ، اور کبریائی میں اللہ کسی کو شریک نہیں کرتا کیونکہ یہ اللہ کی چادر ہے۔ لہذا کوئی انسان جو اس کرہ ارض پر بڑا بنتا ہے وہ بغیر جواز کے تکبر کرتا ہے اور سب سے بڑا تکبر یہ ہے کہ کوئی اس سرزمین پر قانون سازی کا حق اپنے لیے مخصوص کرلے اور اللہ کے بندوں پر اللہ کے بجائے اپنا اقتدار اعلیٰ استعمال کرے۔ اور لوگوں سے اپنے قوانین پر عمل کرائے۔ اس تکبر اور بڑائی سے تمام دوسری برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ تمام شرارتوں کی بنیاد ہے اور ہر قسم کا فساد اس سے برپا ہوتا ہے اور اس کے بعد دوسری صفات ایسے لوگوں کی یہ آتی ہیں۔ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِهَا ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ۔ اگر سیدھا راستہ سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں۔ ان کی یہ فطرت ہے کہ سیدھے راستے کو دیکھ کر ہی اس سے ایک طرف ہوجاتے ہیں اور ٹیڑھے راستے کو دیکھتے ہی اس پر روانہ ہوجاتے ہیں اور یہ ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ اور اس کے خلاف وہ نہیں جاسکتے۔ یہ ہے ان کی صفت۔ قرآن کریم اس انداز میں اس کی تعبیر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اللہ کی مشیت نے ایسے لوگوں کو سزا دینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ سزا یہ ہے کہ ہدایت کے دروازے ان کے لیے بند کردیے گئے ہمیشہ کے لیے۔ اس قسم کے لوگ ہمیں ہر معاشرے میں ملتے رہتے ہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ یہ لوگ حق سے اجتناب کرتے ہیں اور باطل کی طرف سخت میلان رکھتے ہیں اور بغیر تدبیر اور بغیر سوچے باطل کی طرف لپکتے ہیں۔ سچائی کا مستقیم راستہ ان کو مشکل اور باطل کا ٹیڑھا راستہ ان کو آسان نظر آتا ہے اور ایسے لوگ اللہ کی آیات و دلائل اور معجزات سے دور بھاگتے ہیں ، ان پر غور و فکر نہیں کرتے ، ان کے ذرائع فہم و ادراک پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اور نہ فطرت اور حق کے اشارات ان پر اثر کرتے ہیں۔ سبحان اللہ ، اس عجیب قرآنی ہدایات کی ان جھلکیوں سے اس قسم کے لوگ ممتاز طور پر نظر آتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو اپنے ماحول اور معاشرے میں دیکھتے ہی ایک قاری کہہ اٹھتا ہے۔ ہاں ہاں اس قسم کے لوگوں کو میں جانتا ہوں۔ فلاں فلاں شخص ان قرآنی کلمات کا مصداق ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو ایسی ایسی تباہ کن اور مہلک سزا دے کر اللہ تعالیٰ ان پر کوئی ظلم نہیں کرتا۔ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ یہ وہ سزا و جزا ہے جس کے وہ لوگ ٹھیک طور پر مستحق ہیں جو آیات الہیہ کی تکذیب کرتے ہیں۔ اور ان کے بارے میں غفلت برتتے ہیں اور زمین میں بغیر حق اپنی بڑائی جماتے ہیں۔ ان کی روش یہ ہے کہ ہر اس راستے سے ایک طرف ہوجاتے ہیں جو ہدایت کا راستہ ہو اور ہر اس راستے کی طرف لپکتے ہیں جو گمراہی کا راستہ ہو ، ایسے لوگوں کو تو ان کے عمل کی سزا مل رہی ہے اور یہ لوگ اپنے طرز عمل کی جہ سے ہلاکت کے دروازے تک آپہنچے ہیں۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ ۔ اس لیے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بےپرواہی کرتے رہے " ا
Top