Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 203
وَ اِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰیَةٍ قَالُوْا لَوْ لَا اجْتَبَیْتَهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَاۤ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ١ۚ هٰذَا بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
وَاِذَا
: اور جب
لَمْ تَاْتِهِمْ
: تم نہ لاؤ ان کے پاس
بِاٰيَةٍ
: کوئی آیت
قَالُوْا
: کہتے ہیں
لَوْلَا
: کیوں نہیں
اجْتَبَيْتَهَا
: اسے گھڑ لیا
قُلْ
: کہ دیں
اِنَّمَآ
: صرف
اَتَّبِعُ
: میں پیروی کرتا ہوں
مَا يُوْحٰٓى
: جو وحی کی جاتی ہے
اِلَيَّ
: میری طرف
مِنْ
: سے
رَّبِّيْ
: میرا رب
هٰذَا
: یہ
بَصَآئِرُ
: سوجھ کی باتیں
مِنْ
: سے
رَّبِّكُمْ
: تمہارا رب
وَهُدًى
: اور ہدایت
وَّرَحْمَةٌ
: اور رحمت
لِّقَوْمٍ
: لوگوں کے لیے
يُّؤْمِنُوْنَ
: ایمان رکھتے ہیں
اے نبی جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کرلی ؟ ان سے کہو " میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور حمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں
مشرکین مکہ حضور ﷺ سے معجزات کا مطالبہ ہر وقت کرتے رہتے تھے۔ یہاں ان کے بعض اقوال کو نقل کرکے دکھایا جاتا ہے کہ وہ کس قدر جاہل تھے اور رسالت کی حقیقت سے کس قدر بیخبر تھے۔ وَاِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰيَةٍ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا۔ اے نبی جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانیوں کیوں نہ انتخاب کرلی۔ یعنی تم نے اصرار رب العالمین کے سامنے کیوں نہ کیا کہ مجھے یہ نشانی اور معجزہ دیا جائے یا یہ مطلب تھا کہ تم نے از خود معجزے کا صدور کیوں نہ کیا۔ کیا تم نبی نہیں ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ رسالت کی ماہیت اور رسول کے فرائض منصبی سے واقف ہی نہ تھے۔ اسی طرح وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ رب العالمین کے دربار میں حضور ﷺ کس قدر با ادب تھے اور آپ کا طریقہ یہ تھا کہ اللہ کی جانب سے جو کچھ ملتا آپ اسے لے لیتے اور اگر کچھ نہ ملتا تو آپ از ٰخود مطالبہ نہ کرتے نہ کوئی تجویز دیتے۔ نہ آپ میں اس قدر طاقت تھی کہ کسی معجزے کا صدور وہ اپنی طرف ہی سے کرلیتے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے سامنے یہ اعلان کردیا جائے۔ قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ ۔ ان سے کہو میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے۔ میں نہ تو رب العالمین کے سامنے کوئی تجویز دیتا ہوں ، نہ اپنی طرف سے کوئی معجزہ ایجاد کرتا ہوں۔ میرے بس میں وہی کچھ ہے جو اچھے لوگوں کی جو تصویر پیش کی تھی وہ لوگوں کی نظروں کے سامنے تھی۔ حیقی رسالت اور رسول کے اصل منصب کی ماہیت کے ادراک کے لیے ان کے پاس کوئی علم نہ تھا۔ چناچہ حضور کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ان لوگوں کے سامنے وہ علمی حقائق پیش کریں جو ان کے لیے چشمہ بصیرت ہوں اور جن کو قرآن میں نازل کیا گیا ہے اور وہ ان سے جاہل ہیں۔ ان حقائق پر غور کرنے کے بجائے وہ معجزات طلب کرتے ہیں حالانکہ وہ قرآن پڑھ کر ان حقائق کو پا سکتے ہیں۔ هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔ بیشک قرآن بصیرت کی روشنی ہے ، اور رحمت الہی ہے لیکن ان لوگوں کے لیے جو اسے تسلیم کرلیں اور ایمان لائیں اور اس مال غنیمت کو لوٹ لیں کیونکہ یہ تو ہے ہی عامۃ الناس کی بھلائی کے لیے۔ وہ عرب جو جاہلیت میں ڈوبے ہوئے تھے وہ اس قرآن سے روگردانی کرکے اس کے بجائے نبی ﷺ سے خارق عادت معجزات طلب کرتے تھے جس طرح اس وقت لوگ نبیوں سے معجزات طلب کرتے تھے جب انسانیت دور طفولیت میں تھی اور اس وقت لوگ اپنے اپنے علاقوں میں محدود تھے اور عالمی سطح پر لوگوں کے درمیان علم و حکمت کا تبادلہ نہ ہوا تھا۔ اس وقت کی رسالتیں بھی علاقوں اور مختصر زمانوں کے لیے ہوا کرتی تھیں اور ان کا خطاب بھی ان ہی لوگوں تک محدود تھا جو اس وقت موجود تھے۔ بعد کے آنے والوں پر ان رسالتوں کا اطلاق نہ ہوتا تھا جنہوں نے ان معجزات کو نہ دیکھا تھا۔ وہ معجزات صرف ان لوگوں ہی کے لیے مفید تھے ، بعد میں آنے والوں کے لیے مفید نہ تھے ، جنہوں نے ان کو نہ دیکھا تھا اور شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔ قرآن کریم اس قدر معجزہ ہے کہ کوئی مادی معجزہ اس کے مقابلے میں معجزہ نہیں ہے۔ جس دور کو لیا جائے اور جس پہلو سے لیا جائے قرآن مجید حران کن ہے۔ یہ کسی وقت یا کسی دور کے لوگوں کے لیے ہی معجز نہیں ہے بلکہ تاقیامت معجزہ ہے۔ لفظاً و معناً معجز ہے۔ ذرا اس کا لفظی اور اس تعبیری پہلو ملاحظہ کیجیے۔ جاہلیت کے دور میں عربوں کے اندر جو فصاحت و بلاغت پائی جاتی تھی وہ ان کے اعتبار سے بالکل واضح معجزہ تھا وہ جس طرز ادا کے عادی تھے اور جس طرح وہ اپنے بازاروں اور تہواروں میں اس پر باہم فخر کیا کرتے تھے۔ ذرا دیکھیے کہ اس پہلو سے جس طرح وہ اس وقت معجز رہا تھا ، آج بھی ہے اور کوئی انسان آج تک ان بلندیوں کو نہیں چھو سکا حالانکہ قرآن نے ان کو اس وقت بھی چیلنج دیا تھا اور آج بھی دے رہا ہے۔ انسانوں میں سے جو لوگ تعبیرات کلامی سے واقف ہیں اور جن کو ادراک ہے کہ انسان کس قدر فصاحت و بلاغت تک پہنچ سکتا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اپنی طرز ادا کے اعتبار سے قرآن معجز ہے اور معجز رہے گا۔ اور یہ ماہرین اسلوب چاہے قرآن مجید پر ایمان لائے ہوں۔ چاہے نہ لائے ہوں وہ اس کے اعجاز کو مانتے ہیں کیونکہ یہ چیلنج جن اصولوں پر قائم ہے ان کے سامنے مومن اور کافر دونوں برابر ہیں۔ کبرائے قریش قرآن کریم کے ان چیلنجوں کو رات دن پڑھتے تھے ، لیکن ان کے پاس ان کے جواب کی کوئی سبیل نہ تھی حالانکہ وہ قرآن کریم کے منکر تھے اور اسے بالکل پسند نہ کرتے تھے۔ آج بھی ہر جاہل قرآن کریم کے ان چیلنجوں کو پاتا ہے مگر اس کے پاس جواب کی کوئی سبیل نہیں ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس لفظی اور اسلوبی اعجاز کے ساتھ ساتھ اس کتاب کے فطرت انسانی پر معجزانہ اثرات ہیں۔ بشرطیکہ انسانی فطرت اور اس کتاب کے درمیان رکاوٹیں ایک لمحے کے لیے بھی دور ہوجائیں۔ وہ لوگ جن کے دل سیاہ ہوچکے ہیں اور جن کے دلوں پر تہ بہ تہ جاہلیت کی گرد پڑی ہوئی ہو ، ان کے دل بھی بعض اوقات گرد جھاڑ کر اٹھ جاتے ہیں اور جب وہ قرآن کو سنتے ہیں تو ان کے دل بھی تلملا اٹھتے ہیں اور ان کے دل قرآن کریم کے مسحور کن اثرات میں گھر جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ بات کرتے ہیں اور بعض لوگوں کے کلام میں اصول و مذاہب اور مختلف افکار اور رجحانات ہوتے ہیں لیکن انسانی فطرت پر قرآن مجید کا جو اثر ہوتا ہے وہ ایک منفرد اثر ہوتا ہے۔ انسانی دلوں پر اس کی تلاوت کے مخصوص اثرات پڑتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم پڑھنے والوں کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ قریش اپنے دیر دست متبعین کو یہ مشورہ دیتے اور در اصل وہ خود اپنے آپ کو بھی یہی مشورہ دیتے تھے۔ ' لاتسمعوا لہذا القران والغوا فیہ لعلکم تغلبون " اس قرآن کی طرف کان نہ دھرو ، بلکہ اس میں شور مچاؤ شاید کہ تم غلبہ پا لو۔ وہ قرآن کریم کے اثرات خود اپنے نفوس کے اندر محسوس کرتے تھے ، وہ سمجھتے تھے کہ وہ ان اثرات کا مقابلہ نہ کرسکیں گے۔ آج ہمارے دور جدید کے کبراء بھی یہ چاہتے ہیں کہ وہ لوگوں کی توجہ قرآن کریم سے ہٹائیں لیکن قرآن کریم آج بھی غالب اور موثر ہے اور انسانی کلام کے اندر اگر قرآن کریم کی ایک یا دو آیات کو رکھ دیا جائے تو وہ واضح طور پر منفرد نظر آتی ہیں۔ ان کا اثر دوسرے کلام سے علیحدہ ہوتا ہے۔ انسانی احساس پر ان کا اثر گہرائیوں تک ہوتا ہے اور اس سے انسانی کلام بالکل جدا اور علیحدہ نظر آتا ہے۔ حالانکہ انسانی کلام بڑے تکلف اور نقش و نگار سے مزین کیا گیا ہوتا ہے۔ اب ذرا اس کتاب کے موضوع اور مواد پر غور کریں۔ قرآن کے مواد اور موضوعات پر کلام کے لیے ظلال القرآن کے مختصر صفحات میں کلام کی گنجائش نہیں ہے۔ کیوں کہ موضوع اور مفہوم کے اعتبار سے تو وہ بحر ناپید اکنار ہے۔ اس قدر مختصر صفحات میں کہاں کہا جاسکتا ہے۔ بہرحال انسان اور انسانی شخصیت کے ہر پہلو کو قرآن نے موضوع بحث بنایا ہے۔ انسانی شخصیت کو قرآن نے ہر جہت سے لیا ہے۔ ایک ہی رو میں انسانی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر بات کی ہے۔ انسانی شخصیت کے ہر دروازے سے یہ کتاب اندر داخل ہوتی ہے۔ انسانی تفکرات میں سے ہر فکر اور انسانی جذبات میں سے ہر جذبے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ قرآن کریم جب ذات انسان کے مسائل پر بحث کرتا ہے تو اس کا منہاج بحث بڑا انوکھا ہوتا ہے۔ انسان کا دل و دماغ اور اس کی فطرت جس بات کو محسوس کرتی ہے ، قرآن اسے لیتا ہے ، اس کی واضح شکل سمانے لاتا ہے اور اس موضوع پر انسان کی فطری ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ دیتا ہے۔ انسان کی پوشیدہ قوتوں کو یہ کتاب جگاتی ہے اور ان کو صحت مند راستے پر ڈالتی ہے۔ پھر قرآن کا منہاج ایسا حکیمانہ ہے کہ وہ انسانی فطرت کو لے کر قدم بقدم ، مرحلہ وار ، نہایت ہی تدریج کے ساتھ ، نرمی اور سہولت کے ساتھ بلندی پر چڑھاتا جاتا ہے۔ انسان اس راستے پر نہایت ہی جوش اور پرجوش طریقے سے اگے بڑھتا ہے ، اسے اپنی راہ بالکل واضح اور صاف نظر آتی ہے اور وہ یوں ترقی کرتا ہے جس طرح ایک انسان بلندی پر ایک سیڑھی عبور کرکے چڑھتا ہے اور بلندیوں کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے ار اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اور اس راہ پر بڑھتے ہوئے وہ علم و نظر ، جوش و خروش ، استقامت اور یقین ، اعتماد اور امید اور آرام اور اطمینان کے ساتھ ، اس کائنات کے پورے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ، خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے ، آگے بڑھتا جاتا ہے۔ قرآن کا عجیب منہاج و انداز یہ ہے کہ وہ فطرت انسانی کو ایک ایسے مقام سے بیدار کرتا ہے جس کے بارے میں کوئی شخص یہ اندازہ ہی نہیں کرسکتا کہ یہ کس قدر بیدار اور حساس مقام ہے۔ یا یہ کہ اس زاویہ سے فطرت انسانی زیادہ قبولیت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی فطرت اپنے اسی پہلو سے بیدار ہوتی ہے اور پرجوش انداز میں قرآنی ہدایات پر لبیک کہتی ہے ، اس لیے کہ جس ذات نے یہ قرآن نازل کیا ہے۔ وہی تو اس فطرت کی خالق ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ اس قدر رکھتا ہے جو قربت انسان کی شہ رگ نہیں رکھتی۔ یہ منہاج یا یہ مواد جسے قرآن کریم اس اسلوب و منہاج میں پیش کرتا ہے ، اس کے اس قدر وسیع پہلو ہیں جن پر قول و کلام حاوی نہیں ہوسکت۔ اسی لیے کہا گیا ہے : قل لوکان البحر مدادا لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ولو جئنا بمثلہ مدد۔ کہو کہ اگر اللہ کے کلمات کے لیے سمندروں کو سیاہی بنا دیا جائے تو یہ سمندر ختم ہوجائیں اور اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں ، اگرچہ ہم ان جیسے مزید سمندر ہی سے سیاہی بنائیں۔ اور دوسری آیت میں کہا گیا ہے : ولو ان ما فی الارض من شجرۃ اقلام ۔ اور سمندر سے سیاہی بنانے میں مزید سات سمندر استعمال کیے جائیں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں۔ راقم الحروف ، اللہ کے فضل و کرم سے 15 سال تک قرآن کریم کا نہایت ہی گہرا مطالعہ کرتا رہا ہے۔ اس عرصے میں وہ اس کتاب کے موضوعات کے مختلف پہلوؤں پر نگاہ دوڑاتا رہا ہے۔ انسان کے حاصل کردہ علوم کے مختلف میدانوں میں جہاں انسانی ذہن کی رسائی ہوئی ہے اور جہاں انسانی اذہان ابھی تک نہیں پہنچ سک کے۔ میں نے ان علوم کے بارے میں ان چیزوں کو مطالعہ بھی کیا جو انسانوں ان موضوعات کے بعض پہلوؤں کے بارے میں بطور انسانی کاوش پیس کی ہیں ، لیکن میں نے اس حقیقت کو پایا ہے کہ قرآن کریم کا فیض بہت ہی عام وسیع اور کھلا ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی علم ایک چھوٹا سا بحیرہ ہے ، بلکہ ایک چھوٹا سا کنوا یا سوراخ ہے بلکہ وہ ایک ایسا تالاب ہے جو مسلسل ٹھہراؤ کی وجہ سے بدبودار ہوگیا ہے۔ میں نے اس کائنات پر قرآن کی روشنی میں ایک کلی نگاہ ڈالی۔ اس کائنات کے مزاج ، اس کی ماہیت ، اس کی پیدائش و تخلیق اور اس کی ترقی اور اس کی پشت پر راز ہائے نہفتہ کو خوب پڑھا۔ اس کائنات کی خفیہ اور پشویشدہ صفات اور خصوصاً اس کی زندہ مخلوق پر غور کیا ، خصوصاً وہ تحریں بھی مطالعہ کیں جو اس کائنات کے بارے میں انسان نے اپنے علم و تجربے سے تحریر کیں۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے کتاب خصائص التصور الاسلامی وغیرہ) پھر انسان کے وجود ، اس کی نفسیات ، اس کی اصلیت ، اس کی نشوونما ، اس کی پوشیدہ صلاحیتوں ، اس کی سرگرمیوں کے دائروں ، اس کے وجود کی ساخت ، اس کے تاثرات ، اس کے میلانات اور دوسرے حالات اور راز جن کے بارے میں انسانوں نے بھی کچھ معلومات فراہم کی ہیں ، مثلاً علوم الحساب اور حیاتیات کے مختلف موضوع ، انسانی عقائد و ادیان اور اس کے اجتماعی فلسلفے ، ان موضوعات کا بھی میں نے بغور مطالعہ کیا۔ (دیکھئے الاسلام و مشکلات الحضار وغیرہ) پھر انسان کے وجود ، اس کی نفسیات ، اس کی اصلیت ، اس کی نشوونما ، اس کی پوشیدہ صلاحیتوں ، اس کی سرگرمیوں کے دائروں ، اس کے وجود کی ساخت ، اس کے تاثرات ، اس کے میلانات اور دوسرے حالات اور راز جن کے بارے میں انسانوں نے بھی کچھ معلومات فراہم کی ہیں ، مثلاً علوم الحساب اور حیاتیات کے مختلف موضوع ، انسانی عقائد و ادیان اور اس کے اجتماعی فلسفے ، ان موضوعات کا بھی میں نے بغور مطالعہ کیا۔ (دیکھیے الاسلام و مشکلات الحضار وغیرہ) پھر میں نے انسانی نظام ہائے حیات کا بھی مطالعہ کیا۔ ان نظاموں میں انسان کی سرگرمیوں کا بھی مطالعہ کیا ، اس میں انسانوں کے باہم روابط اور اختلافات کا بھی گہرا مطالعہ کیا۔ انسانی روابط کی تجدید و اصلاح کی اسکیموں پر بھی غور کیا۔ اور ان کے بارے میں ان موضوعات پر مطالعہ کیا جن کے بارے میں بہت سے مکاتیب فکر میں اور جن پر انسانوں نے کام کیا ہے مثلاً سیاسی ، اقتصادی اور اجتماعی مسائل (تفصیلات کے لیے دیکیے میری کتاب نحو مجتمع اسلامی) ان تمام شعبوں میں اور ان تمام موضوعات پر انسانی علوم و فنون کے مطالعے کے بعد جب میں نے قرآن مجید کو غور سے پڑھا تو معلوم ہوا کہ ان موضوعات کے بارے میں بڑی کثرت سے آیات موجود ہیں جن میں تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں اور جو علم کا خزانہ قرآن میں ہے وہ نہایت ہی حقیقی ، ٹھوس اور وسیع ہے۔ ان موضوعات پر سالہا سال تک غور کرتے ہوئے میں نے کبھی بھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ قرآن سے باہر ، کسی حوالہ سے مدد لی جائے۔ ہاں رسول اللہ ﷺ کے احوال و احادیث کی ضرورت بہرحال پڑتی ہے کیونکہ وہ کلام بھی آثار کلام الہی میں سے ہے۔ قرآن و سنت کے سوا ان موضوعات پر انسانوں نے جو کہا ہے وہ نہایت ہی کمزور اور ناقص ہے۔ اگر صحیح بھی ہو تب بھی تشفی بخش نہیں ہے۔ راقم الحروف نے ہر انسانی تحریر کے مقابلے میں قرآن کو مفصل اور تشفی بخش پایا۔ میں جو بات کہہ رہا ہوں ، ایک طویل عرصہ تک قرآن پر غور و فکر کرنے اور انسانی مسائل کے حل میں قرآن وسنت کی روشنی میں تلاش کرنے کی ضرورت کے تحت عملاً قرآن کے سائے میں رہنے کے بعد کہہ رہا ہوں۔ میں قرآن کی خوبیاں بیان کرکے قرآن کے بارے میں آپ کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کر رہا نہ تمام انسان قرآن کی تعریفیں کرکے اس کے کمال میں کوئی اضافہ کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں انسانوں کا ایک نہایت ہی منفرد گروہ اور نسل گراں قدر ہے ، یعنی صحابہ کرام ، ان کی تربیت ، ان کے علم اور ان کی راہنمائی کا سرچشمہ یہی کتاب تھی۔ اسی کتاب نے ان کو بنایا تھا۔ اس کے بعد انسانوں میں کوئی گراہ اس معیار کا تیار نہیں ہوسکا ، نہ اس سے قبل انسانی تاریخ میں صحابہ کی ٹکر کا کوئی گروہ ہمارے علم میں ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے انسانی تاریخ میں ایک گہرا اور وسیع انقلاب برپا کیا۔ لیکن اس عظیم انقلاب اور اس عظیم واقعہ کا انسانوں نے فی الحقیقت گہرا مطالعہ نہیں کیا۔ انسانی تاریخ میں گروہ صحابہ کے ذریعے جو انقلاب برپا کیا گیا اور جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ہے ، در حقیقت وہ اسی کتاب یعنی قرآن کے سرچشمے سے پھوٹا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر محمد ﷺ تک تمام رسولوں کے ہاتھوں جن معجزات کا صدور ہوا ، یہ معجزہ یعنی انسانیت کے انقلاب عظیم کا معجزہ ان تمام معجزات سے برتر اور ان پر بھاری ہے ، کیونکہ یہ ایک حقیقی ، قابل ملاحظہ اور زیر مشاہدہ معجزہ ہے۔ غرض گروہ صحابہ انسانی تاریخ کا ایک منفرد معجزہ تھے۔ اسلامی معاشرے کی پہلی ترکیب اس منفرد گروہ سے تھی ، اس کے بعد ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے تک اسلامی معاشرہ زندہ و تابندہ رہا اور اس میں اسلامی شریعت کے قوانین نافذ رہے۔ یہ معاشرہ اسلامی اقدار ، اسلامی حسن و قبح کے پیمانوں اور اسلامی ہدایات اور اشارات کا پابند رہا۔ یہ ہزار سالہ اسلامی معاشرہ بھی درحقیقت ایک دوسرا تاریخی معجزہ تھا خصوصاً جبکہ کوئی تاریخی مبصر اس اسلامی معاشرے اور دوسرے انسانی معاشروں کے درمیان تاریخی موازنہ کرے۔ یہ دوسرے جاہلی معاشرے مادی ترقی میں تو اسلامی معاشرے سے برتری کا دعوی کرسکتے ہیں لیکن انسانی تہذیب و تمدن میں وہ برتری کا دعوی نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ آج جدید جاہلیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی نفسیاتی ضروریات ، اپنی اجتماعی ضروریات اور اپنی زندگی کی بہبود قرآن کے بجائے کسی اور سرچشمے سے اخذ کرتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح جس طرح عرب جاہلیت کے پیروکار قرآن کریم کے علاوہ خوارق و معجزات کا مطالبہ کرتے تھے۔ عرب کے سادہ جاہلوں کو تو قرآن مجید کا یہ عظیم معجزہ اس لیے نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہایت ہی گہری جاہلیت اور جہالت میں مبتلا تھے اور ان کے ذاتی مفادات بھی قرآنی تعلیمات سے متضاد تھے۔ لہذا وہ قرآنی عجائبات کو پانے سے محروم رہے۔ رہی جدید جاہلیت تو وہ جہالت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تعلیمی معیار کے غرور کی وجہ سے قرآنی عجائبات کے دیکھنے سے محروم ہے ، حالانکہ علم کے یہ دروازے ، ان پر اللہ ہی نے کھولے ہیں لیکن انہوں نے علم کو مادی دنیا کے اندر محدود کردیا ، نیز انسانی ضروریات کے تحت آج دنیا کو جو ضروریات لاحق ہیں ان ضروریات کے حصول کے لیے انسانی زندگی بہت زیادہ منظم ہوچکی ہے اور تنظیم و تشکیل کے زاویہ سے جدید جاہلیت کے پرستار نہایت ہی غرور میں مبتلا ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ زیادہ تجربات کی وجہ سے دور جدید کی زندگی نہایت ہی منظم اور پختہ ہوچکی ہے اور مختل ضروریات کی وجہ سے پیچیدہ بھی ہوچکی ہے۔ اور اس جدید زندگی کے دلدادہ لوگ غرور میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ نیز چودہ سو سال سے یہودی اور صیہونی لابی اسلام دشمنی میں مبتلا ہے اور اس نے ان چودہ سو سالوں میں اسلام اور قرآن کے خلاف اپنی سازشوں کو لمحہ بھر کے لیے بھی موقوف نہیں کیا۔ یہودیوں کی پالیسی یہ رہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کی اس کتاب سے غافل کردیں۔ وہ اس کتاب سے ہدایات نہ لیں ، کیونکہ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنے طویل تجربات کے ذریعے یہ بات معلوم ہچکی ہے کہ مسلمان جب تک قرآنی ہدایات کی پیروی کرتے رہیں گے یہ لوگ ان پر قابو نہیں پا سکتے۔ لیکن اس بات کے لیے ایک شرط ہے کہ مسلمان کتاب اللہ کو اس طرح پکڑیں جس طرح دور اول کی لاثانی جماعت ، جماعت صحابہ نے اسے پختہ طریقے سے پکڑا تھا۔ یہ نہ ہو کہ وہ اس کی آیات کو تو اچھی طرح گاتے ہوں اور خوش الحانی سے پڑتے ہوں لیکن ان کی عملی زندگی سو فیصد اس کی تعلیمات کے برعکس ہو۔ یہ یہودیوں کی نہایت ہی خبیث اور مذموم سازش ہے یہ مسلسل مسلمانوں کے خلاف بروئے کار لائی جا رہی ہے۔ اس سازش ہی کا آخری نتیجہ وہ حالات ہیں جن میں وہ اقوام مبتلا ہیں جو اپنے نام مسلمانوں جیسے رکھتی ہیں ، حالانکہ وہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں شریعت الہیہ کو نافذ نہ کردیں۔ غرض اسی سازش کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر جگہ اس دین کے آثار کو مٹایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مواقع فراہم نہیں ہوتے کہ وہ اپنی زندگیوں کو قرآن کی ہدایات کے مطابق منظرم کریں اور اپنے تمام اختلافات و نزاعات میں بھی قرآن کو اس طرح حکم بنائیں جس طرح قرون اول کے مسلمان قرآن کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے تھے اور اپنے لیے قوانین و اصول قرآن کی روشنی میں بناتے تھے۔ آج حالت یہ ہے کہ اہل قرآن نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ ماسوائے حسن قراءت ، ترتیل کے اس کا مطالعہ نہیں کرتے ، اوہام اور تعویذوں کے سوا اس کا استعمال نہیں کرتے۔ یہ حالت گہری اور مذموم صیہونی اور صلیبی سازش کی وجہ سے ہے ، مسلمانوں کی جہالت اور غرور علم کی وجہ سے ہے اور مسلمانوں کے فکر و نظر کے عمومی فساد کی وجہ سے ہے۔ دور قدیمہ میں جاہلیت کے پرستار لوگوں کو اس سے اسی طرح غافل کرتے تھے کہ وہ اسے سننے اور اس پر غور کرنے کے بجائے خوارق عادت واقعات کے صدور کا مطالبہ کرتے تھے۔ دور جدید کے جاہل اس قرآن سے مسلمانوں کو دور رکھتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں اپنے بنائے ہوئے قرآن دیتے ہیں اور ابلاغ اور میڈیا کے جدید وسائل کے ذریعے وہ اپنے بنائے ہوئے نظریات کو لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کرتے ہیں اس قرآن کے بارے علیم وخبیر کا فیصلہ یہ ہے۔ هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور حمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔ اور قرآن کا مقام چونکہ یہی ہے ، اس لیے خود ہدایت دی جاتی ہے کہ تمہارا قرآن کے ساتھ رویہ یہ ہونا چاہیے۔ وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ جب قران تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو ، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے
Top