Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو رَّبَّكَ : اپنا رب فِيْ : میں نَفْسِكَ : اپنا دل تَضَرُّعًا : عاجزی سے وَّخِيْفَةً : اور ڈرتے ہوئے وَّدُوْنَ : اور بغیر الْجَهْرِ : بلند مِنَ : سے الْقَوْلِ : آواز بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام وَلَا تَكُنْ : اور نہ ہو مِّنَ : سے الْغٰفِلِيْنَ : بیخبر (جمع)
اور اے نبی ! اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
اس سورت کا خاتمہ اس ہدایت پر ہوتا ہے کہ ذکر الہی کی طرف منہ موڑ لو۔ خواہ یہ ذکر نماز میں ہو یا نماز کے علاوہ عام حالات میں ہو۔ ابن کثیر فرماتے ہیں " اللہ حکم دیتے ہیں کہ اسے دن کے شروع میں یاد کیا جائے ، دن کے آخر میں یاد کیا جائے اور بڑی کثرت سے یاد کیا جائے۔ اور دوسری جگہ حکم دیا ہے کہ ان اوقات میں اللہ تسبیح اور بندگی کرو۔ فسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب۔ پس اللہ کی تعریف کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے " یہ حکم اس وقت تھا جبکہ اسراء کی رات میں ابھی پانچ نمازیں فرض نہ ہوئی تھیں۔ یاد رہے کہ یہ آیت مکی ہے لیکن اس آیت میں لفظ غدو اور آصال استعمال ہوا ہے۔ غدو کے معنی دن کا اول حصہ ہے ، آصال اصل کی جمع ہے جس طرح ایمان جمع یمین ہے۔ تضرعا و خفیۃ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کو اپنے دل میں نہایت ہی عاجزی اور خوف و رجا کی حالت میں یاد کرو۔ زبان سے بھی ذکر الٰہی کرو مگر جہراً نہ کرو۔ اس لیے دون الجہر من القول کہا گیا۔ یعنی ہلکی آوز میں۔ ذکر الہی کا مستحب طریقہ یہی ہے کہ یہ چیخ و پکار کی صورت میں نہ ہو اور جب صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے یہ دریافت کیا " کیا ہمارے رب قریب ہیں تاکہ ہم اس کو ہلکی آواز میں پکاریں یا دور رہیں تاکہ ہم اسے بلند آواز سے پکاریں ، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی۔ واذا سالک عبادی عنی فانی اقریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو کہہ دیجئے کہ میں قریب ہوں اور پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارے۔ صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ سفروں میں سے کسی سفر میں لوگوں نے خدا تعالیٰ کو بلند آواز سے پکارنا شروع کردیا۔ ان سے حضور ﷺ نے کہا " اے لوگو ، ذرا اپنی آواز کو اپنے تک محدود رکھو ، تم نہ کسی غائب ذات کو پکار رہے ہو اور نہ کسی گونگی بہری ذات کو۔ جسے تم پکار رہے وہ سمیع بھی ہے اور قریب بھی ہے ، وہ تم میں سے ہر شخص کی سواری کی گردن سے زیادہ قریب ہے۔ ابن کثیر اس بارے میں ابن جریر اور عبدالرحمن ابن زید ابن اسلم کی رائے کو قبول نہیں کرتے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم کو سن رہا ہو وہ ہلکی آواز سے اللہ کو یاد کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے اس قول پر کوئی دلیل انہوں نے پیش نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے مراد بندوں کی طرف سے صبح و شام مطلق ذکر الہی ہے تاکہ وہ غافل نہ ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کے آخر میں فرشتوں کے ذکر میں کہا گیا ہے کہ وہ رات اور دن ذکر الہی میں مشغول رہتے ہیں۔ اور وہ اپنی بندگی اور ذکر میں نکلتے ہیں۔ اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ ۔ اس کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ مسلمان ان کی تقلید کریں اور اللہ کی اطاعت کریں اور کثرتے سے اسے یاد کریں اور بندگی بجا لائیں۔ امام ابن کثیر نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے اور جو احادیث نقل کی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم دور اول کے مسلمانوں کی تربیت کس طرح کر رہا تھا۔ حضرت نبی ﷺ بھی عربوں کی نفسیاتی تربیت اور رب تعالیٰ کی معرفت میں انہیں نہایت ہی لطیف حقائق سے آگاہ کرتے رہے تھے نیز ان کو بتایا جاتا تھا کہ ان کے ارگرد پھیلی ہوئی کائنات کی حقیقت کیا ہے۔ ان لوگوں کے سوالات اور اللہ کی جانب سے اور رسول اللہ کی جانب سے جوابات کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے فکر و عمل میں کس قدر عظیم اور دور رس انقلاب برپا کردیا گیا تھا اور یہ کتاب اللہ اور سنت رسول کا حیرت انگیز کارنامہ تھا۔ یہ ایک عظیم اور دور رس انقلاب تھا جو ان لوگوں کے لیے باعث رحمت تھا لیکن اے کاش کہ لوگ جانتے۔ یہ بات نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ ان نصوص میں جس ذکر کے بارے میں کہا گیا ہے وہ صرف زبانی ذکر نہیں ہے بلکہ اس سے مراد قلبی ذکر ہے ، اس لیے کہ جس ذکر سے مومن اور ذاکر کا دل مرتعش نہ ہو ، جس سے اس کا وجدان اور شعور متاثر نہ ہو ، جس ذکر کا اثر انسان کی ذات اور اعمال پر نہ ہو اور وہ ذکر عاجزی ، تضرع اور خوف کے ساتھ نہ کیا جائے تو اسے ذکر نہ سمجھا جائے گا بلکہ بعض حالات میں تو وہ اللہ کی شان میں گستاخی تصور ہوگا ذکر کا مفہوم تو یہ ہے کہ انسان نہایت ادب ، نہایت عاجزی اور نہایت ہی خوف و رجا کی حالت میں اللہ کو یاد کرے اور اللہ کی یاد کے ساتھ ساتھ اللہ کی عظمت اور جلالت شان کا تصور بھی کیا جائے اور دعا کی جائے کہ انسان اللہ کے غضب سے محفوظ ہوں ، صرف اس ذکر سے انسان کو روحانی جلا نصیب ہوسکتی ہے۔ جب زبان ضمیر اور قلب کے ساتھ حرکت کرتی ہو ، اور ہونٹ جب روح کے ہمرکاب ہوں تو یہ اس صورت میں ہوں کہ خشوع اور خضوع میں فرق نہ آئے ، نہایت ہی دھیمی آواز میں ہو اور چیخ و پکار اور شور و شغب کی صورت میں نہ ہو اور نہ ترنم اور غنا کی صورت مناسب ہے۔ اور نہ پریڈ میں اور طربیہ انداز میں۔ ذرا آیت پر دوبارہ نگاہ ڈالیں۔ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ ۔ اے نبی اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو ، دل ہی دل میں ، زاری اور خوف کے ساتھ ، اور زبان سے بھی ہلکی آواز میں۔ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ " صبح و شام " یعنی دن طلوع ہوتے وقت اور دن کے آخری وقت ہیں ، اس طرح کہ دن کے دونوں حصوں میں۔ انسان کا قلب اللہ کے ساتھ جڑا ہوا ہو ، ذکر الہی ان اوقات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، اللہ کی یاد تو ہر وقت قلب و نظر میں ہونا چاہیے۔ ہر وقت دل پر اللہ کی نگرانی قائم رہنا چاہیے ، ان اوقات کا خصوصاً ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ ان میں کائنات کے صفحات پر ایک نمایاں تغیر رونما ہوتا ہے ، رات سے دن اور دن سے رات نمودار ہوتی ہے۔ اور ایک حساس انسان کا دل اپنے ماحول میں اللہ کے عظیم کارناموں میں تغیرات اور انقلابات دیکھتا ہے۔ اس کائنات کے ظاہری احوال بدلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ ان اوقات میں انسان کا دل اور اس کا نفس قبولیت کے قریب تر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں بکثرت ایسے اوقات میں ذکر الٰہی کی ہدایت کی گئی ہے جن میں انسان کے قلب و نظر پر یہ کائنات بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اور اس طرح انسان کا دل نرم ہوتا ہے۔ اور وہ باری تعالیٰ کی ذات سے تعلق قائم کرنے کے لیے خوب تیار ہوتا ہے۔ مثلا مشکلات کے وقت فاصبر علی ما یقولون و سبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس و قبل الغروب و من اللیل فسبحہ وادبار السجود۔ جو باتیں یہ لوگ کرتے ہیں ان پر صبرو کرو ، اپنے رب کی تعریف کرو ، اس کی تسبیح کرو طلوع شمس اور غروب سے پہلے۔ رات کو بھی اللہ کی تسبیح کو اور سجدوں کے بعد بھی۔ ومن اللیل فسبح و اطراف النہار لعلک یرضی ۔ اور رات کے حصے میں تسبیح کرو۔ دن کے اطراف کے وقت بھی ، شاید کہ تم راضی ہوجاؤ۔ واذکر السم ربک بکرۃ واصیلا و من اللیل فاسجد لہ ، و سبحہ لیلا طویلا۔ اور اپنے رب کو صبح و شام یاد کرو ، رات کے ایک حصے میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوا کرو اور طویل رات میں اس کی تسبیح کرو۔ یہاں کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ان اوقات میں ذکر الٰہی کا حکم فرضیت صلوۃ سے پہلے نازل ہوا تھا ، جس کے اوقات معلوم ہیں اور اب ان اوقات میں ذکر الہی کی ضرورت یا حکم نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہاں جس ذکر کا بیان ہورہا ہے یہ نماز سے عام ہے اور اس ذکر کے اوقات فرض نمازوں کے اوقات کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ یہ ذکر نماز کی شکل کے علاوہ بھی ہوسکتا ہے ، یہ قلبی ذکر ہے ، یا قلب اور زبان دونوں کے ساتھ ہوسکتا ہے ، بلکہ یہ ان صورتوں سے بھی زیادہ عام ہے۔ ہر وقت اللہ کا مستحضر رہنا اور ہر وقت اللہ کی جلالت کا قلب و نظر پر جاری رہنا اور خفیہ اور اعلانیہ ہر حالت میں ، چھوٹے معاملے میں یا بڑے معاملے میں حرکت میں اور سکون میں ، نیت میں اور اعمال میں ، غرض ہر حال میں اللہ کو یاد کرنا ان آیات کا ماحصل ہے۔ صبح و شام کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لیے کیا گیا ہے کہ ان اوقات میں انسان کا قلب اور نظر قبولیت کے لیے تیار ہوتی ہے۔ اور اللہ جانتا ہے کہ اس وقت انسانی پر کائناتی اثرات ہوتے ہیں۔ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ ۔ ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جو غفلت کا شکار ہیں۔ یعنی ایسے لوگوں میں سے نہ بنو جو اللہ کی یاد سے غافل ہیں۔ جن ہونٹوں پر اور جن کی زبان پر اللہ کا نام نہیں آتا ، نہ ان کے قلب و نظر میں تصور خدا ہوتا ہے۔ جواب ذکر نہیں کرتے جس کے ساتھ دل کی دھڑکن وابستہ ہو ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان راہوں پر نہیں چلتے جن پر اللہ تعالیٰ چلنے کو پسند نہیں کرتے جسے اللہ دیکھے تو انہیں شرمندہ ہونا پڑے۔ وہ چھوٹی اور بڑی ہر بات میں اللہ کا لحاظ رکھتے ہیں۔ ایسا ہی ذکر ان آیات کا مفہوم ہے۔ اگر کسی ذکر کا اثر انسان کے اعمال اور اس کے طرز عمل پر نہیں ہوتا اور وہ اللہ کا اتباع نہیں کرتا تو وہ ذکر ذکر بھی نہین ہے اور نہ اس آیت کا مطلوبہ ذکر ہے۔ یعنی ایسے لوگوں میں سے نہ بنو جو اللہ کی یاد سے غافل ہیں۔ جن ہونٹوں پر اور جن کی زبان پر اللہ کا نام نہیں آتا ، نہ ان کے قلب و نظر میں تصور خدا ہوتا ہے۔ جواب ذکر نہیں کرتے جس کے ساتھ دل کی دھڑکن وابستہ ہو ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان راہوں پر نہیں چلتے جن پر اللہ تعالیٰ چلنے کو پسند نہیں کرتے جسے اللہ دیکھے تو انہیں شرمندہ ہونا پڑے۔ وہ چھوٹی اور بڑی ہر بات میں اللہ کا لحاظ رکھتے ہیں۔ ایسا ہی ذکر ان آیات کا مفہوم ہے۔ اگر کسی ذکر کا اثر انسان کے اعمال اور اس کے طرز عمل پر نہیں ہوتا اور وہ اللہ کا اتباع نہیں کرتا تو وہ ذکر ، ذکر بھی نہیں ہے اور نہ اس آیت کا مطلوبہ ذکر ہے۔ یعنی اللہ کو یاد کرو ، اور اس سے غفلت نہ کرو۔ تمہارا دل اس بات سے غافل نہ ہو کہ وہ مسلسل نگرانی کر رہا ہے انسان اس بات کا سخت محتاج ہے کہ ہر وقت اس کا جوڑ اللہ کے ساتھ رہے۔ صرف اس صورت میں وہ شیطانی وساوس سے بچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۭاِنَّهٗ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۔ اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو ، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اس سورة کے آغاز میں آدم و ابلیس کے معرکے کا تفصیلی بیان آیا تھا۔ پھر اس پوری سورة میں قافلہ ایمان کی کہانی بیان ہوتی رہی ہے۔ اور اس قافلے کی راہ میں جنوں اور انسانوں کے شیاطین جو رکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں ، مثلا اس شخص کی مثال کا بھی تفصیلی ذکر ہوا جسے اللہ نے اپنی نشانیاں دی تھیں۔ لیکن وہ ان سے نکل بھاگا۔ شیطان نے اس کا پیچھا کیا اور اسے گمراہوں کے ٹولے میں شامل کرکے چھوڑا۔ سورت کے آخر میں شیطان کے اکسانے کا ذکر ہوا اور حکم دیا گیا کہ ایسی حالت میں مداوا یہ ہے کہ تم اللہ کی پناہ میں چلے جاؤ۔ وہ جاننے اور سننے والا ہے۔ غرض قرآن مسلسل اور مربوط کلام ہے اور اس کے آخر میں حکم دیا جاتا ہے کہ ہر وقت نہایت ہی عاجزی کے ساتھ اللہ کو یاد کیا کرو۔ اور غفلت سے بچو۔ یہ حکم اس بات کے دوران آتا ہے جس میں اللہ نبی ﷺ کو حکم دیتے ہیں کہ عفو و درگزر کو اپنا شعار بناؤ۔ معروف باتوں کا حکم دو اور جاہلوں سے پہلو تہی کرو۔ لہذا یاد الہی در حقیقت اسلامی انقلاب کے نشانات منزل کا تکملہ اور آخری منزل ہے۔ اور یہ راہ رو منزل کے لیے وہ توشہ ہے جس کے ذریعے وہ مشکل ترین منازل طے کرسکتا ہے۔
Top