Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 51
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا١ۚ فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَ یَوْمِهِمْ هٰذَا١ۙ وَ مَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنالیا دِيْنَهُمْ : اپنا دین لَهْوًا : کھیل وَّلَعِبًا : اور کود وَّغَرَّتْهُمُ : اور انہیں دھوکہ میں ڈالدیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فَالْيَوْمَ : پس آج نَنْسٰىهُمْ : ہم انہیں بھلادینگے كَمَا نَسُوْا : جیسے انہوں نے بھلایا لِقَآءَ : ملنا يَوْمِهِمْ : ان کا دن ھٰذَا : یہ۔ اس وَ : اور مَا كَانُوْا : جیسے۔ تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں سے يَجْحَدُوْنَ : وہ انکار کرتے تھے
جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا ۔ اللہ فرماتا ہے کہ ” آج ہم بھی انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح وہ اس دن کی ملاقات کو بھولے رہے اور ہماری آیات کا انکار کرتے رہے ۔
اس طرح اس طویل منظر کی جھلکیاں سامنے آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں ۔ ابھی آخرت کی جھلکی ہے اور ساتھ ہی دنیا کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے ۔ ایک لمحہ ہم اس ان لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو آگ میں جل رہے ہیں ‘ جن کا خیال تھا کہ وہ اللہ کے حضور پیش نہ ہوں گے اور جنہوں نے آیات الہی کا انکار کردیا تھا حالانکہ ان کے پاس کتاب مفصل آچکی تھی جو بالکل واضح تھی اور اس کی تفصیلات اللہ کے علم پر مبنی تھیں ۔ انہوں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور اپنی پسند کے ادہام اور شکوک کو اختیار کرلیا ۔ دوسرے ہی لمحہ ہم دیکھے ہیں کہ یہ یہی لوگ دنیا میں اس کتاب کے انجام کا انتظار کر رہے ہیں اس میں جو ڈراوے درج ہیں ان کے ظہور کے منتظر ہیں ۔ انہیں اس انجام بد سے ڈرایا جاتا ہے مگر اس منظر میں وہ واقع ہوچکا ہے ۔ یہ عجیب مناظر ہیں جو اس کتاب کے صفحات میں پیش کئے گئے اور انہیں اس انداز میں یہی کتاب معجز بیان پیش کرسکتی تھی ۔ اس طرح یہ طویل منظر کشی یہاں ختم ہوجاتی ہے اور اس پر اللہ کی جانب سے یہ آخر تبصرہ آتا ہے ‘ جس میں لوگوں کو ان مناظر قیامت کی روشن یاد دہانی کرائی جاتی ہے اور لوگوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ اللہ کے رسولوں اور اللہ کی آیات کی تکذیب کا انجام کیا ہو گا ؟ کہا جاتا ہے کہ لوگ اس کتاب میں دیئے گئے انجام کے بارے میں انتظار کرتے ہیں تو یہ ہے اس کا انجام اور اس انجام کے دنتوبہ کی کوئی گنجائش نہ ہوگی ۔ مشکلات میں کوئی سفارش نہ چلے گی اور یہ بھی ممکن نہ ہوگا کہ آزمائش کے لئے دوبارہ چانس دیا جائے ۔ یوں یہ منظر ختم ہوتا ہے اور انسان اس منظر میں گم رہتا ہے ۔ جب یہ منظر ختم ہوتا ہے تو دیکھنے والا یہ محسوس کرتا ہے گویا وہ قیامت کے میدان سے لوٹ کر دنیا میں آگیا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پلک جھپکتے ہی ہم آخرت میں چلے گئے اور واپس آگئے ۔ یہ پورے مناظر زندگی کے سفرپر مشتمل ہیں ۔ زندگی کا طویل سفر ‘ حشر ونشر اور حساب و کتاب اور جزا و سزاء جبکہ اس سے قبل کے سبق میں انسانیت نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا جبکہ انسان کے جد امجد جنت میں تھے ان کی لغزش کی وجہ سے انسان جنت سے اترا تھا ۔ یوں قرآن کریم انسان کو اور اس کے تصورات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں ‘ زمان ومکان کے دفتر لپیٹ دیئے جاتے ہیں ‘ فاصلے مٹ جاتے ہیں اور انسان کو ملکوت السماوات کی سیرکرائی جاتی ہے اور یہ سیر چند لمحات میں کرا دی جاتی ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑے اور ڈرانے والوں کی باتوں کی طرف توجہ کرے اور سورة اعراف کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے کیا خوب کہا ۔ آیت ” کِتَابٌ أُنزِلَ إِلَیْْکَ فَلاَ یَکُن فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنذِرَ بِہِ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ (2) اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَیْْکُم مِّن رَّبِّکُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِہِ أَوْلِیَاء قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُونَ (3) ” یہ کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ‘ پس اے محمد ﷺ تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو ۔ اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعے سے ڈراؤ اور ایمان والے لوگوں کو نصیحت ہو ۔ “
Top