Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ
وَ
: اور
مَآ اَرْسَلْنَا
: بھیجا ہم نے
فِيْ
: میں
قَرْيَةٍ
: کسی بستی
مِّنْ نَّبِيٍّ
: کوئی نبی
اِلَّآ
: مگر
اَخَذْنَآ
: ہم نے پکڑا
اَهْلَهَا
: وہاں کے لوگ
بِالْبَاْسَآءِ
: سختی میں
وَالضَّرَّآءِ
: اور تکلیف
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَضَّرَّعُوْنَ
: عاجزی کریں
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اتر آئیں
جلد نمبر 3 آغاز۔ درس نمبر 78 ایک نظر میں اس سورة میں اب تک کے مضمون میں یہ سبق گویا ایک وقفہ ہے۔ اس سے قبل قوم حضرت نوح ، قوم ہود ، قوم صالح ، قوم لوط ، اور قوم شعیب (علیہم السلام) کے جو قصے بیان کئے گئے۔ اس وقفے میں ان پر مجموعی تبصرہ کیا گیا ہے۔ اور یہ وقفہ اس لئے کیا گیا تاکہ اس میں اس سنت الٰہیہ کا بیان کیا جائے جو اس کرۂ ارض پر جاری وساری ہے اور اس دنیا کی بستی کے مکذبین پر تقدیر الٰہی نے اسے نافذ کیا ہے ، یہاں لفظ " قریہ " استعمال کیا گیا جس سے مراد کوئی بڑا شبہہ ہے ، یا کوئی موجود مرکزی تہذیب ہے۔ یہ سنت الٰہیہ کا واحد اور اٹل قانون ہے اور اس کا نفاذ اللہ کی جانب سے تمام مکذبین پر ہوتا ہے۔ اور اسی سنت الٰہیہ سے انسانی تاریخ بنتی ہے ، بلکہ انسانی تاریخ کا اصلی پہلو ہی سنت الٰہیہ ہے۔ اور سنت الٰہیہ کا یہ کام اور غرض وغایت ہے کہ وہ جھٹلانے والوں کو رنج و الم میں مبتلا کرتی ہے۔ شاید کہ ان کے دل پسیج جائیں اور نرم ہوکر اللہ کی طرف مائل ہوجائیں اور اللہ کی حقیقت الوہیت اور اپنی حقیقت عبودیت کو اچھی طرح معلوم کرلیں۔ اور اگر وہ پھر بھی متوجہ نہ ہوں اور انہیں ہوش نہ آئے تو پھر اللہ ان مکذبین پر انی نعمتوں کی فراوانی کردیتا ہے۔ اور ان پر ہر طرف سے سہولیات اور نعمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ان کو ڈھیل دی جاتی ہے اور پھر ان کی آبادی بڑھ جاتی ہے۔ وہ ناز و نعمت میں گھر کر عیاشیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور یہ ان کے لئے آزمائش ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں وہ جن مشکلات میں مبتلا ہوئے ہیں ایسی ہی مشکلات ان سے قبل ان کے آباؤ اجداد پر بھی نازل ہوئی تھیں اور دنیا کے حالات ایسی ہی ڈگر پر نشیب و فراز کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ وقالوا قدمس اباءنا الضراء والسراء (اور وہ کہتے ہیں کہ ایسی ہی مشکلات میں ہمارے آباء بھی متبلا ہوئے تھے اور ایسی ہی خوشحالی بھی ان پر آئی تھی) وہ ایسی ہی سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں اور غفلت کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کو اللہ کی پکڑ آلیتی ہے اور ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ فراخیوں اور فراوانیوں اور مشکلات و مصائب میں اللہ کی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس آمائش میں اللہ کی جو حکمت ہوتی ہے وہ اس کا ادراک نہیں کرپاتے اور اللہ کے غضب میں جو لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ اور جو غافل اور لاپرواہ ہوتے ہیں ان کے انجام سے وہ نہیں ڈرتے اور وہ اسی طرح عیش و عشرت میں زندگی بسر کرتے ہیں جس طرح حیوان زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ اسی مدہوشی کی حالت میں ہوتے ہیں کہ ان پر عذاب الٰہی کا نزول ہوجاتا ہے۔ اگر وہ ایمان لاتے اور خدا خوفی کا رویہ اختیار کرتے تو ان کا یہ حال نہ ہوگا بلکہ ان پر آسمانوں سے مزید و برکات نازل ہوتیں اور زمین سے اور آسمانوں سے ان پر رزق نازل ہوتا اور ان پر اللہ اپنی طمانیت کی وہ حالت نازل کرتا جس سے ان کی زندگی نہایت اطمینان سے بسر ہوتی اور اس اطمینان اور فراخی کے بعد ان پر زوال اور بربادی کی کوئی حالت نہ آتی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ڈراتے ہیں جو ان ہلاک کئے جانے والے کے بعد زمین کے وارث اور اہل اقتدار بنائے گئے۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ غفلت اور غرور سے اپنے آپ کو بچاؤ اور ہر وقت بیدار رہو اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ ان کو اس تاریخی حقیقت کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں اللہ نے کئی اقوام کو پے در پے ہلاک کیا اور ان کی جگہ دوسری اقوام کو مواقع فراہم کئے مگر انہوں نے ہلاک ہونے والوں کے انجام سے نصیحت نہ پکڑی لہذا بستیوں والوں کا انتظار اللہ کا قانون مکافات کر رہا ہے اور انسانی تاریخ میں اس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ یہ وقفہ ، حضور ﷺ سے خطاب پر ختم ہوتا ہے۔ آپ کو کہا جاتا ہے تلک القری نقص علیک من انبیائہا۔ (یہ قومیں جن کے قصے ہم تمہیں سنا رہے ہیں) تاکہ آپ کو ان لوگوں کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ ان کا یہ انجام سنت الٰہیہ کے مطابق ہوا۔ فرمایا جاتا ہے۔ وما وجدنا لاکثرہم من عہد وان وجدنا اکثرہم لفسقین۔ (ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاس عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا) یہ آخری رسول اور اس آخری رسول کی امت تمام رسولوں کی اخلاقی دولت کے وارث ہیں اور صرف یہ رسول اور ان کی امت ہی ان تاریخی واقعات و اطلاعات سے فائدہ اور نصیحت لیتے حاصل کرتے ہیں۔ تشریح آیات 94 تا 102: یہاں سیاق کلام سے غرض وغایت یہ نہیں ہے کہ کسی متعین حادثے کو بیان کیا جائے بلکہ یہاں مقصد عمومی سنت الٰہیہ کا بیان ہے۔ یہاں کسی خاص قوم کے خدو خال بیان کرنا مطلوب نہیں ہیں ، بلکہ اللہ کے نظام قضا و قدر کے اقدامات کا بیان مقصود ہے۔ چناچہ یہاں اللہ کے اس ناموس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ جس کے مطابق یہ پورا نظام کائنات چل رہا ہے اور تمام واقعات اس کے مطابق رونما ہوتے ہیں اور اس ناموس کی وجہ سے اس جہان میں انسانی تاریخ اپنا سفر کرتی ہے اور " رسالت " بھی اس کرہ ارض پر ناموس الٰہی کا ایک حصہ ہے ، کیونکہ ناموس الٰہی بھی در اصل ایک وسیع تر اور عظیم تر رسالت ہے۔ یہ کہ اس جہان میں واقعات بغیر کسی پروگرام کے وقوع پذیر ہوتا ہے وہ تقدیر الٰہی کے مطابق ہوتے ہیں ، اس کی حکمت کے عین مطابق ہوتا ہے اور اس کے مقرر کردہ مقاصد و اہداف کے مطابق ہوتا ہے اور آخری نتائج مشیت الٰہیہ کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں اور یہ مشیت سنت الٰہیہ کے مطابق کام کرتی ہے اور یہ ناموس اور سنت دونوں مشیت الٰہیہ کے وضع کردہ ہیں۔ ماضی کی ان بستیوں کو جو واقعات پیش آئے وہ اللہ کی بےقید مشیت کی وضع کردہ سنت کے مطابق پیش آئے اور اسی طرح بعد میں آنے والی اقوام کو بھی اسی عالمی ناموس کے مطابق چلایا جائے گا۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق انسان کا ارادہ اور اس کی جدوجہد ، اس کی تاریخ کی تشکیل میں ایک اہم عنصر ہے ، لیکن انسانی جدوجہد اور انسانی ارادے کی بےقید مشیت کے وسیع دائرے کے اندر رہتے ہیں اور اللہ کا نظام قضا و قدر ان کو گھیرے ہوئے ہوتا ہے۔ واللہ بکل شیئ محیط۔ اور اللہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ انسان کا یہ ارادہ اور اس کی یہ جدوجہد اللہ کے نظام مشیئت اور نظام قضا وقدر کے اندر رہتے وہئے اس پوری کائنات کی حرکت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ یہ انسان اور اس کی جدو جہد اس کائنات سے متاثر بھی ہوتے ہیں اور متاثر کرتے بھی ہیں ، گویا عوامل اور مناظر کا ایک بڑا عجوبہ ہے جس سے انسانی تاریخ تشکیل پاتی ہے اور یہ دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی تاریخ کی اقتصادی تعبیر اور انسانی تاریخ کی طبیعاتی تعبیر اور انسانی تاریخ کی جغرافیائی تعبیر نہایت ہی محدود اور چھوٹے دائرے نظر آتے ہیں جبکہ اسلامی تصور تاریخ کا دائرہ بہت ہی وسیع ہے اور اس کے مقابلے میں یہ محدود دائرے انسان کے بنائے ہوئے کھیل نظر آتے ہیں اور بےڈھب لکیریں دکھائی دیتی ہیں۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو ، اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اتر آئیں۔ یہ بات محض کھیل تماشے کے طور پر نہیں ہوتی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت ہی بلند ہے کہ وہ لوگوں کو تنگی اور سختی میں محض کھیل تماشے کی غرض سے مبتلا کرے اور ان پر جسمانی اور مالی پریشانیاں آئیں۔ اللہ کی شان سے یہ تصور مطابقت ہی نہیں رکھتا کہ لوگوں کو رنج ومحن میں اس لئے مبتلا کیا جائے کہ الٰہ ان سے انتقام لیتا ہے اور کینہ کی تسکین کرتا ہے۔ جیسا کہ تمام بت پرستانہ مذاہب میں الٰہوں کی طرف اس قسم کے قصے مشہور ہیں اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان الٰہوں کا کام یہ ہے کہ وہ عبث مشغلوں اور انتقامی کارروائیوں میں ہر وقت لگے رہتے ہیں۔ اور انسانوں کے معمولی جرائم پر سخت سے سخت انتقامی کارروائی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اللہ کی جانب سے پھر لوگوں کو سختیوں اور مشکلات سے کیوں دو چار کیا جاتا ہے ؟ صرف اس لئے کہ جن لوگوں کی فطرت بالکل مسخ نہ ہوچکی ہو اور اس میں بھلائی کی کچھ نہ کچھ رمق موجود ہو ، وہ فطرت جاگ اٹھے اور وہ دل نرم ہوجائیں جن میں کچھ بھی لچک موجود ہے اور جو بالکل ہی پتھر نہ بن گئے ہوں اور یہ کہ یہ ضعیف انسان اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے جو قہار و جبار ہے اور وہ عاجزی اور تضرع سے اللہ کی طرف متوجہ ہوں ، اور اس کی رحمت کے طلبگار ہوں۔ اور اس عاجزی اور تضرع کے اظہار کے ذریعے اس بات کا اعلان کردیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں کیونکہ اللہ کی بندگی کرنا انسانی وجود کی اصل غرض وغایت ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسانوں کی جانب سے عاجزی کرنے اور بندگی کے اظہار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ انسان کی ضرورت اور اس کا مقصد وجود ہے۔ وما خلقت الجن والنس الا لیعبدون۔ ما ارید منہم من رزق وما ارید ان یطعمون۔ ان اللہ ھو الرزاق ذوالقوۃ المتین۔ " میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ ان سے کھانے کا طلبگار ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ رازق اور پختہ قوت کا مالک تو صرف اللہ ہی ہے "۔ اور حدیث قدسی میں آتا ہے کہ " اگر تمام انسان اور جن ، ایک شخص کے دل کی طرح اللہ کی عبادت اور بندگی پر جمع ہوجائیں تو یہ مکمل اجتماع اللہ کی حکومت میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کرسکتا اور اگر تمام جن و انس ایک شخص کے دل کی طرح اللہ کی معصیت پر جمع ہوجائیں تو بھی اللہ کی حکومت سے کسی چیز کو کم نہیں کرسکتے "۔ لیکن لوگوں کی جانب سے اعلان بندگی اور اللہ کے سامنے عجز و نیاز مندی کا اظہار خود ان کے لئے مفید ہے۔ انسان کی زندگی اور انسان کا معاشی نظام بھی اس سے اصلاح پذیر ہوتا ہے جب لوگ صرف اللہ کی بندگی اکا اظہار کرتے ہیں تو وہ اللہ کی بندگی اور غلامی کے سوا تمام بندگیوں اور غلامیوں سے نجات پا لیتے ہیں ، وہ شیطان کی غلامی سے بھی بچ جاتے ہیں جو انسان کو گمراہ کرنے کے درپے ہے ، اور اس سورة کے آغاز ہی میں بتا دیا گیا تھا کہ شیطان کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ انسانوں کو گمراہ کردے۔ اسی طرح اللہ کی غلامی اختیار کرکے انسان اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے بھی نجات پاتے ہیں اور وہ شیطان کی پیروی کرنے سے حیا کرتے ہیں اور اس طرح ان کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے کسی قول وعمل سے اللہ کے غضب کے مستحق نہیں ہوتے۔ وہ مشکل حالات میں بھی اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور عاجزی کرتے ہیں اور اس راہ پر استقامت کے ساتھ گامزن ہوتے ہیں جو انہیں آزادی کی طرف لے جاتی ہے ، جس میں ان کی اخلاقی تطہیر ہوتی ہے اور وہ ہوا و ہوس کے غلام بھی نہیں ہوتے اور دوسرے افراد کی غلامی سے بھی بالا ہوجاتے ہیں۔ چناچہ اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ ہر بستی کے باشندوں کے لئے ایک نبی بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ اسے جھٹلائیں اور پھر انہیں پکڑا جائے اور اس پکڑ کا آغاز اس طرح ہو کہ ان کو نفسیاتی اور روحانی مصائب میں مبتلا کردیا جائے اور ان کو بدنی اور مالی تاوان کی اذیت کا مزہ چکھایا جائے تاکہ یہ اذیتیں سہ کر ان کے دل دوبارہ زندہ ہوں۔ یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان رنج و الم میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی شخصیت کے اندر سے کمزوریاں دور ہوجاتی ہیں اور اس کے اندر تہذیب آجاتی ہے اور اندر سے خیر و برکت کے خشک سوتے تازہ ہو کر پھوٹ نکلتے ہیں۔ زندہ دلوں کے اندر احساس تیز ہوجاتا ہے اور انسان اللہ کی رحمتوں کے سائے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور پھر جب اندوہناک لمحات میں گھرے ہوئے ضعیف آدمی پر اللہ کی رحمت کی ہواؤں کے خوشگوار جھونکے چلنے لگتے ہیں تو ایسا انسان نہایت ہی اطمینان اور سکینت محسوس کرتا ہے۔ لعلہم یضرعون۔ شاید کہ وہ عاجزی پر اتر آئیں۔
Top