Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے فِيْ : میں قَرْيَةٍ : کسی بستی مِّنْ نَّبِيٍّ : کوئی نبی اِلَّآ : مگر اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اَهْلَهَا : وہاں کے لوگ بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَضَّرَّعُوْنَ : عاجزی کریں
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اتر آئیں
جلد نمبر 3 آغاز۔ درس نمبر 78 ایک نظر میں اس سورة میں اب تک کے مضمون میں یہ سبق گویا ایک وقفہ ہے۔ اس سے قبل قوم حضرت نوح ، قوم ہود ، قوم صالح ، قوم لوط ، اور قوم شعیب (علیہم السلام) کے جو قصے بیان کئے گئے۔ اس وقفے میں ان پر مجموعی تبصرہ کیا گیا ہے۔ اور یہ وقفہ اس لئے کیا گیا تاکہ اس میں اس سنت الٰہیہ کا بیان کیا جائے جو اس کرۂ ارض پر جاری وساری ہے اور اس دنیا کی بستی کے مکذبین پر تقدیر الٰہی نے اسے نافذ کیا ہے ، یہاں لفظ " قریہ " استعمال کیا گیا جس سے مراد کوئی بڑا شبہہ ہے ، یا کوئی موجود مرکزی تہذیب ہے۔ یہ سنت الٰہیہ کا واحد اور اٹل قانون ہے اور اس کا نفاذ اللہ کی جانب سے تمام مکذبین پر ہوتا ہے۔ اور اسی سنت الٰہیہ سے انسانی تاریخ بنتی ہے ، بلکہ انسانی تاریخ کا اصلی پہلو ہی سنت الٰہیہ ہے۔ اور سنت الٰہیہ کا یہ کام اور غرض وغایت ہے کہ وہ جھٹلانے والوں کو رنج و الم میں مبتلا کرتی ہے۔ شاید کہ ان کے دل پسیج جائیں اور نرم ہوکر اللہ کی طرف مائل ہوجائیں اور اللہ کی حقیقت الوہیت اور اپنی حقیقت عبودیت کو اچھی طرح معلوم کرلیں۔ اور اگر وہ پھر بھی متوجہ نہ ہوں اور انہیں ہوش نہ آئے تو پھر اللہ ان مکذبین پر انی نعمتوں کی فراوانی کردیتا ہے۔ اور ان پر ہر طرف سے سہولیات اور نعمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ان کو ڈھیل دی جاتی ہے اور پھر ان کی آبادی بڑھ جاتی ہے۔ وہ ناز و نعمت میں گھر کر عیاشیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور یہ ان کے لئے آزمائش ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں وہ جن مشکلات میں مبتلا ہوئے ہیں ایسی ہی مشکلات ان سے قبل ان کے آباؤ اجداد پر بھی نازل ہوئی تھیں اور دنیا کے حالات ایسی ہی ڈگر پر نشیب و فراز کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ وقالوا قدمس اباءنا الضراء والسراء (اور وہ کہتے ہیں کہ ایسی ہی مشکلات میں ہمارے آباء بھی متبلا ہوئے تھے اور ایسی ہی خوشحالی بھی ان پر آئی تھی) وہ ایسی ہی سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں اور غفلت کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کو اللہ کی پکڑ آلیتی ہے اور ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ فراخیوں اور فراوانیوں اور مشکلات و مصائب میں اللہ کی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس آمائش میں اللہ کی جو حکمت ہوتی ہے وہ اس کا ادراک نہیں کرپاتے اور اللہ کے غضب میں جو لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ اور جو غافل اور لاپرواہ ہوتے ہیں ان کے انجام سے وہ نہیں ڈرتے اور وہ اسی طرح عیش و عشرت میں زندگی بسر کرتے ہیں جس طرح حیوان زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ اسی مدہوشی کی حالت میں ہوتے ہیں کہ ان پر عذاب الٰہی کا نزول ہوجاتا ہے۔ اگر وہ ایمان لاتے اور خدا خوفی کا رویہ اختیار کرتے تو ان کا یہ حال نہ ہوگا بلکہ ان پر آسمانوں سے مزید و برکات نازل ہوتیں اور زمین سے اور آسمانوں سے ان پر رزق نازل ہوتا اور ان پر اللہ اپنی طمانیت کی وہ حالت نازل کرتا جس سے ان کی زندگی نہایت اطمینان سے بسر ہوتی اور اس اطمینان اور فراخی کے بعد ان پر زوال اور بربادی کی کوئی حالت نہ آتی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ڈراتے ہیں جو ان ہلاک کئے جانے والے کے بعد زمین کے وارث اور اہل اقتدار بنائے گئے۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ غفلت اور غرور سے اپنے آپ کو بچاؤ اور ہر وقت بیدار رہو اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ ان کو اس تاریخی حقیقت کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں اللہ نے کئی اقوام کو پے در پے ہلاک کیا اور ان کی جگہ دوسری اقوام کو مواقع فراہم کئے مگر انہوں نے ہلاک ہونے والوں کے انجام سے نصیحت نہ پکڑی لہذا بستیوں والوں کا انتظار اللہ کا قانون مکافات کر رہا ہے اور انسانی تاریخ میں اس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ یہ وقفہ ، حضور ﷺ سے خطاب پر ختم ہوتا ہے۔ آپ کو کہا جاتا ہے تلک القری نقص علیک من انبیائہا۔ (یہ قومیں جن کے قصے ہم تمہیں سنا رہے ہیں) تاکہ آپ کو ان لوگوں کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ ان کا یہ انجام سنت الٰہیہ کے مطابق ہوا۔ فرمایا جاتا ہے۔ وما وجدنا لاکثرہم من عہد وان وجدنا اکثرہم لفسقین۔ (ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاس عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا) یہ آخری رسول اور اس آخری رسول کی امت تمام رسولوں کی اخلاقی دولت کے وارث ہیں اور صرف یہ رسول اور ان کی امت ہی ان تاریخی واقعات و اطلاعات سے فائدہ اور نصیحت لیتے حاصل کرتے ہیں۔ تشریح آیات 94 تا 102: یہاں سیاق کلام سے غرض وغایت یہ نہیں ہے کہ کسی متعین حادثے کو بیان کیا جائے بلکہ یہاں مقصد عمومی سنت الٰہیہ کا بیان ہے۔ یہاں کسی خاص قوم کے خدو خال بیان کرنا مطلوب نہیں ہیں ، بلکہ اللہ کے نظام قضا و قدر کے اقدامات کا بیان مقصود ہے۔ چناچہ یہاں اللہ کے اس ناموس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ جس کے مطابق یہ پورا نظام کائنات چل رہا ہے اور تمام واقعات اس کے مطابق رونما ہوتے ہیں اور اس ناموس کی وجہ سے اس جہان میں انسانی تاریخ اپنا سفر کرتی ہے اور " رسالت " بھی اس کرہ ارض پر ناموس الٰہی کا ایک حصہ ہے ، کیونکہ ناموس الٰہی بھی در اصل ایک وسیع تر اور عظیم تر رسالت ہے۔ یہ کہ اس جہان میں واقعات بغیر کسی پروگرام کے وقوع پذیر ہوتا ہے وہ تقدیر الٰہی کے مطابق ہوتے ہیں ، اس کی حکمت کے عین مطابق ہوتا ہے اور اس کے مقرر کردہ مقاصد و اہداف کے مطابق ہوتا ہے اور آخری نتائج مشیت الٰہیہ کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں اور یہ مشیت سنت الٰہیہ کے مطابق کام کرتی ہے اور یہ ناموس اور سنت دونوں مشیت الٰہیہ کے وضع کردہ ہیں۔ ماضی کی ان بستیوں کو جو واقعات پیش آئے وہ اللہ کی بےقید مشیت کی وضع کردہ سنت کے مطابق پیش آئے اور اسی طرح بعد میں آنے والی اقوام کو بھی اسی عالمی ناموس کے مطابق چلایا جائے گا۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق انسان کا ارادہ اور اس کی جدوجہد ، اس کی تاریخ کی تشکیل میں ایک اہم عنصر ہے ، لیکن انسانی جدوجہد اور انسانی ارادے کی بےقید مشیت کے وسیع دائرے کے اندر رہتے ہیں اور اللہ کا نظام قضا و قدر ان کو گھیرے ہوئے ہوتا ہے۔ واللہ بکل شیئ محیط۔ اور اللہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ انسان کا یہ ارادہ اور اس کی یہ جدوجہد اللہ کے نظام مشیئت اور نظام قضا وقدر کے اندر رہتے وہئے اس پوری کائنات کی حرکت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ یہ انسان اور اس کی جدو جہد اس کائنات سے متاثر بھی ہوتے ہیں اور متاثر کرتے بھی ہیں ، گویا عوامل اور مناظر کا ایک بڑا عجوبہ ہے جس سے انسانی تاریخ تشکیل پاتی ہے اور یہ دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی تاریخ کی اقتصادی تعبیر اور انسانی تاریخ کی طبیعاتی تعبیر اور انسانی تاریخ کی جغرافیائی تعبیر نہایت ہی محدود اور چھوٹے دائرے نظر آتے ہیں جبکہ اسلامی تصور تاریخ کا دائرہ بہت ہی وسیع ہے اور اس کے مقابلے میں یہ محدود دائرے انسان کے بنائے ہوئے کھیل نظر آتے ہیں اور بےڈھب لکیریں دکھائی دیتی ہیں۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو ، اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اتر آئیں۔ یہ بات محض کھیل تماشے کے طور پر نہیں ہوتی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت ہی بلند ہے کہ وہ لوگوں کو تنگی اور سختی میں محض کھیل تماشے کی غرض سے مبتلا کرے اور ان پر جسمانی اور مالی پریشانیاں آئیں۔ اللہ کی شان سے یہ تصور مطابقت ہی نہیں رکھتا کہ لوگوں کو رنج ومحن میں اس لئے مبتلا کیا جائے کہ الٰہ ان سے انتقام لیتا ہے اور کینہ کی تسکین کرتا ہے۔ جیسا کہ تمام بت پرستانہ مذاہب میں الٰہوں کی طرف اس قسم کے قصے مشہور ہیں اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان الٰہوں کا کام یہ ہے کہ وہ عبث مشغلوں اور انتقامی کارروائیوں میں ہر وقت لگے رہتے ہیں۔ اور انسانوں کے معمولی جرائم پر سخت سے سخت انتقامی کارروائی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اللہ کی جانب سے پھر لوگوں کو سختیوں اور مشکلات سے کیوں دو چار کیا جاتا ہے ؟ صرف اس لئے کہ جن لوگوں کی فطرت بالکل مسخ نہ ہوچکی ہو اور اس میں بھلائی کی کچھ نہ کچھ رمق موجود ہو ، وہ فطرت جاگ اٹھے اور وہ دل نرم ہوجائیں جن میں کچھ بھی لچک موجود ہے اور جو بالکل ہی پتھر نہ بن گئے ہوں اور یہ کہ یہ ضعیف انسان اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے جو قہار و جبار ہے اور وہ عاجزی اور تضرع سے اللہ کی طرف متوجہ ہوں ، اور اس کی رحمت کے طلبگار ہوں۔ اور اس عاجزی اور تضرع کے اظہار کے ذریعے اس بات کا اعلان کردیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں کیونکہ اللہ کی بندگی کرنا انسانی وجود کی اصل غرض وغایت ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسانوں کی جانب سے عاجزی کرنے اور بندگی کے اظہار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ انسان کی ضرورت اور اس کا مقصد وجود ہے۔ وما خلقت الجن والنس الا لیعبدون۔ ما ارید منہم من رزق وما ارید ان یطعمون۔ ان اللہ ھو الرزاق ذوالقوۃ المتین۔ " میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ ان سے کھانے کا طلبگار ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ رازق اور پختہ قوت کا مالک تو صرف اللہ ہی ہے "۔ اور حدیث قدسی میں آتا ہے کہ " اگر تمام انسان اور جن ، ایک شخص کے دل کی طرح اللہ کی عبادت اور بندگی پر جمع ہوجائیں تو یہ مکمل اجتماع اللہ کی حکومت میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کرسکتا اور اگر تمام جن و انس ایک شخص کے دل کی طرح اللہ کی معصیت پر جمع ہوجائیں تو بھی اللہ کی حکومت سے کسی چیز کو کم نہیں کرسکتے "۔ لیکن لوگوں کی جانب سے اعلان بندگی اور اللہ کے سامنے عجز و نیاز مندی کا اظہار خود ان کے لئے مفید ہے۔ انسان کی زندگی اور انسان کا معاشی نظام بھی اس سے اصلاح پذیر ہوتا ہے جب لوگ صرف اللہ کی بندگی اکا اظہار کرتے ہیں تو وہ اللہ کی بندگی اور غلامی کے سوا تمام بندگیوں اور غلامیوں سے نجات پا لیتے ہیں ، وہ شیطان کی غلامی سے بھی بچ جاتے ہیں جو انسان کو گمراہ کرنے کے درپے ہے ، اور اس سورة کے آغاز ہی میں بتا دیا گیا تھا کہ شیطان کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ انسانوں کو گمراہ کردے۔ اسی طرح اللہ کی غلامی اختیار کرکے انسان اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے بھی نجات پاتے ہیں اور وہ شیطان کی پیروی کرنے سے حیا کرتے ہیں اور اس طرح ان کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے کسی قول وعمل سے اللہ کے غضب کے مستحق نہیں ہوتے۔ وہ مشکل حالات میں بھی اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور عاجزی کرتے ہیں اور اس راہ پر استقامت کے ساتھ گامزن ہوتے ہیں جو انہیں آزادی کی طرف لے جاتی ہے ، جس میں ان کی اخلاقی تطہیر ہوتی ہے اور وہ ہوا و ہوس کے غلام بھی نہیں ہوتے اور دوسرے افراد کی غلامی سے بھی بالا ہوجاتے ہیں۔ چناچہ اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ ہر بستی کے باشندوں کے لئے ایک نبی بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ اسے جھٹلائیں اور پھر انہیں پکڑا جائے اور اس پکڑ کا آغاز اس طرح ہو کہ ان کو نفسیاتی اور روحانی مصائب میں مبتلا کردیا جائے اور ان کو بدنی اور مالی تاوان کی اذیت کا مزہ چکھایا جائے تاکہ یہ اذیتیں سہ کر ان کے دل دوبارہ زندہ ہوں۔ یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان رنج و الم میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی شخصیت کے اندر سے کمزوریاں دور ہوجاتی ہیں اور اس کے اندر تہذیب آجاتی ہے اور اندر سے خیر و برکت کے خشک سوتے تازہ ہو کر پھوٹ نکلتے ہیں۔ زندہ دلوں کے اندر احساس تیز ہوجاتا ہے اور انسان اللہ کی رحمتوں کے سائے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور پھر جب اندوہناک لمحات میں گھرے ہوئے ضعیف آدمی پر اللہ کی رحمت کی ہواؤں کے خوشگوار جھونکے چلنے لگتے ہیں تو ایسا انسان نہایت ہی اطمینان اور سکینت محسوس کرتا ہے۔ لعلہم یضرعون۔ شاید کہ وہ عاجزی پر اتر آئیں۔
Top